وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چین نے بروقت پانچ ارب ڈالر قرض رول اوور کیا ورنہ ہم ڈیفالٹ کرچکے ہوتے یا انتہائی مشکل حالات کا شکار ہوتے جبکہ عالمی مالیاتی ادارہ سے معاہدے کا امریکا نے بھی خیرمقدم کیا ہے۔آج ہمیں جن مشکل حالات کا سامنا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، اللہ کا فضل و کرم ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک مشترکہ ٹیم ورک کے ذریعے پروگرام منظور ہوگیا اور کل رات آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو کال کرکے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس سے قبل امریکا کے سیکرٹری اسٹیٹ بلنکن نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے قرض منظوری کا خیرمقدم کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گزشتہ حکومت نے بدقسمتی سے امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کو عاقبت نااندیشی اور انتہائی محدود سوچ کی وجہ سے کاری ضرب لگائی تھی۔شہباز شریف نے کہا کہ مخلوط حکومت نے تعلقات ہموار کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا، پچھلے 15 مہینوں میں ہم نے امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات جو خراب ہوئے تھے وہ ٹھیک کرنے اور معمول پر لانے کے لیے دن رات ایک کیا ہے، وزیرخارجہ کی کوششیں شامل ہیں۔ یہ مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے کہ امریکا نے اس کا نہ صرف خیرمقدم کیا ہے بلکہ وہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے خواہاں ہے۔یہ ایک ایسی مثال ہے جو ہمیں اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ اپنی ذاتی مفادات ہیں ان کو قومی مفادات کے تحت رکھنے چاہئیں، بدقسمتی سے ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفاد قربان کردیا گیا اور اس کے نقصانات سب کے سامنے ہیں۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے فون پر بتایا کہ ماضی میں جو معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوئیں اور اعتماد کا فقدان ہوا اس سے بڑی مشکلات پیدا ہوئیں اور اس سے خلا بڑھ گیا اور معاملات بڑے مشکلات میں چلے گئے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے بتایا کہ بورڈ میں یہ بات اٹھائی گئی کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کی تو کیا گارنٹی ہے کہ یہ معاملہ اب چلے گا تاہم بورڈ کو بتایا وزیراعظم سے پیرس میں بات ہوئی ہے اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس کی پوری پاسداری کریں گے۔ میں نے ان کو یقین دلایا کہ معاہدے پر عمل درآمد ہوگا اور ہمیں اس معاہدے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور ہم نے معاہدے کے حوالے سے کوئی چیز نہیں چھپائی اور قوم کو سب کچھ صاف بتا دیا ہے اور بجلی کی قیمت بڑھانا ہے لیکن یہ آئی ایم ایف کی شرط ہے لیکن خسارہ کہاں سے پورا ہوگا۔ لائن لاسز ہیں، ٹرانسمیشن لاسز ہیں، بلنگ کے مسائل ہیں لیکن بجلی چوری کون کرتا ہے، حکومت کی جہاں اپنی غلطیاں اور کمزوریاں ہیں اور اہلکار ملی بھگت سے اس ملک کا بیڑا غرق کر رہے ہیں تو آپ نے مل کر ٹھیک کرنا ہے کہ فلاں آدمی چوری کر رہا ہے ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت ان قرضوں کی دلدل میں مسلسل دھنستی جا رہی ہے ۔ کبھی کم اور کبھی زیادہ لیکن مجموعی طور پر ہمیں گزشتہ دو چار دہائیوں سے یہ دباﺅ بدستور بڑھتا ہی دکھائی دیا۔ قرضوں کے علاوہ حکومت کو اپنے حکومتی اداروں یا عالمی سرمایہ کاروں یا اداروں کو مختلف طرح کی مالیاتی گارنٹیز بھی دینا پڑتی ہیں جِسے سوورن گارنٹیز کہا جاتا ہے، یہ حکومتی گارنٹی بھی ایک طرح کی مالیاتی ذمہ داری ہوتی ہے۔ معیشت کے ذمہ واجب الادا قرضوں کے حساب میں یہ ریاستی گارنٹیز بھی اندرونی و بیرونی قرضوں میں شامل کرکے اسے مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جاتا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے معیشت کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔سی پیک کی سرمایہ کاری اور اس کے علاوہ براہ ِ راست بیرونی سرمایہ کاری کے سبب تجارتی خسارہ بڑھا اور معیشت پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھنا شروع ہوا تو ایک موقف یہ بھی دہرایا جاتا رہا کہ معیشت میں اس غیرمعمولی سرمایہ کاری کی وجہ سے وقتی دباﺅ ہے۔اس سرمایہ کاری کے ثمرات معیشت میں اضافی پیداوار کی صورت میں جب ظاہر ہوں گے تو معیشت کی ان قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں بھی اسی تناسب سے یا شائد کچھ زائد تناسب سے ہی اضافہ ہو گا۔ اس لئے بیرونی قرضوں میں اضافے پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے پاکستان کی معیشت کو اچانک غیرمعمولی دباﺅ کا سامنا ہے۔ اس دباﺅ کا ایک ان چاہا نتیجہ ہمارے سامنے خوفناک حد تک بڑھے ہوئے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں مزید نئے قرضوں کا بوجھ ہے۔اس تیز رفتاری سے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں کیوں اضافہ ہوا؟ اس کا جواب سٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ میں کچھ یوں ہے: برآمدات میں معمولی اضافے کے برعکس درآمدات میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا۔