نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی این ڈی ایم اے نے ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک بڑا ہنگامی منصوبہ تیار کیا ہے۔اس منصوبے پراتھارٹی کے اعلی سطحی اجلاس میں تبادلہ خیال کیا جائے گا جس میں چاروں وفاقی یونٹس کی نمائندگی ہوگی جبکہ مسلح افواج کے اعلی حکام بھی آئندہ کی صورتحال میں اپنا کردار ادا کریں گے۔وزیر اعظم شہباز شریف جو جمعہ کی شام مری کے لیے روانہ ہوئے وہ اجلاس کی صدارت کریں گے۔وزیراعظم نے دریاﺅں میں ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلئے فول پروف انتظامات کی ہدایت کی ہے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ریسکیو اداروں کو دریائے راوی، چناب اور ستلج میں ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فول پروف انتظامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔یہ ہدایت ایسے وقت میں جاری کی گئی ہیں جب پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے جبکہ دریائے چناب اور راوی میں طغیانی کا خدشہ ہے کیونکہ بھارت کی شمالی ریاستوں میں ہونے والی مسلسل بارش نے پانی کے اخراج میں اضافہ کر دیا ہے۔ایک روز قبل راوی اور توی دریا کے مقام پر پھنسے پانچ رینجرز اہلکاروں سمیت کم از کم پچانوے افراد کو بچا لیا گیا تھا جب کہ بھارت کی جانب سے اضافی آمد کی وجہ سے دریاﺅں میں پانی خطرناک سطح پر پہنچ گیا۔وزیرِ اعظم نے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں لوگوں کی آگاہی، بروقت اور باحفاظت انخلا کی تیاریوں کی بھی ہدایت کی۔شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ رینجرز اور ریسکیو کی بروقت امدادی کارروائی سے خواتین اور بچوں سمیت درجنوں افراد کی جان بچائی گئی۔فلڈ فارکاسٹنگ ڈویژن کی تازہ رپورٹ میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے جبکہ دریائے راوی میں اگلے چوبےس گھنٹوں کے دوران درمیانے درجے کے سیلاب کی توقع ہے۔ایف ایف ڈی نے مزید کہا کہ دریائے چناب میں مرالہ اور قادر آباد کے مقام پردرمیانے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے جبکہ تمام بڑے دریاﺅں میں پانی معمول کے مطابق بہہ رہا ہے۔ایف ایف ڈی نے مختلف علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارشوں کی پیشگوئی کی ہے اور دریائے ستلج کے اطراف ایک، دو علاقوں میں شدید بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ دریائے سندھ کے اپر کیچپمنٹ، جہلم، چناب، راوی کے علاوہ اسلام آباد اور پشاور، کوہاٹ بنوں، ڈیرہ اسمعیل خان، راولپنڈی اور سرگودھا ڈویژن میں کہیں کہیں تیز ہواﺅں کے ساتھ تیز بارشوں کا امکان ہے۔ لاہور، ڈیرہ غازی خان، ملتان ڈویژن کے علاوہ شمالی بلوچستان اور جنوب مشرقی سندھ میں بھی کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ بارش ہوسکتی ہیں۔این ڈی ایم اے نے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے کیونکہ لاہور، نارروال اور سیالکوٹ میں اگلے چوبےس سے اڑتالےس گھنٹوں کے دوران شدید بارشیں ہو سکتی ہیں۔این ڈی ایم اے نے اندازہ لگایا ہے کہ بارشوں کے سبب تقریبا 9 لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔این ڈی ایم نے حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ 25 جون کو شروع ہونے والے مون سون سیزن کے نتیجے میں اب تک 80 افراد جاں بحق اور 142 دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔گزشتہ چوبےس گھنٹوں کے دوران پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں چار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سندھ کے مٹھی میں زیادہ سے زیادہ 68 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، پنجاب میں نارووال میں سب سے زیادہ 36 ملی میٹر جبکہ خیبرپختونخوا کے علاقے شنکیاری میں 42 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔دریائے چناب میں مرالہ اپ اسٹریم میں سیلابی ریلے کا تیز بہاﺅ ریکارڈ کیا گیا ہے جسکے باعث مرالہ میں آئندہ بارہ گھنٹوں کے دوران پانی کے بہاﺅ میں اضافے کا امکان ہے۔این ڈی ایم اے کی طرف سے اتوار کی شب تازہ ترین اعدادوشمار پر مشتمل ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق مرالہ کی گنجائش گےارہ لاکھ کیوسک ہے۔موجودہ سطح ایک لاکھ 70 ہزار کیوسک ہے اور درمیانے درجہ کی سیلابی صورتحال ہے۔ پانی کے بہاﺅ میں اڑھائی لاکھ کیوسک کا اضافہ متوقع ہے جس سے اونچے درجے کی ممکنہ سیلابی صورتحال کا خدشہ ہے۔ اس کے پیش نظر این ڈی ایم اے کی جانب سے متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں اور نشیبی علاقوں کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے، ضرورت پڑنے پر حساس علاقوں کو صورتحال پر فوری طور پر آگاہ کیا جائے گا۔