Skip to content
محرم الحرام کے مقدس مہےنے کا آغاز ہو چکا ہے‘اِس مہینے میں تاریخِ اسلام کا عظیم سانحہ واقعہ کربلا کی صورت پیش آیا، جس میں خانوادہ رسولﷺ اور نواسہ رسول حضرتِ امام حسینؑ کو شہید کر دیا گیا۔ حضرتِ امام حسینؑ کی عظمت اور شان بہت بلند اور ان سے محبت ایمان کا حصہ ہے، ان کے ساتھ ساتھ تمام صحابہ کرام، اہلِ بیتِ عظام اور دیگر بزرگ شخصیات کا ذکر نہایت ادب و احترام اور عقیدت سے کرنا چاہئے۔ملی طور پراتحادِ امت کی بنیادیں فراہم کر نے کیلئے ہمیں اس سوچ کو اپنانا ہوگا کہ اسلام نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ ایک دین یعنی مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کو دین ودنیااور اسلام و سیاست کے الگ الگ خانوں میں بانٹنا مناسب نہیں اور نہ ہی دنیا اور سیاست سے لاتعلق رہنا روا ہے۔ ایسی مذہبی سوچ کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ جس طرح دنیا اور سیاست کوترک کرنا مناسب نہیں اسی طرح دین کو دنیا اور اسلام کو سیاست کے تابع کرنا بھی نا مناسب ہے۔ لہذا دنیا اور سیاست کو دینِ اسلام کے تابع رکھنا مطلوب ہے۔ شکست خورد ہ سوچ کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس بنیادی تعلیم سے واضح ہے کہ دینِ اسلام، ہر فرد کا محض انفرادی معاملہ نہیں ہے ۔ یہ تو تمام انسانوں کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ اس کے نظامِ عدل،نظامِ حکمرانی اور دیگر نظاموں کا دائرہ کار اجتماعیت کا غماز ہے۔ حتی کہ نماز کا نظام بھی جماعت کامتقاضی ہے۔ روزوں اور زکواة کا نظام بھی اپنا ایک اجتماعی رنگ رکھتا ہے۔ پھر حج کی اجتماعیت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔اس کے باوجود ہم مسلمانوں نے، اسلام کو اپنا اپنا نجی معاملہ قرار دے رکھا ہے۔ اس غلط اور تباہ کن سیکولر سوچ کی اصلاح بھی ناگزیر ہے۔اسلام پرتشد طریقہ کی قطعا اجازت نہیں دیتا۔ ہم سعی اور جدوجہد کے مکلف ہیں۔کامیابی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ لادینی، سیکولر نظام کا تسلسل قائم ہے، صرف پارٹیاں اورچہرے بدل رہے ہیں۔ اسلام کا نظام آئے گا تو اللہ ہم سے راضی ہوگا اور پھر امتِ مسلمہ بھی، امتِ واحدہ بن جائے گی۔ اتحادِ امت کے اہم عملی تقاضے ہیں جن کو پورا کرکے ہم اسلام، پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکا م بنا سکتے ہیں۔ اسلام، پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہمارے باہمی چھوٹے چھوٹے اختلافات کا سہارا لے کر ہی ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہماری انہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر وہ ہم پرانتہاپسندی، شدت پسندی اور دہشت گردی کا الزام لگا رہا ہے۔ اسلام امن اور رواداری کا علمبردار دین ہے۔ یہ بھائی چارے اور اخوت و محبت کا درس دیتا ہے۔ یہ انسانوں کے اندر پہلے ذہنی انقلاب پرپا کرتا ہے۔ اس کے بعد اتحاد واتفاق کے ساتھ ،پرامن طور پر اسلامی شریعت کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کا سبق دیتا ہے۔ یہ کسی مرحلے پر بھی باہمی جنگ وجدال کی اجازت نہیں دیتا۔ جو گروہ اسلامی شریعت کے نام پر لوگوں میں نفرتیں پھیلاتے ہیں اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں وہ قوم وملک کے دشمنوں کا کام آسان کرتے ہیں۔ہمارے تمام بحرانوں کا حل اسلامی تعلےمات پر عملدرآمد میں ہے اور یہ حل سول اور ملٹری حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جتنی جلد اس طرف آجائیں مسائل حل ہو جائیں گے اور جتنی دیر عوام کو اسلام سے دور رکھیں گے، بحران اور بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس سے اتحادِ امت بھی قائم ہوگا جس کی آج سخت ضرورت ہے اور دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہوگاجو ایک ناسور بن چکا ہے۔ لہذااسلامی پاکستان ہی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔ عوام کی مرضی ومنشا بھی یہی ہے اور اللہ کی رضا بھی اسی میں ہے۔اسلام امن پسند مذہب ہے۔ دہشت گردی انتہا پسندی کی اس میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک من حیث القوم مسلمان انصاف تحمل وبرداشت اور علم سے محبت کے فلسفے پر عمل پیرا رہے وہ دنیا پر حکمرانی کرتے رہے اور جب انہوں نے ان اصولوں پر روگرادنی کی اور باہم دست گریبان ہوئے فرقہ واریت کی لعنت سے دوچارہو گئے۔ ہم اشتعال انگیز تقریریںکرتے ہیں فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔ بات بات پر لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ذاتی انا اور انتقامی جذبہ ہمارے اندر سرایت کر چکا ہے۔ ہم ایک دوسرے کر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم ایسے گمبھیر مسائل میں کچھ اس طرح الجھ کر رہ گئے ہیں کہ ہمارے پاس غورو خوض کےلئے وقت ہی نہیں کہ ہم ان مسائل سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں؟ یہ سوچیں کہ ہم دنیا میں کیوں زیر عتاب ہیں؟ یقینا اس میں جہاں ہماری دیگر بداعمالیاں شامل ہیں۔ وہاں ہماری صفوں میں عود آنے والی فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان کے اندر فرقہ واریت‘ تخریب کاری اور دہشت گردی کے اتنے بڑے بڑے واقعات ہوئے جن سے جہاں پوری قوم سوگوار ہوئی وہاں امن و امان کے حوالے سے بیرونی دنیا میں وطن عزیز کی ساکھ خراب ہوئی۔اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے خیالات پروان چڑھائیں جس سے ہمارے اندر مذہبی رواداری ، محبت اور ایثار کے جذبے بیدار ہوں۔ دنیا کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ترقی پسند‘ اعتدال پسند اور امن و بھائی چارے کا دین ہے اگر ہم قول و عمل اور کردار سے یہ عملی ثبوت دیں تو ہماری مساجد ہماری امام بارگاہیں ہمارے مدارس ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے علم محبت اور تحمل و برداشت کی تربیت گاہیں بن جائیں۔اگر ہم اپنے رویوں میں اعتدال پیدا کر لیں، انتہا پسندی سے اجتناب کریں، جدید علوم سے بہرہ ور ہو جائیں اور اسلام کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی عملی زندگیوں پر نافذ کرلیں تو ہم دہشت گردی کا الزام لگانے والوں کو ان کا اصل مقام یاد دلا سکتے ہیں۔ یہ علما کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی اعتدال پسندی اورتحمل و برداشت کی حقیقت حال ان حلقوں پر واضح کریں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ پاکستان کو دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی نے بے حد نقصان پہنچایا ہے جس کے قلع قمع کے بغیر یہاں امن وسلامتی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ ہمیں دنیا کے اندر بہتر مفاہمت ہم آہنگی اور اسلامی اقدار کو فروغ دینا ہے۔ دنیا کے سامنے اسلام کے عظیم مذہب کے تشخص کو اجاگر کرنا ہے۔اس تناظر میں محرام الحرام کا نازک مہینہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم ہوشمندی اور صبروتحمل کے جذبات کا عملی مظاہرہ کریں۔ ہمیں ایسے شرپسندوں کی سازشوں کو بھانپنا ہوگاجو ہمارے جذبات کو ابھار کر ایسی آگ لگانا چاہتے ہیںجس سے اسلام اور پاکستان کے امیج کو زک پہنچے۔ہمیں دشمن کی ان مکروہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیداکرنا ہوگی۔ ہمیں فرقہ واریت کے عفریت سے نکلنا ہوگا، صوبائیت کے چنگل سے آزاد ہونا ہوگا، قوم پرستی کے آسیب سے جان چھڑانا ہوگی۔ یہ امراض ہمارے خود پیدا کردہ ہیں جن سے جان سے نجات کے لئے بھی ہمیں خود ہی سعی کرنا ہوگی۔ اگر ہم اپنی ذات، انفرادی مفادات، سیاسی وفروعی وابستگیوں سے بالا ترہوکر اسلام اور پاکستان کی فلاح و بہبود کا خیال کریں تو ہم اندورنی و بیرونی سطح پر دشمن کی تمام ریشہ دوانیوں کو خاک میں ملا سکیں گے۔اس عشرہ میں دوران خطبا ومقررین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اشتعال انگیز تقاریر سے گریز کریں، جرائد ورسائل میں قابل اعتراض مواد شائع نہ کریں ، نوجوان جذبات کے ساتھ ساتھ حقائق بینی اپنائیں ، ارباب حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ دوران محرم امن وامان کو اپنی ترجیحی بنیادوں میں شامل رکھیں، عشرہ محرم الحرام کی مجالس میں کیونکہ تمام فرقے شرکت کرتے ہیں لہذا اتحاد اسلامی کیلئے یہ بہترین پلیٹ فارم ہے ۔محرم الحرام میں شہادت عظمی کے ہر پہلو کو اجاگر کرنا ضروری ہے ، کربلا نے کالے گورے، عربی عجمی،امیرو غریب اور آقا وغلام کے امتیاز مٹادئیے ، اہرام مصر سے بابل و نینوا تک ، موہنجودڑو سے ہڑپہ وٹیکسلا تک،اردن میں اصحاب کہف کی غار سے لے کر طور و نیل تک، آثار قدیمہ کی تاریخ پھیلی ہے مگر ایسے اوراق نادر کسی کے صفحہ قرطاس پر رقم نہیں جیسے کربلا کی دھرتی پر رقم ہیں ۔ہر مذہب وقوم میں ذکر حسینؑ کارواج ہے۔کربلا والوں نے ہمیں نامساعد حالات میں بھی دین پر چلنا سکھایا ۔ہمےں چاہیے کہ وہ امام عالی مقام کی فکر کو عام کریں۔ہمےں امت محمدیہ کے درمیان وحدت و اتحاد ، مفاہمت و یگانگت اور عفو و درگزر کو رواج دینا ہوگا۔دوسروں پر فتوے لگانے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا،کربلا والوں کے پیغام کو نعروں تک محدود نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان کے ایثار کو مشعل راہ قرار دے کر طاغوت سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ ذاتی یا خاندانی ، فروعی یا علاقائی مفادات سے ہٹ کر اجتماعی،آفاقی اور دینی مفادات کے لئے کوششےں کرنا ہوں گی ۔سوشل میڈیا ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کی قربانی کے فلسفے کو اجاگر کرنا ہوگا۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں