گلگت بلتستان میں ریکارڈ تعداد میں غیر ملکی کوہ پیماﺅں کی آمد ہوئی ہے۔ دو سوسے زیادہ کوہ پیماﺅں نے 8 ہزار 611 میٹر بلند پہاڑ کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔گلگت بلتستان میں اب تک 2ہزار 200 کوہ پیماﺅں کوچھے ہزار پانچ سومیٹر سے زائد اونچائی والے پہاڑوں کو سر کرنے کے اجازت نامے جاری کیے جا چکے ہیں۔سیون سمٹ ٹریکس نے بتایا کہ شیرپا سمیت سات کوہ پیما گزشتہ روز دنیا کی براڈ پیک نامی بارہویں بلند ترین چوٹی پر پہنچے ۔چوٹی سر کرنے والوں میں ایکواڈور سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما اوسوالڈو فریئر اوسی، جرمنی سے سارہ مارکسر، آسٹریلیا سے ایلی پیپر،اٹلی سے میٹیو بونالومی اور نیپال سے لکپا نوربو شیرپا، داوا شیرپا، نگیما تاشی شیرپا شامل ہیں۔اس کے علاوہ رومانیہ کی کوہ پیما ہوریا کولیباسانو بھی چوٹی پر پہنچ چکی ہیں۔سیون سمٹ ٹریکس نے کہا کہ ناروے سے تعلق رکھنے والی کوہ پیما کرسٹن ہریلا اور نیپال کی کوہ پیماﺅں ٹینجن شیرپا اور منگٹیمبا شیرپا نے صبح تقریبا 7 بجکر 45 منٹ پر گشہ برم ٹو کو کامیابی سے سر کرلیا ہے۔37 سالہ ہریلا تین ماہ میں دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا تیز ترین ریکارڈ بھی قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔دو سو سے زیادہ غیر ملکی کوہ پیماو ں نے کئی ہفتوں کے خراب موسم کے بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کے لیے ایڈونچر شروع کر دیا ہے۔مشہور الپائن بلاگر اور امریکی کوہ پیما ایلن آرنیٹ نے کہا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 250 لوگ کے ٹو سر کرنے کے منتظر ہیں۔ان کوہ پیماﺅں کو اس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک کہ راستے میں کیمپ اور رسیاں نہیں لگ جاتیں، زیادہ تر ٹیمےں بہتر موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پہلے راﺅنڈ کے لیے کیمپ ٹو کی جانب بڑھ رہی ہیں، جن کے پاس آکسیجن ہے یا وہ جو موسم سے موافقت حاصل کرچکے ہیں وہ مزید آگے جارہے ہیں، کیمپ تھری تک رسیاں نصب کردی گئی ہیں۔ رواں سال چوٹیاں سر کرنے کے لیے موصول ہونے والی اجازت کی درخواستوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔گزشتہ سال ایک ہزار 937 غیر ملکی سیاحوں نے چوٹیاں سر کرنے کےلئے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تھا، خطے میں پہاڑ سر کرنے کی مہم کےلئے آنے والے کوہ پیماﺅں کی یہ سب سے زیادہ تعداد تھی۔دنیا میں 8 ہزار میٹر سے بلند 14 پہاڑ ہیں، جن میں سے 5چوٹیاں پاکستان میں ہیں۔ان میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور نویں بلند ترین چوٹی، نانگا پربت بھی پاکستان میں ہیں، جب کہ باقی تین چوٹیاں گاشر برم ون، بروڈ پیک اور گاشر برم ٹو ہیں۔نیز، پاکستان میں سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 108 ہے، جب کہ چھے ہزار میٹر اور اس سے کم چوٹیوں کے حوالے سے ابھی تک کوئی تفصیلی سروے نہیں ہوا۔ گلگت سے40 کلومیٹر دور وہ مقام ہے، جہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے کوہِ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہِ ہندوکش آپس میں ملتے ہیں۔ پاکستان میں کوہ پیمائی کے شعبے میں وسیع مواقع ہیں، چوں کہ دنیا میں صرف پاکستان اور نیپال ہی دو ایسے ممالک ہیں، جہاں بلند ترین پہاڑی چوٹیاں ہیں، اِسی لیے یورپ اور دیگر ممالک کے کوہ پیما ان ممالک کا رخ کرتے ہیں۔یورپ میں محض چھے ہزار میٹر بلند چوٹیاں ہیں۔ہم جانتے ہےں کہ کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں سیاحت کی صنعت سکڑی مگر پاکستان اِس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوا کہ یہاں اِن حالات میں بھی غیر ملکی سیاح آ تے رہے ۔ پاکستان میں سیاحت اور کوہ پیمائی کا شعبہ بہت پرکشش ہے محض تھوڑی توجہ کی ضرورت ہے ۔غیر ملکی سیاح ہم سے کچھ لیتے نہیں، دیتے ہی ہیں اور وہ بھی ڈالرز کی شکل میں۔ لہذا، انہیں جس قدر زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں، کم ہیں۔ وہ ہمارے اچھے امیج ہی کا ذریعہ نہیں بنتے، زرِ مبادلہ میں اضافے کا بھی سبب ہیں۔کوہ پےمائی کے لےے لازم ہے کہ کوہ پےما سرد موسم، یخ ہواﺅں وغیرہ کو برداشت کرسکتا ہو۔ اسے پہاڑ کی فزیکل پوزیشن کا بھی علم ہو کہ کہاں خطرناک چڑھائی ہے اور کہاں کھائی؟ برف کی صورتِ حال کیا ہے، تودے کہاں گر سکتے ہیں ؟نیز، پہاڑ پر بدلتے موسموں کے حوالے سے بھی بھرپور معلومات ضروری ہیں۔علاوہ ازیں، کوہ پیما کی جسمانی حالت ٹھیک ہو اور اس نے پہاڑوں پر چڑھنے کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی ہو۔کوہ پیمائی ایک مہنگا، بلکہ بہت ہی مہنگا شوق ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ خواہش کے باوجود چوٹیاں سر کرنے کے سفر کی ہمت کر پاتے ہیں۔ اِس کے لیے مخصوص لباس اور آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔کے ٹو پر زیادہ بلندی تک جانے کے لیے ایک شخص کی کِٹ چارسے پانچ ہزار ڈالرز میں تیار ہوتی ہے اور یہ تمام اشیا بیرونِ ملک سے منگوائی جاتی ہیں۔ کسی غیر ملکی کوہ پیما کو اسلام آباد سے کے ٹو سر کرنے اور وہاں سے واپس اسلام آباد جانے تک، تمام اخراجات مع حکومتی فیسز تقریبا ایک لاکھ ڈالرز ادا کرنے پڑتے ہیں۔ حکومتی فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے، جو ہزاروں ڈالرز میں ہوتی ہے، تاہم یہ فیس پاکستانیوں کو ادا نہیں کرنا پڑتی۔کے ٹو سر کرنے کے لیے پاکستانیوں کو سرکاری فیس سے تو استثنا حاصل ہے، مگر خصوصی کِٹ، کھانے پینے اور پورٹرز وغیرہ پر جو بھاری اخراجات آتے ہیں، وہ ان کی برداشت سے باہر ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستانی کوہ پیما اپنی جیب سے مہم جوئی کی بجائے غیر ملکی کوہ پیماﺅں کے ساتھ عام پورٹر یا ہائی الٹیٹیوڈ پورٹرکے طور پر کام کرتے ہیں۔ پورٹر کا کام سامان اٹھانا، کھانا تیار کرنا، برتن دھونا اور خیمے وغیرہ لگانا ہوتا ہے۔ یقینا کوہ پیمائی ایک مہنگا شوق ہے مگر یہ روزگار بھی ہے۔جہاں کوہ پیمائی سے ملک کو قیمتی زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے، وہیں مقامی افراد کو گائیڈ یا پورٹر کے طور پر براہِ راست آمدنی کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے شوق کی بھی تکمیل ہوجاتی ہے۔حکومت غیرملکیوں سے جو فیس وصول کرتی ہے، اس کا کچھ حصہ مقامی کوہ پیماﺅں کی تربیت اور مالی مدد پر بھی خرچ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے لوگ بہت بہادر اور حوصلہ مند ہیں مگر انہیں سرپرستی کی ضرورت ہے۔