گلگت بلتستان میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ منعقدہ اجلاس کی صدارت اجلاس میں گلگت بلتستان میں آئے روز ٹریفک حادثات پر گہرے افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گےا کہ گزشتہ چند دنوں سے بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں ٹریفک حادثات میں قیمتی جانوں کا ضیاع ایک معمول بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے ان حادثات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان ناخوشگوار حادثات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے، قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ان حادثات کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حادثات کا شکار ان علاقوںمیںآنے والے سیاح ہیں جن کی کثیر تعداد اور ڈرائیورز ان کھٹن راستوں پر ڈرائیونگ اور ممکنہ خطرات کو جانچنے کی مہارت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے یہ افسوس ناک حادثات پیش آرہے ہیں۔ انہوں نے چیف سیکرٹری اور آئی جی موٹرویز پر زور دیا کہ سیروسیاحت کی غرض سے آنے والے افراد کے ڈرائیونگ لائسنسز کی چیکنگ کی جائے اور مزید یہ کہ ان تمام شاہراﺅں پر سیاحوں کو دشوار گزار راستوں کے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے پیشگی خبردار کیا جائے۔ ایسے پوائنٹس جہاں پر ممکنہ حادثات ہونے کے خطرات زیادہ ہیں وہاں مختلف سائن بورڈز بھی نمایاں آویزاں کرنے کے بھی فوری اقدامات کیے جائیں اور ایسے سائن بورڈ لگائے جائیں جنہیں مسافر بآسانی پڑھ اور سمجھ سکیں، انہوں نے ممبر این ایچ اے کو ہدایت کی کہ شاہراہ بلتستان اور داسو تا ہنزہ شاہراہ پر سروے کر کے سائن بورڈز اور حفاظتی دیوار کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔گزشتہ پیش آنے والے حادثات میں زیادہ تر کی وجہ تیز رفتاری تھی جس کی روک تھام کے لیے ان شاہراﺅں پر موٹر وے پولیس کی تعیناتی ناگزیر ہو چکی ہے۔کسی بھی قوم کے تہذیب و تمدن کا اندازہ اس کے ٹریفک کے نظام کودیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔مہذب معاشرے میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ٹریفک کا نظام بھی نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ گزشتہ چند عشروں کے دوران تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سڑکوں پر رش زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ہر پچیسویں سیکنڈ میں دنیا کے کسی کونے میں ایک شخص سڑک کے حادثہ میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ٹریفک حادثات دنیا میں اموات کی نویں بڑی وجہ ہیں جن کی وجہ سے ہر سال تیرہ لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور تقریبا تین کروڑ لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔مجموعی طور پر ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہر سال دنیا کو 518 بلین ڈالرز کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے جو معاشی زوال کی بڑی وجہ ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں اس جانب خصوصی توجہ نے جہاں سڑک حادثات اور ان کی شدت کی شرح کو نہ صرف کم کیا ہے، وہیں فضائی آلودگی ، شور اور فیول کے استعمال میں بھی کمی حاصل کی ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث پھیلتے شہروں میں مو ٹر ویکلز کی تعداد میں اضافہ آبادی کے بڑھنے کی نسبت قدرے زیادہ تیز رفتاری سے جاری ہے۔ اس سے ٹریفک کی بہتر انتظام کاری اور سڑکوں کو ہر طرح کی سواری اور پیدل چلنے والوں کے لئے محفوظ بنانے کے عمل کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس صورتحال کے باوجود ہر سطح پر ٹریفک کے نظام کو محفوظ بنانے ، لاگو کرنے اور اپنانے سے بے نیازی کے انفرادی اور اجتماعی طرز عمل کا حاصل ترقی پذیر دنیا میں روز بروز بڑھتے ہوئے سڑک حادثات، فضائی اور شور کی آلودگی کا محفوظ حدود سے بڑھ جانا جسمانی نقصانات اور نفسیاتی اثرات کا باعث بن کر اپنا زبردست خراج وصول کر رہا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لاپرواہی کا یہ طرزعمل اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔اور ملک میں سڑک حادثات کے واقعات متعلقہ اداروں کی عوامی تحفظ کے بارے میں اقدامات کی سنجیدگی اور بطور شہری اورانفرادی ہماری اپنی ذمہ داریوں کی بجا آوری میںمخلصی کی حقیقت کو عیاں کر رہی ہے۔ نتیجتا ہم میں سے اکثر ہر روزان حادثات میں اپنے پیاروں کو زخمی اورمعذوری کے علاوہ موت کے منہ میں جاتا دیکھتے ہیں۔لیکن پھر بھی اصلاح کی دل سے کوشش نہیں کررہے ۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سڑک حادثات کی اموات چین میں ہوتی ہیں جو 2013 میں2 لاکھ 61 ہزار3 سو 67 تھے جواس طرح ہونے والی اموات کا 22 فیصد تھیں۔ اس کے بعد بھارت اورپھر برازیل کا نمبر ہے۔پاکستان میںسڑک حادثات کے ملک گیر اعداد وشمار کو اکٹھا کر کے شائع کرنے کا اہتمام وفاقی ادارہ شماریات کرتا ہے۔ یہ اعداد وشمار صوبائی پولیس ریکارڈ سے مرتب کئے جاتے ہیں۔ جو کہ حقیقی صورتحال کی مکمل عکاسی نہیں کر تے۔ کیونکہ سڑک حادثات اکثر قانونی پیچیدگیوں اور پولیس کے رویہ کے باعث رپورٹ ہی نہیں کرائے جاتے جس کی وجہ سے یہ اعدادوشمارملکی سڑک حادثات کی شدت کی مکمل منظر کشی کرنے سے عاری ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان سڑک حادثات کے باعث رونما ہونے والی اموات کے حوالے سے دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ ہنگامی صورتحال چاہے کوئی بھی ہو۔ بروقت امدادی کارروائیوں سے نہ صرف حادثہ ‘آفت کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ کئی ایک قیمتی جانوں کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔ شہری زندگی میں سڑک حادثات میں ہنگامی خدمات مہیا کرنا دنیا بھر کے ریسکیو اداروں کا ایک اہم کام ہے کیونکہ حادثہ کا شکار لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتی زندگی کو بچانے کےلئے بروقت طبی امداد سڑک حادثات کے جانی نقصان کو اور معذوری کے امکانات کو کم کرنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ لیکن شہروں میں موجود ٹریفک کے اژدھام میں کم سے کم وقت میں جائے حادثہ تک پہنچنا اور زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنا ، شدید زخمیوں کو جلد از جلد اسپتال تک پہنچانا مستعدی، مہارت اور فرض شناسی کی اعلی اقدارکا متقاضی ہے۔ٹریفک قوانین کا احترام مہذب قوموں کا شعار ہے، مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لیے نہ صرف سخت قوانین موجود ہوتے ہیں بلکہ عوامی شعور کی بیداری کے لیے مختلف ادارے بھی قائم کیے جاتے ہیں، دیگر شعبوں کی طرح پاکستان میں ٹریفک کے مسائل بھی اسی طرح حل طلب ہیں جس طرح دوسرے بڑے اور سنگین مسائل۔ اوور لوڈنگ، سڑکوں کی خستہ حالی، ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت، تیز رفتاری، ون وے کی خلاف ورزی، غلط اوور ٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور، ون وہیلنگ، تیز لائٹس، ہیڈ لائٹس کا نہ ہونا، پریشر ہارن، بغیر ہیلمٹ یا بیلٹ کے سفر، ڈرائیونگ کے دوران سیل فون اور یا نشہ آور اشیا کا استعمال، غلط پارکنگ وغیرہ جیسی ٹریفک کی خلاف ورزیاں اور اس کے علاوہ بریکوں کا فیل ہو جانا اور خراب مدت پوری کر چکے ٹائروں کا استعمال معمول بن چکے ہیں جو ان حادثوں کی اہم وجوہات ہیں۔دنیا کے ہر ملک میں ٹریفک حادثات ہوتے ہیں مگر جتنے حادثات ہمارے ملک میں ہوتے ہیں شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتے ہوں۔ جتنی ہلاکتیں ہمارے ہاں ٹریفک حادثات میں ہوتی ہیں کہیں نہیں ہوتیں بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہونے والی ہلاکتیں، دہشت گردی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ دیکھا جائے تو دہشت گردی کے واقعات میں اتنی ہلاکتیں نہیں ہوتیں جتنی ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہوتی ہیں اور یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے ۔بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی ترقی کی بدولت لوگوں کا ہجوم مضافات اور دیہات سے قصبوں اور شہروں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کو روزانہ اپنے کاروبار اور ملازمت کی جگہوں پر جانے کے لئے سفر اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے صبح و شام بالخصوص اور تمام دن بالعموم سڑکوں پر عوام اور گاڑیوں کا سمندر امڈ آتا ہے ۔ یہاں نہ ہی ٹریفک قوانین کی پابندی کی جاتی ہے اور نہ ہی گاڑیوں کی فٹنس پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ کم سن بچے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلا رہے ہوتے ہیں اور ان کے والدین اور بزرگ ان کے ہمراہ بیٹھے ہوتے ہیں۔رکشہ اور موٹر سائیکل رکشے ہر طرح کے اصول ضابطے اور قانون کی پرواہ کیے بنا خود کش بمبار کی طرح سڑکوں پر دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ سست رفتار گدھا گاڑیوں گڈوں تانگوں یا پیٹر انجن سے وجود میں آنے والی گاڑیوں کی بھرمار ٹریفک میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ عملہ کو بہتر ٹریننگ اور جدید طریقہ کار اپنا کر ان کی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرنا چاہیے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ٹریفک سے متعلقہ تعلیم بالکل نہیں دی جاتی۔ترقی یافتہ ممالک میں افراد کومعاشرے کاکارآمد شہری بنانے کے لئے ہرضروری تعلیم اورتربیت دی جاتی ہے مگرہمارے ہاں اس قسم کی تعلیم کاکوئی رواج نہیں ہے۔ معاشرے کا مفید شہری کیسے بننا ہے اس پرکوئی توجہ نہیں دیتا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ سکول، کالج اوریونیورسٹی ہردرجے پرباقاعدہ کورس ہوں کہ سٹرک پرکیسے چلنا ہے؟ ٹریفک کے قوانین کیاہیں؟ مختلف اشارے کیا بتاتے ہیں؟ اور باقاعدہ طورپر یہ چیزیں نصاب کاحصہ ہوں۔پہاڑی علاقوں میں ڈرائےونگ کا تجربہ نہ ہونا بھی حادثات کا موجب ہوتا ہے اس لےے ان علاقوں سے ناآشنا افراد کو گاڑی چلانے کی اجازت نہےں دےنا چاہےے۔
