سکردو میں ادبی تنظیم بزم علم وفن کے زیر اہتمام منعقدہ اتحاد امت کانفرنس بعنوان حسینؑ سب کا سے خطاب کرتے ہوئے شرکاءنے کہا فرقہ واریت پھیلانے والے اور امہ کے مابین نفرتیں پیداکرنے والے بیرونی ایجنٹ ہیں اسلام امن محبت بھائی چارے اور رواداری کا درس دیتاہے جو لوگ فرقہ واریت پھیلارہے ہیں وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے نابلدہیں اور ذاتی نمود ونمائش اور مفادات کیلئے مسلمانوں کے درمیان دوریاں پیداکررہے ہیں۔ مختلف مذاہب ومسالک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام سیاسی رہنماﺅں ‘دانشوروں تجزیہ کاروں نے اتحاد امت پر زور دیتے ہوئے فرقہ واریت کو مسترد کردیا اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کو بیرونی ایجنٹ قراردیا شرکاءنے کہا ذکر اہلبیت کوئی معمولی عمل نہیں ہے ذکر اہلبیت کرنا صدقہ جاریہ ہے دنیا وآخرت میں سرخرو ہونے کیلئے اسوہ شبیری پر عمل کرنا ہوگا دشمن چاہتے ہیں کہ ہمیں لڑایا جائے مگرہمیں ہوشیار رہنا ہوگا دشمنوں کے سامنے ہمیں متحد ہوکر مکا دکھاناہوگا۔ اسلام امن وآشتی کا درس دیتا ہے پہرویپوں کو فرقہ واریت پھیلانے نہیں دیں گے عوام کو آپس میں لڑانے والے ہم سب کے دشمن ہیں عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے نہیں دیں گے۔ ہمیں مشترکات پربات کرناہوگی 95 فیصد مشترکات کو چھوڑ کرپانچ فیصد اختلافات پر آپس میں دست وگریباں ہونا دانشمندی نہیں ہے مسائل کی بنیادی وجہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روگردانی ہے امام حسین علیہ السلام سب کے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم حسین کے ہیں یانہیں ہمیں امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیراہوکر اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہونا ہوگا بلتستان کے مثالی امن کو برقرار رکھنے کیلئے یہاں کے عوام کو اپنی صفوں میں کردار ادا کرنا ہوگا۔گلگت بلتستان کے لوگ امن پسند ہیں یہاں لوگوں کے درمیان بڑی مذہبی ہم آہنگی دیکھی حسین سب کا کانفرنس مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے سنگ میل ثابت ہوگی ۔گلگت بلتستان امن پسندوں کی سرزمین ہے یہاں کے لوگوں میں دورریاں پیدا کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی ۔ بلتستان امن کا عظیم گہوارہ ہے امن کی فضاءکو قائم رکھنے میں یہاں کے علمائے کرام کا کلیدی کردار رہا ہے یہاں تمام مسالک اور مذاہب کے لوگ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں امن قائم رکھنے پر باہرکے بعض لوگ ہمیں زیادہ امن پسند ہونے کے طعنے بھی دیتے ہیں مگر ہمیں ان طعنوں کی کوئی پروا نہیں ہے ہم امن پسندسے زیادہ اسلام پسند ہیں۔ امام حسینؑ کی ذات نکتہ اتحاد ہے ہمیں امام عالی مقام کی سیرت کو اپنانا ہوگا ۔ہمارے ہاں بڑھتی فرقہ وارانہ کشیدگی خاصی حد تک سوچی سمجھی ریاستی پالیسیوں اور جان بوجھ کر نظرانداز کئے جانے کا نتیجہ ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے روکنا ممکن ہے اور یہ فرقہ ورانہ یا نسل پرستانہ نفرت کی وجہ سے ہر مرنے والے کی ہلاکت کو مزید بلا جواز اور وحشیانہ بنا دیتا ہے۔بگڑتی ہوئی صورت حال کے باوجود، فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپ پھل پھول رہے ہےں ان گروپوں نے بلوچستان کو بھی اپنا گڑھ بنا رکھا ہے۔ےہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جسے کہ غیر قانونی حراست، آزادی اظہار پر قدغن، ٹارچر اور ماورائے عدالت قتل جیسے معاملات کے ردعمل میں نیشنلسٹس اور علیحدگی پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کی مذہبیت کے فرقہ وارانہ جہتیں، ملک کو درپیش کسی بھی دوسرے چیلنج سے زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ اسے کھوکھلا کر رہی ہیں اور کھوکھلا ہونے کا یہ عمل انتہائی بنیادی سطح پر ہو رہا ہے، خاندانوں کے اندر، آس پڑوس میں، کمیونٹیز میں، کالجوں میں، سیاسی تنظیموں میں، سول سوسائٹی میں، غرض ہر جگہ قوم اور سیاست کے بڑے نظریات کے برعکس فرقہ واریت ذاتی چیز ہے اور اسی لئے گھر کے قریب اور گھروں پر اس کے اثرات آتے ہیں۔اس وقت امتِ مسلمہ کی تباہی اور بے سروسامانی کی وجہ اگرچہ ہر شعبہ حیات میں عدمِ توازن اور بے اعتدالی ہے لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہر جماعت، طبقہ اور قیادت اپنے علاوہ ہر ایک کو صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے سوچ و فکر کی اس شدت اور انتہاپسندی نے ہمیں ان راہوں پر گامزن کر دیا ہے جو آگ اور خون کی وادیوں میں جا اترتی ہیں۔