گلگت بلتستان کے نئے وزیراعلیٰ

گلگت بلتستان کے نو منتخب وزیراعلی حاجی گلبر خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ‘گورنر مہدی شاہ نے ان سے حلف لیا۔ایوان میں موجود بےس میں سے انےس اراکین جن میں تین پاکستان مسلم لیگ نون ، تین پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے ایک رکن اسمبلی نے حمایت کی۔وزیراعلی کے انتخابی عمل سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے نامزد امیدوار راجا اعظم کے ساتھ ہم خیال گروپ کے جاوید علی منوا اور راجا ذکریا نے بھی بائیکاٹ کیا، جن کی حمایت میں وحدت المسلمین اور اسلامی تحریک نے بھی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، رائے شماری میں آزاد رکن اسمبلی نواز ناجی نے بھی حصہ نہ لیا۔منتخب ہونے کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے حاجی گلبر خان نے کہا کہ میری صحت ٹھیک نہ ہونے کے باوجود اراکین اسمبلی نے ساتھ دیا، مجھے منتخب کرانے میں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کا اہم کردار ہے، میں ان کا مشکور ہوں۔گلگت بلتستان کی ترقی اور امن میری حکومت کی اہم ترجیح ہوگی اور ڈھائی سالہ مدت اسی کے لیے وقف کریں گے۔گلگت بلتستان کے نومنتخب وزیر اعلی حاجی گلبر خان 2009 میں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ، وہ 2015 میں الیکشن ہار گئے، 2020 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر دوبارہ منتخب ہوئے اور وزیر صحت کے طور پر خدماتِ انجام دیتے رہے۔وزےر اعلی کے انتخاب کےلئے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے راجا اعظم خان، پیپلز پارٹی کے امجد ایڈووکیٹ، مسلم لیگ نون کے انجینیئر انور اور جمعیت علمائے اسلام کے رحمت خالق نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔قبل ازےں قمر زمان کائرہ نے پیپلز پارٹی کے رہنما ایڈووکیٹ امجد حسین اور پارٹی سے تعلق رکھنے والے گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن شہزاد آغا کو اپنے استعفے واپس لینے پر راضی کرنے کی کوشش کی، ان دونوں رہنماﺅں نے پی ٹی آئی کے ناراض رکن گلبر خان کو بطور وزیراعلی گلگت بلتستان امیدوار نامزد کرنے کے خلاف احتجاجا اپنے استعفے اسپیکر اسمبلی کو پیش کیے تھے۔سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی منظوری سے راجا اعظم خان کو وزارت اعلی کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی مشاورت سے پی ٹی آئی کے ناراض رکن حاجی گلبر خان کو وزیر اعلی کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔سابق وزےراعلی خالد خورشےد کی نااہلی کے بعد نئے وزےراعلی کا انتخاب جو گو مگو کی کےفےت کا شکار تھا آخرکار طے پا گےا۔حاجی گلبر خان نئے وزےر اعلی منتخب ہو چکے ہےں‘ ان کے سامنے بہت سے چےلنجز ہےں ‘ہم دےکھتے ہےں کہ آزاد کشمےر میں بھی تحرےک انصاف کے وزےراعظم عدالتی فےصلے کے نتےجے میں نااہل قرار پائے‘ ہماری سےاست اس حقےقت کو آشکار کرتی ہے کہ عموما مرکز میں جس جماعت کی حکومت ہوتی ہے وہی جماعت آزاد کشمےر اور گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامےاب ہو جاتی ہے‘ اےسا بہت کم ہوا ہے کہ مرکز اور ان دونوں علاقوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت ہو۔ ہم خےال گروپ تشکےل دےنا‘ فلور کراس کرنا اور جماعتےں تبدےل کرنا ہماری سےاست کا معمول بن چکا ہے ‘طے شدہ امور میں پائے جانے والے خلا کا فائدہ اٹھا کر سےاستدان اپنے لےے فائدے تلاش کرتے ہےں ۔اگرچہ جمہورےت اکثرےت پر انحصار کرتی ہے اور جمہوری روح بھی ےہی ہے کہ اکثرےت کو حکومت سونپ دی جائے اور کسی جماعت کی اکثرےت کو غےر قانونی ہتھکنڈے اختےار کر کے ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے تاکہ جمہورےت مستحکم و مضبوط ہو سکے۔فاروڈ بلاک ہماری سےاست کا اہم جز رہے ہےں۔فارورڈ بلاک میں شامل اراکےن اپنی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر سوچتے ہیں، اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اور کسی بھی وقت الگ ہو کر یا دوسری پارٹی کا حصہ بن کر اپنی پارٹی کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ ایسے واقعات ملکی سیاسی تاریخ میں بکثرت ملتے ہیں جن میں کبھی دھڑوں اور کبھی بااثر شخصیات نے سیاست کے رخ بدلے۔بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ضیاالحق نے انتخابات کروائے، لیکن غیر جماعتی بنیادوں پر۔ اس وقت سیاست سے وابستہ بیشتر لوگ یا تو جیلوں میں تھے یا پھر ملک چھوڑ چکے تھے۔اس وقت پیپلز پارٹی کے بعض اراکین نے ضیا کا ساتھ دیا، لیکن کوئی فارورڈ بلاک سامنے نہیں آیا۔ تاہم 1986 میں بے نظیر بھٹو وطن لوٹیں اور عوام کے فقیدالمثال استقبال نے ضیا حکومت کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تو جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور وزیراعظم جونیجو کو بے نظیر بھٹو کو واپس آنے دینے کی سزا فراغت کی شکل میں ملی۔