قرضوں کے حجم میں اضافے کے علاوہ ایک اور رجحان بھی گزشتہ دو سال سے نمایا ں رہا۔ حکومت نے قومی بینکوں کے قرضوں اور کچھ طویل مدت قرضوں کی ادائیگی تو ضرور کی لیکن سٹیٹ بینک سے نئے قرض لے کر بینکوں سے قرضوں کے موجودہ رجحان میں قلیل مدت قرضوں پر تکیہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ان قرضوں پر مارک اپ کی شرح بھی زیادہ ہے اور ان کی ادائیگی کے لئے پھر سے نئے قلیل مدت قرضے لینے پڑتے ہیں، اس عمل کو مالیاتی اصطلاح میں رول اوور کرناکہتے ہیں۔ یہ صورت کچھ بیرونی قرضوں میں بھی ہے جہاں قلیل مدت اور کمرشل بینکوں اور شرائط پر تکیہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال اور بالخصوص گزشتہ سال اور آنے والے سالوں میں واپس کئے جانے والے قرضوں کی مالیت اور ان پر ادا کئے جانے والے سود کی ادائیگیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگیوں کے بوجھ نے معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ بیرونی قرضوں کے اس بوجھ کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور آنے والے چند سال بھی اس اقتصادی دباﺅ میں گزرنے کا اندیشہ ہے۔ حکومت کے بجٹ میں اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی واپسی اور ادائیگیوں کے لئے مختص رقم ترقیاتی اور دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ مالی بوجھ آنے والے سالوں میں مزید بڑھے گا جس کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات، دفاعی اخراجات اور دیگر جاری حکومتی اخراجات پر دباﺅ بدستور بڑھے گا۔ ان سیکٹرز کے لئے اخراجات میں اضافہ وقت کی ضرورت ہونے کے باوجود حکومت خاطر خواہ فنڈز کا بندوبست کرنے کے لئے مشکلات کا شکار رہے گی۔تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں اضافے کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ حکومت کو اپنے زرِمبادلہ کو ایک حد تک برقرار رکھنے کے لئے مزید بیرونی سہارے کی ضرورت ہے۔زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ سے شرح مبادلہ پر دباﺅ روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث بنتا ہے۔ جس معیشت میں درآمدات برآمدات سے دو گنا سے بھی زائد ہوں اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ بھی زیادہ ہو تو اس کا لامحالہ نتیجہ روپے کی قدر پر مسلسل دباﺅ ہے اور مزید کمی کی تلوار پھربھی لٹکتی رہتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ اور کاروباری لاگت میں اضافہ ایک نئے مشکل اقتصادی سلسلے کا باعث بنتا ہے۔بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے لئے روپے کی صورت میں درکار وسائل میں بیٹھے بٹھائے مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ سٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ہونے والی روپے کی قدر میں کمی وجہ سے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے اضافی بوجھ کا تخمینہ چار سو ملین لگایا گیا ۔ روپے کی قدر میں کمی، تجارتی و کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں اضافے کا لامحالہ اثر مارک اپ کی شرح پر پڑتا ہے۔ معاشی شرح نمو مجموعی اقتصادی صورتحال کا نچوڑ ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو مستحکم اقتصادی ترقی اور بار بار کے بوم اینڈ برسٹ سائیکل سے چھٹکارہ پانے لئے تسلسل کے ساتھ چھ فی صد سے زائد سالانہ شرح نمو کی ضرورت ہے۔ تاکہ سرمایہ کاری میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو سکے، انفراسٹرکچر میں جدت اور مزید بہتری لائی جا سکے، روزگار کے مزید مواقع پیدا کئے جا سکیں، عوام کی فلاح کے لئے ترقیاتی اخراجات اور دیگر حکومتی ترجیحات کے لئے مناسب وسائل فراہم ہو سکیں، معیشت میں یہ گنجائش پیدا کی جاسکے تاکہ نئے بیرونی قرضے اضافی پیداوار کا باعث بنیں اور ادائیگیوں کے لئے خود کفالت کا سبب بنیں ۔ کچھ سالوں کی ترقی نے درآمدات کو بڑھاوا دیا جبکہ دوسری طرف برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کے سبب تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاﺅنٹ بڑھا اور یوں بیرونی قرضوں میں اضافے کی نئی مجبوری اور مشکل بار بار سامنے آن کھڑی ہوئی۔ملکی معیشت ایک بار پھر نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔نئی حکومت کے لئے لازم ہے کہ ان مسائل کے طویل مدت حل کے لئے بنیادی اصلاحات اور پیداواری ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لا کر معیشت کو کم ویلیو پیداواری ڈھانچے سے نکال کر بہتر ویلیو اور ٹیکنالوجی کے پیداواری سانچے میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھائے تو یقینا ایک نئے مستحکم معاشی مستقبل کا تصور کیا جا سکتا ہے ، ورنہ معیشت کے موجودہ پیداواری ڈھانچے کے ساتھ کسی غیر معمولی تبدیلی کی گنجائش کم ہے۔ستم ظرےفی ےہ ہے کہ ہم قرضوں پر انحصار کے عادی ہو چکے ہےں ‘قرض کی مے نے ہمےں سوچنے سمجھنے کی صلاحےتوں سے محروم کر دےا ہے جس کے نتےجے میں وسائل سے مالا مال ملک کشکول لےے جا بجا پھرتا نظر آتا ہے اور حکام قرض ملنے پر بغلےں بجاتے اور بھنگڑے ڈالتے ہوئے اسے خوشخبری سے تعبےر کرتے ہےں۔
