ایک خبر کے مطابق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی وفاق کے ساتھ عام الیکشن اسی دن کروانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اعلی سطح پر یہ تجویز منظور کرلی گئی ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اس دن ہی الیکشن کروائے جائیں جس دن وفاق اور باقی ملک میں عام الیکشن ہوں ۔یہ فیصلہ اس تناظر میں کیا گیا کہ وفاق میں پہلے الیکشن ہوتے ہیں اس کا اثر ان دو خطوں پر براہ راست ہوتا ہے لوگ وفاق کے نتائج سے متاثر ہوکر ان خطوں میں وفاق میںبرسراقتدار پارٹیز کو ہی کامیاب کر دیتے ہیں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں قبل ازوقت اسمبلیاں توڑ کر نومبر میں باقی ملک کے ساتھ الیکشن کروائے جائیں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان و وزیرمملکت فیصل کریم کنڈی نے بھی کہا ہے کہ جی بی اور کشمیر کے الیکشن پاکستان کے الیکشن کیساتھ ہی ہونے چاہئیں،ہم کسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں ہیں۔سندھ کے وزےر صحت بھی اسی حق میں ہےں کہ ملک بھر میں انتخابات ایک وقت میں ہونے چاہئیں، ایک ہی وقت پر انتخابات کے لیے کسی صوبے کا موقف رد نہیں ہونا چاہیے۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ آئین میں تمام اداروں کے اختیارات لکھے ہیں، مسائل تب ہوتے ہیں جب کوئی ادارہ اپنے دائرے سے نکلے، عدالت نے جو کردار ادا کرنے کی کوشش کی وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کے مطابق فیصلے کرے لیکن پنچایت قائم نہ کرے، اس وقت دو چھوٹے صوبے نہیں چاہتے کہ پنجاب میں الیکشن پہلے ہو، ایسا ہوا تو نیا ون یونٹ قائم کرنے کی کوشش ہو گی جو سندھ کے لیے قابل قبول نہیں۔پی ٹی آئی اور حکومت کے مابےن مذاکرات میں بھے ےہ طے پاےا تھا کہ اےک ہی روز انتخابات ہونے چاہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات میں ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات پر اتفاق ہوگیا تاہم تاریخ طے نہ ہوسکی۔ان کا کہنا تھا کہ ایک بات پر اتفاق ہے کہ ملک میں ایک ہی دن تمام انتخابات ہونے چاہئیں اور صوبوں میں الگ یا مختلف تاریخ پر انتخابات کی کوئی بات نہیں ہے۔ جس دن بھی ملک میں الیکشن ہوں اس دن ملک بھر میں نگران حکومتیں ہوں، ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کا مقصد یہ ہے کہ اس پر سوالات اور انگلیاں نہ اٹھیں۔ اگر موجودہ تجویز کے تحت الیکشن ہوتے تو دو صوبوں میں انتخابات اور تین صوبوں میں حکومتیں ہوتیں، اسی طرح جب باقی تین صوبوں میں انتخابات ہوتے تو پھر ان دو صوبوں میں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہوتیں، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات ہوں اور اس وقت نگران حکومتیں موجود ہوں۔ ہمیں بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرنی ہے اور آنے والے دنوں میں مثبت پیش رفت کی امید ہے جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک دن میں انتخابات اور نگران حکومتوں کے قیام پر اتفاق بہت بڑی پیش رفت ہے، یہ آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ہے۔اسحق ڈار کے مھابق کہ ہم بھی جتنی لچک دکھا سکتے ہیں، ہم نے بھی دکھائی ہے، وہ بھی دکھا رہے ہیں اور امید ہے کہ اگر اسی طرح سے اسی خلوص کے ساتھ دونوں فریقین چلیں گے تو آخری مرحلہ بھی حل ہوجائے گا۔اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مذاکرات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جو بھی پارٹی الیکشن جیتے، وہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرے گی، یہ صورت حال نہ ہو کہ ملک بھر میں افراتفری ہو۔ سپریم کورٹ نے تجویز دی تھی کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر گفت و شنید سے کوئی راستہ نکال سکتی ہیں تو انہیں اعتراض نہیں ہوگا، وہ بیٹھ کر کوئی حل نکال سکتے ہیں تو بالکل وقت لے لیں۔وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ پی ڈی ایم کا ابتدائی موقف تھا کہ انتخابات بیک وقت سارے ملک میں ایک ہی روز کیے جائیں بشمول پنجاب اور خیبرپختونخوا اور اسمبلیوں کی تحلیل اس وقت ہو جب اسمبلی کی مدت پوری ہو اس پر ہم نے گفتگو کی اور ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے کی کوشش کی۔ جن حالات میں ابھی پھنسے ہوئے ہیں ان سے نکلنے کے لیے ہم نے یہ تجویز وہاں رکھی، ہم یہ چاہتے ہیں ہمارے درمیان جو معاہدہ ہو وہ تحریری ہو اور ہم اس کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کریں تاکہ ان کی توثیق ہو اور وہ اس کے عمل درآمد یقینی بنا سکے۔ اس بات پر بھی ہم نے اپنا موقف دیا کہ انتخابات ایسے ماحول اور ایسے انداز میں صاف اور شفاف ہوں کہ ان کا نتیجہ قبول کرنے میں کسی کو دقت ہو کیونکہ انتخابات کے نتائج تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ انتخابات ہوجائیں اور اس کے بعد ان کے فیصلوں پر کوئی آمادہ نہ ہو۔ہمارے ہاں انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات لگانا عام ہے‘عمران خان اور ان کی پارٹی الیکشن 2013کے کچھ عرصے بعد ہی سے احتجاجی سیاست کرتی آئی ہے۔ پہلے دھاندلی کا نعرہ لگا کر پھر دیگرپارٹیوں سے چپقلش کے نام پر اور پھر پانامہ لیکس کے ایشو پر پی ٹی آئی نے احتجاج کو مین اسٹریم پالیٹکس میں آخری آپشن کے بجائے پہلے ہتھیار کے طور پر آزمانے کی روایت ڈالی ہے جسے کسی بھی طرح مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔دوسری جانب کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد ، پی ٹی آئی نے کئی بار مختلف شہروں کو بزور طاقت بند کرنے ، شہریوں کی زندگی میں رکاوٹ ڈالنے اور عام کاروبار کی زبردستی بندش کی کوشش کی ہے اور اسے اپنا آئینی حق گردانا ہے۔اس روش کی بھی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی۔ احتجاج یقینا سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہوتا ہے لیکن صرف اس وقت تک جب وہ حق دوسروں کے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہ ہو۔ اپنے حق کیلئے ہم کسی دوسرے شہری کی زندگی عذاب میں نہیں ڈال سکتے نہ اس سے کاروبار اور آمدورفت کا حق بزور طاقت چھین سکتے ہیں۔سیاسی احتجاج کارکن یا عوام رضاکارانہ طور پرکرتے ہیں نہ کہ زبردستی ۔دوسری جانب سیاست میں بہرحال گفتگو اور مصالحت کی گنجائش رکھناپڑتی ہے اور یہی چیز سیاست کو فاشزم اورآمریت سے ممتاز بناتی ہے ۔ یہی جمہوریت کا چلن ہے۔سےاسی جماعتوں کی طرف سے بہت سے لوگوں کے بارے میں ایسے دعوے کیے جاتے ہےں جن کے ہزار بار دہرائے جانے پر گویایقین کا سا گماں ہونے لگا تھا۔ وہ تمام دعوے الزامات کی ایک سے بڑھ کر ایک قسم ثابت ہوتے ہےں کہ جس نے ثبوتوں کا منہ نہ دیکھا۔کوئی الزام محض سیاسی گفتگو نکلا اور کچھ عدالتوں میں جا کر وہیں کے ہو رہے۔ ایسا انہوں نے مختلف اداروں اور ان کے سربراہان کے بارے میں بھی کیا اور پھر اپنی سہولت سے اسے بھول گئے ۔ایف بی آر، پنجاب پولیس، نیب ،الیکشن کمیشن غرض اس طرح کے کئی ادارے اور حضرات یاد آئیں گے جو وقتا فوقتا نشانے پر رہے لیکن اب وہ شاید ان کے نام بھول چکے ہیں یا ان کو نئے نشانے مل چکے ہیں۔یہ بات بہرطور یاد رکھنے اور ذہن نشین کرنے والی ہے کہ اس طرح کے سنگین الزامات نہ تو آپ اتنی فراوانی سے لگا سکتے ہیں نہ ہی اپنے سامنے اٹھنے والی ہر آواز کو آپ ان الزامات تلے دبا سکتے ہیں ۔ کیوں کہ ہر بات اور الزام کا بہر حال اپنا وزن ہو تا ہے اور اس طرح دھڑلے سے ہر وقت، ہر کسی پر الزام لگانے سے نہ صرف آپ وہ وزن کھو بیٹھتے ہیں بلکہ ایک وقت وہ آتا ہے کہ آپ کی کسی بھی بات کو کوئی اثر لینے کے لائق نہیں سمجھتا۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کیلئے اس طرح کا تاثر ، سیاسی موت کے مترادف ہوتا ہے ۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تمام مسائل نہ تو چند دنوں میں پیدا ہوتے ہےں اور نہ ہی ان مسائل کا حل چند دنوں میں نکل سکتا ہو۔ یہ تمام مسائل دہائیوں کی ہماری غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور ان کا حل بھی مہینوں نہیں برسوں میں ہی ممکن ہے۔ تمام مسائل وہ ہیں جنہیں سیاسی جماعتیں انتخابات لڑ کرحکومت میں آنے کے بعد حل کرنے کا وعدہ عوام سے کرکے آتی ہیں اور الیکشن ہی وہ فورم ہے کہ جہاں اس طرح کے مسائل پر گفتگو، اس کے حل کیلئے لائحہ عمل کا تعین اور ایک طرح سے اس کی عوامی منظوری لی جاتی ہے۔اس طرح کے مسائل کے حل کیلئے الیکشن کے کچھ عرصے بعد ہی افراد اور حکومتوں کی بساط لپیٹ دی جائے، ایسا نہ تو کسی جمہوری معاشرے میں ممکن ہوتاہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔بری جمہوریت کا علاج پالیسیوں پر تنقید ، ان کی اصلاح کی کوشش اور اچھی جمہوریت لانے سے ہی ممکن ہے اوربس۔بہرحال ہم ےہ کہنے میں حق بجانب ہےں کہ وفاق کے ساتھ انتخابات سے آزاد کشمےر و گلگت بلتستان میں وفاق کے اثر انداز ہونے کا تاثر بھی دور ہو گا کےونکہ عام تاثر ےہی ہے کہ جس پارٹی کی حکومت مرکز میں ہوتی ہے وہ جماعت ان علاقوں کے انتخابات میں اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کرتی ہے تاہم اس حوالے سے فےصلہ کرتے ہوئے تمام سےاسی جماعتوں اور سٹےک ہولڈرز کو اعتماد میں لےا جائے تاکہ بعد ازاں اختلافات پےدا نہ ہوں ۔
