وفاقی وزیر انسانی حقوق ریا ض حسین پیزادہ نے کہاہے کہ انسانی حقوق کمیشن کو 9 مئی واقعات کے تناظر میں خواتین مظاہرین کےساتھ ناروا سلوک، یا زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔انہوں نے آگاہ کیا کہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان اور جسٹس پراجیکٹ کے نمائندوں کی سربراہی میں اور ان کے ہمراہ کمیشن کے چند ممبران نے متعدد جیلوں کا دورہ کیا، متعدد قیدیوں کے انٹرویو کیے اور دیگر شواہد کا جائزہ لیا۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ کمیشن کی رپورٹ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور ان آزاد مبصرین کی جانب سے خواتین مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک، تشدد یا جنسی زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو محترمہ نیلوفر بختیار نے جیلوں کے نظام کی بہتری کی ضرورت پر زور دیا خاص طور پر خواتین قیدیوں کے لئے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں خواتین قیدیوں کے لئے الگ سیل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حاملہ خواتین اور ماوں کے ساتھ موجود بچوں کے لئے مناسب خوراک اور غذائیت کے انتظامات پر بھی زور دیا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی انسانی حقوق کی وزارت کا کہنا تھا کہ ملک بھر کی مختلف جیلوں میں زیرِ سماعت فوجداری مقدمات میں قید خواتین کی سزا کا متبادل طریقہ وضع کر دیا جائے تو اس سے قیدی خواتین کے مسائل میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید 67 فی صد خواتین کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔وزارتِ انسانی حقوق کی رپورٹ میں مختلف مقدمات کے تحت جیلوں میں قید خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے انتطامی اور قانونی سطح پر اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔ اعدا و شمار کے مطابق پاکستان بھر کی جیلوں میں اس وقت مختلف مقدمات میں قید قیدیوں کی تعداد 73 ہزار سے زائد ہے۔ ان میں خواتین قیدیوں کی تعداد 1121 ہے جو مجموعی قیدیوں کی تعداد کا ایک اعشاریہ پانچ فی صد ہے۔پنجاب میں 727 خواتین جب کہ سندھ میں 205، خیبر پختونخوا میں 166 اور بلوچستان میں 20 خواتین جیل میں ہیں۔ان میں سے 134 خواتین ایسی ہیں جن کے ساتھ ان کے کم عمر بچے بھی رہ رہے ہیں اور جن کی مجموعی تعداد 195 ہے۔پاکستان کی مختلف جیلوں میں بند خواتین قیدیوں میں سے 67 فی صد سے زائد ایسی ہیں جن کے مقدمات کی ابھی تک ابتدائی سماعت بھی نہیں ہو سکی ہے۔ زیرِ سماعت مقدمات میں قید خواتین کا تناسب کم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور خواتین قیدیوں کی سزا کے متبادل طریقے وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ قیدی خواتین کے رہن سہن، ماحول اور تعلیم تک رسائی کے لیے بحالی کے پروگرام کی سفارش بھی کی گئی ہے ۔خواتین کی جیلوں کا ماحول اور خواتین قیدیوں پر مامور خواتین عملے کو بہتر تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ قیدی ماں کے ساتھ جیلوں میں موجود بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب انتظامات کیے جانے چاہیئں۔قانون کے مطابق خواتین کو الگ جیلوں میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان میں خواتین کے لیے صرف پانچ جیلیں ہیں۔ جب کہ عام جیلوں میں بھی خواتین کے لیے الگ بیرکس بنائی گئی ہیں۔ ماضی میں حکام کی طرف سے سفارش کی گئی تھی کہ معمولی جرائم میں ملوث قیدیوں کو رہا کر دیا جائے، لیکن اس معاملے میں ابھی تک پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ بعض خواتین قیدیوں کو عدالتوں میں اپنے مقدمات کا دفاع کرنے کے لیے مناسب قانونی سہولتیں میسر نہیں۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتین قیدیوں میں سے بعض کو ان کے اپنے خاندان بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے خلاف مقدمات میں دفاع کے لیے قانونی امداد حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان کے مقدمات کی سماعت میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ اگرچہ بعض سماجی تنظیمیں خواتین قیدیوں کو قانونی امداد فراہم کرنے میں سرگرم ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔پاکستان میں ایسی قیدی خواتین کی تعداد 33 ہے جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ خواتین ہیں جنہیں منشیات کی اسمگلنک یا گھریلو تشدد کے جرائم میں یہ سزا سنائی گئی۔