اگر ہم طبیعت، مزاج اور زاویہ نگاہ میں اعتدال اور میانہ روی لائیں اور ایک دوسرے کی بات کو خندہ پیشانی اور تحمل سے سننے اور برداشت کرنے کی خو پیدا کر لیں تو تضاد اور مخاصمت کی فضا کی جگہ باہمی موافقت و یگانگت اور محبت و مروت ہماری زندگیوں میں آجائے گی نفرت کی وہ دیوار ہمارے درمیان سے ہٹ جائے گی جو ملی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر مذہبی رواداری اور تحمل و بردباری ہمارا شیوہ بن جائے تو بہت سے مسلکی فروعی اختلافات ختم یا کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں ان اقدامات سے امتِ مسلمہ کے اندر تباہ کن انتشار و افتراق کا یقینی خاتمہ ہو جائے گا اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا دیکھنے والی طاقتوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔جسدِ ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک اثرات کا احساس و ادراک ہر شخص کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک اور ازالے کے لئے موثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے ہمارے گردو پیش میں تیزی سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں ان کی نزاکت اور سنگینی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم نوشتہ دیوار کو پڑھیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض، نفاق اور انتشار و افتراق کا قلع قمع کرکے باہمی محبت و مودت، اخوت و یگانگت، یکجہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ اسی میں ہماری فلاح و بقا اور نجات مضمر ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر موثر اقدامات ناگزیر ہیں۔مسلمانوں کو فرقہ واریت کی لہر نے گروہوں اور طبقات میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔فرقہ واریت کے باعث ہم عروج کی بجائے زوال کی طرف گامزن ہیں وہ مساجد و امام بارگاہیں جو امن و آشتی کا مرکز تھیں آج لوگ قتل و غارت گری کے خوف سے ان میں داخل ہونے سے کتراتے ہیں وہ مسلمان جو بھائی بھائی تھے آج فرقوں اور گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ آج ہمیں عقیدے اور مسلک کے نام پر پروان چڑھنے والے فتنوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہماری باہمی چپقلشوں کے باعث اسلام دشمن قوتیں اپنی بھرپور یلغار کے ذریعے سرگرداں ہیں۔ مسلمانوں کے متحد نہ ہونے کے باعث اسلام پر آئے روز حملے ہو رہے ہیں اسلام کو دنیا کے سامنے دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید جےسی مقدس کتاب کو جلاےا جا رہا ہے اگر ہم نے عصر حاضر کے ان چیلنجز کو نہ سمجھا اور ان کے مقابلے کے لئے منصوبہ بندی نہ کی تو ہمارا وجود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دیا جائے گا۔فرقہ وارےت کے تدارک کے لےے مختلف اوقات میں مختلف تجاوےز سامنے آتی رہی ہےں جن میں قبل ذکر ےہ ہےں کہ عقائد و اعمال کے مشترک پہلو تلاش کرکے باہمی اخوت و اتحاد کو فروغ دیا جائے اور تمام تر اختلافات کا خاتمہ کیا جائے۔متنازعہ اور تنقیدی کی بجائے مثبت اور غیر تنقیدی اسلوبِ تبلیغ اختیار کیا جائے۔حقیقی رواداری کا عملی مظاہرہ کیا جائے اور عدمِ اکراہ کے قرآنی فلسفے کو اپنی زندگیوں میں لاگو کیا جائے۔دینی تعلیم کے لئے مشترکہ اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔علما کے لئے جدید عصری تعلیم کا اہتمام کیا جائے تاکہ مناظرانہ اور مجادلانہ طرزِ عمل کا خاتمہ ہو۔تہذیبِ اخلاق کے لئے موثر روحانی تربیت کا انتظام کیا جائے۔منافقانہ اور خفیہ فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔تمام مکاتبِ فکر کے نمائندہ علما پر مشتمل قومی سطح کی سپریم کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے۔ہنگامی نزاعات کے حل کے لئے سرکاری سطح پر مستقل مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے۔مذہبی سطح پر منفی اور تخریبی سرگرمیوں کے خلاف عبرتناک تعزیرات کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔علمائے کرام ،خطیب اورذاکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں اورطلبا کو پرامن رہنے ، صبروتحمل سے کام لینے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقراررکھنے کا درس دیں اور ایک دوسرے سے مل جل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کریں۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے سلسلے میں اپنے اپنے علاقوں میں کمیٹیاں تشکیل دیں اور ایک دوسرے کی حفاظت کا بندوبست کریں تاکہ وہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کی جاسکے جو قیام پاکستان کے وقت قائم تھی ۔فرقہ وارےت پھےلانے کی کوشش کسی بھی جانب سے کی جائے نہ صرف اس کی حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ ذمہ داران کو کٹہرے میں لا کر سزائےں دی جائےں۔