بے نظےر بھٹو کے بعد مسلم لیگ کی حکومت میں مختلف اوقات میں دھڑے بندیوں کی اطلاعات سامنے آتی رہیں تاہم کوئی مضبوط فارورڈ بلاک نہیں بن سکا۔ لیگی حکومت کے خاتمے کے بعد پھر پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو دھڑے بندیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت مسلم لیگ نون اور چوہدری برادران کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں لیکن یہ اکٹھے ہی رہے تاہم اختلافات کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ مسلم لیگ نون کے پھر سے اقتدار میں آنے تک پارٹی کے اندر پارٹی کا وجود کافی مستحکم ہو چکا تھا۔ صدر اسحاق نے کرپشن کے الزامات پر پی پی پی کی حکومت برطرف کی توآئی جے آئی اتحاد نے 1990 کے انتخابات میں فتح حاصل کی اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ پارٹی کا ایک گروپ جونیجو کو وزیر اعظم بنانا چاہتا تھا اور یہ دھڑا 1993 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گیا۔ بچی کچھی پارٹی کو پاکستان مسلم لیگ نون کا نام دیا گیا۔ اس حکومت پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1997 میں پی ایم ایل این ایک بار پھر حکمران پارٹی بن گئی اور 1999 میں مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس وقت مسلم لیگ نون کی قیادت جیلوں میں تھی جو بعدازاں جلا وطن ہوئی۔ تاہم اس وقت مسلم لیگ کے ہی ایک دھڑے نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا اور پاکستان مسلم لیگ ق ایک نئی پارٹی کے طور پر سامنے آئی، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی اس کے مرکزی قائدین تھے۔ یہ پارٹی بعدازاں 2002 میں ہونے والے انتخابات جیتی اور حکمران جماعت بنی۔انہی دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی سے الگ ہونے والے دو دھڑے پیٹریاٹ اور پی پی شیرپاﺅ کی شکل میں سامنے آئے، پیٹریاٹ گروپ کے سربراہ فیصل صالح حیات جبکہ شیرپاﺅ کے آفتاب خان شیرپاﺅ تھے۔ ان پارٹیوں نے اقتدار کے خوب مزے لیے۔ بعد ازاں ان دو دھڑوں شیرپاﺅ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ نے بھی ادغام کا اعلان کیا اور ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی بنیاد رکھی۔نئی پارٹی کے چیئرمین راﺅ سکندر اقبال اور آفتاب شیرپاﺅ صدربنے۔مختلف پارٹیوں میں ہونے والی دھڑے بندیوں سے بننے والی مسلم لیگ قاف کو اس وقت بغاوت کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے رکن عطا مانیکا نے اعلان کیا کہ انہیں اسمبلی میں قاف لیگ کے نصف سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی ہے اور اب وہ ایوان میں اپنی جماعت کا نیا پارلیمانی لیڈر چنیں گے۔ ان کا یہ بھی دعوی تھا کہ اس چناﺅ کے ساتھ ہی مسلم لیگ قاف اور مسلم لیگ نون کا اتحاد کر لیا جائے گا۔پھرعطا مانیکا خود بھی نون میں شامل ہو گئے تھے۔قاف لیگ کو ٹکڑے کرنے اور پنجاب میں دفن کرنے کے لئے نون لیگ نے میاں عطا مانیکا کی مدد سے پنجاب اسمبلی میں فارورڈ بلاک بنوایا تھا ۔اس دعوے کے ساتھ کہ ان کے ساتھ پچاس فیصد ممبران شامل ہیں ،وہ جاتی عمرہ گئے اور میاں شہباز شریف کو پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کے عتاب سے بچائے رکھنے میں بنیادی کردارا دا کیا تھا ۔ےہ کہا جاتا رہا ہے کہ ارکان کی کتنی بھی تعداد اکٹھی ہوجائے ہووہ فارورڈ بلاک نہیں بنا سکتے کیونکہ آئین پاکستان میں ہونے والی اٹھارہویں ترمیم کے تحت پارٹی سربراہ منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کے لئے ریفرنس بھیج سکتا ہے۔کوئی بھی رکن عدم اعتماد کی تحریک مالیاتی بل یا آئینی ترامیم میں پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کارروائی کے زمرے میں آسکتا ہے۔اسی طرح پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ارکان کو ان کے خلاف ریفرنس کے ذریعے ڈی سیٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون کے 37 اراکین صوبائی اسمبلی کے فارورڈ بلاک کی گونج سنائی دےتی رہی۔ہماری دانست میں گلگت بلتستان دےگر صوبوں کی بہ نسبت کم ترقی ےافتہ علاقہ ہے لہذا ےہاں کی سےاست کے بزرجمہروں کو خطے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لےے کوئی دقےقہ فروگزاشت نہےں رکھنا چاہےے ‘ےہ ترقی الگ الگ ڈھائی اےنٹ کی مسجد بنانے سے ممکن نہےں ہو گی بلکہ ےہاں سےاست کرنے والی پارٹےوں پر لازم ہے کہ وہ علاقے کے وسےع تر مفاد میں اپنی اپنی جماعتوں کی سےاست ضرور کرےں لےکن علاقائی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہ کرےں تاکہ ترقی کا سفر کسی بھی جماعت کے برسر اقتدار ہونے کے باوجود رک نہ سکے ۔