انسانی حقوق کی وزارت کی رپورٹ میں ان قیدی خواتین کے مقدمات کا جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے جو معمر ہیں یا جنہیں ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔ خاص طور پر وہ خواتین جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔سابق حکومت نے مختلف جیلوں میں قید خواتین کے قید و بند کے حالات اور انہیں درپیش مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کی تھی اور اسے چار ماہ کے اندر اپنی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔پھر پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے جیل میں ان کے قید خانے میں کیمرے نصب کرنے کے الزامات کے بعد پاکستان میں جیلوں میں خواتین سے روا رکھے جانے والے سلوک اور انہیں دستیاب سہولتوں کے بارے میں بحث چھڑ گئی تھی مگر پےشرفت نہےں ہو سکی۔مریم نواز نے گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کے دوران نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا۔ پاکستان میں ان سمیت کوئی بھی خاتون محفوظ نہیں اور جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اگر وہ بتا دیا تو ان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔مریم نواز کے ان الزامات سے قبل سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سمیت چاروں صوبائی حکومتوں کو حکم دیا تھاکہ وہ ملک کی مختلف جیلوں میں خواتین قیدیوں کو دستیاب سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں۔عدالت کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری کے معاملے پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا۔سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پاکستانی جیلوں میں قید خواتین قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں از خود نوٹس کی سماعت کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے دو بڑے صوبوں، پنجاب اور سندھ میں جیلوں میں اصلاحات لانے کے لیے قانون سازی کر لی گئی ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں قانون سازی کے حوالے سے مشاورت کی جا رہی ہے۔ملک بھر کی مختلف جیلوں میں قید خواتین قیدیوں کے بارے میں دی گئی تجاویز میں کہا گیا تھا کہ ان کے لیے ہر جیل میں الگ سے بیرکیں بنانے کے علاوہ ان بیرکوں میں بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں، جن میں بیت الخلا کے علاوہ آرام کرنے کے لیے مناسب جگہ اور دیگر سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں ایک خواتین کی جیل بھی قائم ہے ۔صورتحال کی بہتری کے لےے ہر ضلع کی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ شعبہ تعلیم، صحت سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ ضلعی بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی شامل ہو۔ جیل کے اندر اور باہر بائیو میٹرک نظام لگایا جائے تاکہ ان بیرکوں میں آنے جانے والے افراد کا ریکارڈ ترتیب دیا جا سکے۔حقےقت ےہ ہے کہ ملک بھر میں جیلوں میں قید خواتین کے حالات دیگر مرد قیدیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ خواتین قیدیوں میں سب سے زیادہ مسئلہ ایسی خواتین کو ہوتا ہے جن کے ساتھ ان کے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ خواتین کے بچے ان کے ساتھ جیل آتے ہیں اور چند ایک کے جیل میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ان خواتین کو ان کی پرورش، دیکھ بھال، پیمپرز، اور دیگر ضرورتوں میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دو سال کی عمر تک کے بچوں کو جیل حکام اور فلاحی اداروں کی جانب سے دیے جانے والے عطیات کے ذریعے سوکھا دودھ دیا جاتا ہے لیکن ان کے لیے کھانا یا روزانہ کی خوراک وہ ہی ہوتی ہے جو جیل میں ماں کو ملتا ہے۔ اگر نومولود بچے یا کسی چھوٹے بچے کی طبیعت خراب ہو جائے تو بھی ان خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیل میں ایک ماہر نفسیات، ایک دندان ساز اور ایک عام ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہوتے ہیں لیکن کوئی ماہر اطفال نہیں ہوتا۔ پشاور جیل اور اڈیالہ جیل میں چھوٹے بچوں کے لیے نرسری موجود ہے جہاں چھوٹے بچوں کے لیے کھلونے وغیرہ موجود ہےں۔خواتین کو ذاتی استعمال کی اشیا صرف ان کے گھر والوں کی جانب سے فراہم کرنے پر ہی میسر ہیں، جیل انتظامیہ ان کو کچھ فراہم نہیں کرتی۔ زیادہ تر خواتین منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں قید ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر خواتین ایسی ہیں جو کم علمی میں اس کاروبار میں استعمال ہوئی ہیں۔ چند خواتین کو ان کے شوہر ملنے آتے ہیں جبکہ زیادہ تر کے شوہر ان سے کبھی ملنے نہیں آئے یا وہ خود جرائم پیشہ ہیں اور مفرور ہیں۔جیلوں میں قید خواتین کا ایک اور سب سے بڑا مسئلہ سرکاری وکیل کا میسر نہ ہونا ہے۔سرکاری وکیل نے برسوں سے کبھی ان خواتین کے مقدمات کو عدالتوں میں پیش ہی نہیں کیا۔ وہاں قید خواتین کو اپنے وکلا کا نام تک نہیں پتہ۔ جیل اور قانون کا نظام اتنا بوسیدہ ہے کہ کچھ خواتین کو صرف دو برس کی قید ہوئی لیکن ان کے پاس ضمانت کے پیسے نہ ہونے کے باعث وہ کئی برسوں سے جیل میں ہیں۔ ان خواتین کے ساتھ دوہرا ظلم یہ ہے کہ ایک وہ انتہائی غریب ہیں اور دوسرا وہ ان پڑھ ہیں، اس لیے جیل سے آزاد نہیں ہو پاتیں۔