ممکنہ تیز بہاﺅ کے پیش نظر پانی کو ریگولیٹ کرنے کے نظام کو الرٹ کردیا گیا ہے تاکہ لنک کینال کے ذریعے پانی کو ریگولیٹ کیا جا سکے۔ این ڈی ایم اے نے ہدایت کی ہے کہ حساس علاقوں کی مانیٹرنگ اور اپ ڈیٹس کی صورتحال کو مقامی آبادیوں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے اور کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے متعلقہ اداروں، ریسکیو 1122 اور مسلح افواج کو ہائی الرٹ پر رکھا جائے۔دریائے چناب میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کی آمد 122184 کیوسک جبکہ اخراج 101184کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ہیڈ خانکی کے مقام پر پانی کی آمد 52608 کیوسک اور اس کا اخراج 45444 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح ہیڈ قادر آباد کے مقام پر پانی کی آمد 41993 کیوسک جبکہ اخراج 19993 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ادھر دریائے جہلم میں بھی کل سے پانی کے بہاﺅ میں اضافے کا امکان ہے جبکہ منگلا ڈیم میں بھی پانی ذخیرہ کرنے سے فوری طور پر سیلاب کا امکان ہے۔دوسری جانب بھارت کی جانب سے راوی اور ستلج میں پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے ستلج اور راوی میں سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق کی ہے لہذا اس میں کوئی نقص، کوئی عیب، کوئی رخنہ، کوئی شگاف، کوئی کجی، کوئی کوتاہی نظر میں نہیں آئے گی۔ اس نظام حیات میں جو بھی خرابیاں نظر آئیں گی وہ حضرتِ انسان کی خود ساختہ حرص و لالچ پر مبنی، انسانی فطرت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فطری چیزوں کے بہاﺅ میں رکاوٹ یا عدم منصوبہ بندی کی وجہ سے ہی ہو سکتی ہیں۔ دریاﺅں اور ندی نالوں کے اندر تجاوزات، تعمیرات بلکہ گھر اور ہوٹل بنا لینا ان آبی گزر گاہوں کو تنگ کرنا،انکا فطری بہاﺅ روکنا اور اسکے نتیجہ میں ان دریاﺅں اور ندی نالوں کا پانی انسانی بستیوں کی طرف مڑنا اور تباہی کا سبب بننا کیا قدرت اور فطرت کے باعث ہے؟ بلکہ یہ تو سیدھا سادہ لالچ، حرص و طمع کا کھیل ہے جس میں نہ صرف یہ تجاوازات کرنے والے بلکہ حکومتی ادارے بھی پوری طرح ملوث ہوتے ہیں مگر حسب سابق ذمہ داری کا تعین نہ ہوا ہے اور نہ ہو سکے گا۔ بدقسمتی سے ہم اپنی نااہلیوں، کوتاہیوں، لغزشوں، بد دیانتی اور بد انتظامی کو بھی قدرت کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی اسے گناہ و عذاب کے نقطہ نظر سے بھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت نے وقتا فوقتا ان سیلابوں کی تباہ کاریوں کی وجوہات اور ان کے سدباب کے لیے کئی کمیشن بنائے۔ شاید ہمارا یہ قومی المیہ ہے کہ ہم اس طرح کی رپورٹس پر عمل کرنا تو کجا انہیں غور سے پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے، ہم بڑی باوقار قوم ہیں مگر شاید زمانہ کی رفتار سے بہت پیچھے ہیں،ہم اپنے قومی سود و زیاں کا بھی اتنا ادراک نہیں رکھتے، کروڑوں گیلن یا کیوسک پانی پورے پاکستان میں تباہی مچاتا ہوا بحیرہ عرب میں گر جاتا ہے اس طویل زمینی اور آبی راستوں میں ہم کوئی ڈھنگ کا ڈیم یا پانی سٹور اور محفوظ کرنے کا کوئی ذخیرہ بھی نہ بنا سکے ہم بھی دنیا کی ایک عجیب قوم ہیں جو سارا سال خشک سالی اور پانی کی کمیابی کا رونا روتی ہے اور برسات کے دنوں میں کئی ٹریلین کیوسک پانی ضائع کر دیتی ہے۔ جب تک دریائے سندھ پر کسی بھی جگہ ایک بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہو گا، پانی کے ریلے نہیں رک سکیں گے اور یہ تباہی کے مناظر ہمیں اسی طرح مضطرب و پریشان رکھیں گے ۔اس طرح بڑے دریاﺅں کے ساتھ چھوٹے ندی نالے تیز سیلابوں سے بچنے کے لیے ایک دفاعی حصار کا کام کرتے ہیں اگر یہ ندی نالے انسانی تجاوزات سے محفوظ رہیں اور ان کی بر وقت صفائی ستھرائی ہوتی رہے تو یہ بھی فالتو پانی کو جذب کرنے اور اسے کسی محفوظ ٹھکانے کی طرف لے جانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں مگر صد افسوس کہ ہم نے یہ ندی نالے بھی انسانی حرص و طمع کی نذر کر دیے ہم تو سیلاب زدگان کے لیے آئے ہوئے ریلیف فنڈ کو بھی صحیح طریقہ سے استعمال نہیں کر پاتے۔ افواجِ پاکستان حسب ِ معمول انتہائی مشکل اور دشوار گزار دریاﺅں اور آبی گزرگاہوں کے اوپر بہہ جانے والے پلوں اور دیگر نظام مواصلات کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہےں لےکن سول ادارے اپنی ذمہ دارےوں کی ادائےگی میں سنجےدگی سے کام نہےں لےتے حالانکہ ان پر قوم کا اربوں روپےہ ماہانہ صرف ہوتا ہے۔ہمارے ادارے اپنے علاوہ باقی سارے کام کرتے ہےں جب تک ان اداروں اور انہےں دےے گئے فنڈز کا درست استعمال نہےں ہوتا سےلاب آتے رہےں گے اور لوگوں کی جمع پونجی ان کی نذر ہوتی رہے گی۔لہذا جواب دہی کے عمل کو فعال بنانا از حد ضروری ہے۔