ماہرین ریسکیو کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دے رہے ہیں تاکہ کوہ پیماﺅں کی زیادہ بلندی تک مدد کی جاسکے۔نیپالی کوہ پیماﺅں نے مختلف اداروں کی معاونت ہی سے چوٹی سر کی۔ ماضی میں حسن سدپارہ کو اسپانسر شپ دی گئی، تو انہوں نے قوم کو مایوس نہیں کیا۔لوگ سیاحت کی طرف آ رہے ہیں، جس سے ٹور آپریٹرز تو کما رہے ہیں مگر پاکستانی کوہ پیما آزادانہ طور پر چوٹیاں سر کرنے کا شوق دل ہی میں دبائے رکھنے پر مجبور ہیں، حکومت یا نجی ادارے انہیں بھی اسپانسر کرےں تاکہ وہ اپنا شوق پورا کر سکےں ۔ چوٹیاں سِر کرنے کا شوق خطرات کا کھیل ہے، کوہ پیماوں کے ذہن میں یہ بات تو پختہ ہوتی ہے کہ انہیں تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی حادثات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے، تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کی مہمات میں شامل تمام افراد تربیت یافتہ ہوں، تو حادثات کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔مواصلات اور ریسکیو نظام میں بہتری کے ذریعے بھی کوہ پیماﺅں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکتی ہیں۔ریسکیو نظام میں کچھ اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ پہلے اس طرح کے معاملات براہِ راست فوج دیکھتی تھی، مگر اب عسکری ایوی ایشن کے تحت یہ نظام کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کئی بار رابطوں میں تاخیر بھی ہوجاتی ہے۔ پاک فوج نے ریسکیو آپریشنز میں کئی قابلِ قدر مثالیں قائم کیں، جنہیں عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔متعلقہ اداروں کو سرچ آپریشنز کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھی کام لینا چاہیے۔ خاص طور پر ڈرون ٹیکنالوجی اِس ضمن میں کافی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ہیلی کاپٹر سروس خاصی مہنگی ہوتی ہے۔ کمیونی کیشن بریک ڈاﺅن بھی حادثات کا سبب بنتا ہے۔ ہم جانتے ہےں کہ سیاحت بہت مہنگی ہوتی جا رہی ہے، گاڑیوں کے کرایے، رہائش، خوراک سب ہی کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں۔ پھر یہ کہ علاقے تک رسائی اور سیاحتی مقامات کے اطراف سڑکوں کی ابتر حالت ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انفرا اسٹرکچر واقعی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ علاقے میں اچھے ہوٹلز بھی ہیں مگر بہت سے اس معیار کے نہیں، جن کی غیر ملکی سیاح توقع رکھتے ہیں۔ عملہ تربیت یافتہ ہے اور نہ ہی کمرے صاف ستھرے ہوتے ہیں۔سیاحوں کو گرم پانی اور سستی و معیاری ٹرانسپورٹ کی سہولت چاہیے ، جو انہیں نہیں ملتی۔کمروں کے کرائے بہت زیادہ ہیں اور اِس معاملے پر حکومت کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔خاص طور پر جب بھی سیاحوں کی زیادہ تعداد آنے لگے، ہوٹلز مالکان مرضی کے کرائے وصول کرنے لگتے ہیں، جو عام افراد ہی نہیں، کوہ پیماﺅں کے بجٹ پر بھی بہت بھاری ہوتے ہیں۔ہمےں سےاحوں اور کوہ پےماﺅں کی حوصلہ افزائی کا سامان کرنا ہے نہ کہ انہےں ماےوس کےونکہ ان کی ماےوسی آمدن میں کمی کا ذرےعہ بنے گی۔انہےں انڈے دےنے والی مرغی سمجھ کر ذبح کرنے کا عمل درست نہےں ہے۔سہولتوں کی فراہمی کے بغےر سےاحوں کے دل نہےں جےتے جا سکتے نہ ان کے ٹور کو ےادگار بناےا جا سکتا ہے۔
