فنی و تکنیکی تعلیم

نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے مرکزی کیمپس کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہنر مند افراد کو بیرون ملک بھیجنے سے تجارتی خسارہ کم ہوسکتا ہے،قوموں کی ترقی میں نوجوان نسل کا اہم کردار ہے، ہنر مندی کی تعلیم دور حاضر میں ترقی اور خوشحالی کی کنجی ہے،تعلیم ، روزگار اور صحت صرف امیر طبقہ کاحق نہیں ،سب کا حق ہے،75 سال کی عادتیں بدلنا آسان کام نہیں ہے تاہم مصمم ارادے سے مل کر تعلیم کو عام کریں گے، فنی ترقی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہے، فنی تعلیم سے آراستہ نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے سے تجارتی خسارہ میں کمی آئے گی، تعلیم کے فروغ کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، ترقی کرنی ہے تو منفی باتوں کو پاﺅں کی زنجیر نہیں بنانا بلکہ حل نکالنا ہوگا، امیر اور غریب کے درمیان تعلیمی میدانوں میں تفریق نہیں ہونی چاہیے۔تعلیم از خود اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کا ایک ہنر ہے ۔ہنرمندی کی تعلیم ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انڈونیشیا ہنر مندی کی وجہ سے ہم سے بہت آگے ہے۔ پاکستانی اگر 30 ارب ڈالر سالانہ بھجواتے ہیں تو انڈونیشیا ہنر مندی کی وجہ سے ہم سے دوگنا زرمبادلہ کماتا ہے۔اگر ہم ہنرمند لوگوں کو خلیجی سمیت دیگر ممالک میں بھیجیں گے تو پاکستان کا تجارتی خسارہ مثبت ہو سکتا ہے۔آج کے سائنسی و ترقی یافتہ دور میں ان ممالک کی معیشت پروان چڑھی ہے، جنہوں نے ٹیکنیکل ایجوکیشن پر خصوصی توجہ دی۔ اسی لیے ماہرین ،فنی تعلیم کو کسی بھی ملک کے معاشی استحکام کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ہمارے ملک کے لاکھوں افراد دوسرے ممالک میں ملازمتیں کررہے ہیں، یہ نوجوان زیادہ تر فنی تعلیم کے کم مدت دورانیے کے کورس کرکے بیرون ممالک خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بلاشبہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے۔فنی تعلیم یافتہ ہنرمند ایک تو کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا اوردوسرا یہ کہ ہنر مندی کی تعلیم دنیا بھر میں ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور کی سب سے بڑی ضرورت فنی مہارت اور صنعتی پیشہ وارانہ تعلیم ہے ۔ ہروہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے، جس نے فنی مہارت حاصل کی ہے لیکن ہمارے ہاں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے۔ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف چارسے چھے فی صد، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66 فی صدتک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے فروغ کے لیے قابل ذکر پیش رفت نہیں کرپائے۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں، جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو عہدِ حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا۔ہمارے ملک میں صرف چھے فی صد نوجوان فنی تعلیم پر دسترس رکھتے ہیں۔ہمارے ہاں فنی تعلیم کے لیے فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں نوجوان بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں لے کر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے چکر کاٹنا شروع کردیتے ہیں مگر ہر طرف سے انہیں مایوس کن جواب ملتا ہے ۔اتنے بڑے انسانی وسائل کو اگر ہم مواقع فراہم کرسکیں تو یہ ہمارے پاس سونے اور تیل سے کہیں بڑا سرمایہ ہے۔پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے ہر فیلڈ میں ہنرمندی اور مہارت کی ضرورت ہے،ہنرمندی کا راستہ ہی خوشحالی کی منزل تک پہنچائے گا۔نوجوانوں کی فنی تعلیم و تربیت سے نہ صرف ملک کی صنعت و حرفت اور زراعت کی ترقی میں قابل قدر اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ نوجوانوں کو فنی تعلیم سے ہم آہنگ ہونے پر اندرون اور بیرون ملک میں روزگار کے مواقع میں بے حد وسعت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جو نوجوانوں روایتی تعلیم حاصل نہ کرسکیں وہ فنی تعلیم و تربیت ضرورحاصل کریں۔ ہمارے ملک کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ہنر کا حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ہمارے ہاں بہت کم تکنیکی تعلیم کے ادارے ہیں ۔ اداروں کی کمی اور جن جگہوں پر ادارے موجود ہیں، وہاں وسائل اور داخلے کی حد پوری ہونے کی وجہ سے کئی طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے۔ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہر دور کے مختلف تقاضے اور مختلف ضرورتیں ہوتی ہیں۔ انسان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی آنا چاہئے تاکہ کسی بھی مشکل وقت میں وہ رزق کما سکے۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور کی سب سے بڑی ضرورت فنی مہارت اور صنعتی پیشہ وارانہ تعلیم ہے۔فنی تعلیم عصر حاضر میںکامیابی کی وہ کنجی ہے جو ایک قوم کا مستقبل اور حیثیت یکسر بدل سکتی ہے۔ تکنیکی تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھار کر اسے معاشی طور پر ایک خود مختار اور مستحکم فرد بنادیتی ہے جو اپنے لیے روزگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک اور قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔دنیا کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے ایک بے روزگاری ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے افراد اس کا خاص طور پر شکار ہورہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور فنی تربیت کی کمی ہے۔ یہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس وقت وہی افراد اور اقوام کامیاب ہیں جنہوںنے بروقت ان جدید تقاضوں سے خود کو آراستہ کرلیا اور وقت کی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔جن ممالک نے عدم توجہی کے باعث اس دور کے ان تقاضوں کو فراموش کیا وہ آج بہت سے معاشی اور سماجی بحرانوں کا شکار ہیں۔ اگر صرف پاکستان کی بات کی جائے تو ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010 سے بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2021 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں 1.5 فیصد اضافہ ہوا جس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 میں پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد ستر لاکھ سے تجاوز کرگئی ۔اس سب کے برعکس اگر اقوام عالم کی تاریخ اور ان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ جن اقوام نے تعلیم پر خصوصی توجہ دی وہ دنیا میں بہت جلد نمایاں حیثیت حاصل کرکے اقوام عالم میں صف اول میں شامل ہوگئیں اور بالخصوص نوجوانوں میں فنی تربیت اور صنعتی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دینے والے ممالک کی معاشی ترقی میں گراں قدر اضافہ ہوا اور ایسے ممالک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ جاپان، چین اور کوریا ایسے ممالک میں سرفہرست ہیں جن کے افراد فنی اور تکنیکی صلاحیتوں میں باقی ممالک سے بہت آگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک تکنیکی میدان میں ہر شعبے میں چھائے ہوئے ہیں۔تکنیکی تعلیم کو کسی بھی ملک کی ترقی کا ضامن قرار دیا جاتا ہے۔ جس ملک کے جتنے زیادہ افراد پیشہ وارانہ ہنر مندی کے حامل ہیں وہ ملک معاشی طور پر اتنا ہی زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح چارسے چھے فیصد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اس سے سب سے زیادہ نوجوان افراد وابستہ ہیں مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں آبادی کا ڈھائی کروڑ 17 سے 23 سال کی عمر کے نوجوان ہیں، فنی تعلیم کی شرح بمشکل چھے فیصد ہے۔ پاکستان میں ہر سال لاکھوں نوجوان ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوتے ہیں مگر فنی تعلیم اور تربیت کی طرف حکومتی عدم توجہی کے سبب یہ نوجوان کوئی خاطر خواہ روزگار حاصل نہیں کرپاتے۔ تکنیکی ہنر مندی اور وسائل میں کمی کے باعث بہت کم افراد ایسے ہیں جو اپنے تئیں کوئی کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔ان عوامل کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل جو کسی بھی ملک کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے، مایوسی اور کم ہمتی کا شکار ہوکر اپنی تعلیم سے ہٹ کر کسی عام کام سے روزگار کمانے لگتے ہیں جو تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے اور ملک بھی ان ثمرات سے محروم ہوجاتا ہے جو ان تعلیم یافتہ افراد سے ممکنہ طور پر مل سکتے تھے۔