نئے وزیراعلی کا انتخاب اور گومگو کی کیفیت

گلگت بلتستان میں نئے وزےراعلی کے انتخاب کےلئے جوڑ توڑ جاری ہے اور تاحال ےہ نہےں کہا جا سکتا کہ وزرات اعلی کا ہما کس کے سر بےٹھے گا۔وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے سابق صوبائی وزیرصحت حاجی گلبرخان کو وزیراعلی جی بی کاامیدوارنامزدکرنے پرپی پی پی گلگت بلتستان نے وزیراعلی کے انتخابات میں حصہ نہ لینے اور اپوزیشن بنچوں پربیٹھنے کافیصلہ کیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدرامجدحسین ایڈووکیٹ کے مطابق چونکہ وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے حاجی گلبر خان کوگلگت بلتستان کاوزیراعلی نامزدکردیا ہے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی13جولائی کووزیراعلی کے لئے ہونے والے انتخابی عمل میں شریک نہیں ہوگی۔پاکستان پیپلزپارٹی وزیراعلی گلگت بلتستان کے عہدے کے لئے ہونے والے سیاسی جوڑتوڑ میں شریک ہوگی نہ کسی سیاسی گروپ کاحصہ ہوگی۔حتی کے ہم ووٹنگ کے عمل میں بھی شریک نہیں ہونگے۔ وفاق میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کے وقت مسلم لیگ نون کے ساتھ یہ طے ہواتھا کہ وفاق اور صوبہ پنجاب میں پی پی مسلم لیگ نون کووٹ دے گی جبکہ گلگت بلتستان اورآزادکشمیر میں مسلم لیگ نون پی پی کوووٹ دے گی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اس پرعمل کرتے ہوئے وفاق اورپنجاب میں مسلم لیگ نون کوووٹ دیامگرمسلم لیگ نون نے آزادکشمیر اورگلگت بلتستان میں پی پی کوووٹ نہیںدیا۔ وفاق اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ نون اور پی پی اتحادی جماعتیں ہیں اورہم گزشتہ ایک سال سے گلگت بلتستان میں اپوزیشن بنچوں پرساتھ بیٹھے ہیں چونکہ حاجی گلبرخان کووزیراعلی نامزدکرنے کافیصلہ وزیراعظم نے کیا ہے اورہم مسلم لیگ نون کے لئے کوئی مسئلہ پیداکرنا نہیں چاہتے ہیں اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پی پی گلگت بلتستان میں وزیراعلی کے عہدے کے لئے ہونے والے انتخابی عمل سے لاتعلق رہے گی اورہم حسب سابق اپوزیشن بنچوں پربیٹھیں گے۔کہا جا رہا ہے کہ سینئرقانون دان پی پی کے صوبائی صدر وقائدحزب اختلاف امجدحسین ایڈووکیٹ وزیراعلی جی بی کے عہدے کےلئے جاری انتخابی دوڑمیں پوری طرح متحرک تھے اورپاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے انہیں گلگت بلتستان کے وزیراعلی کےلئے امیدواربھی نامزدکردیا تھا مگر وزیراعظم پاکستان شہبازشریف کی جانب سے تحریک انصاف کی حکومت میں شامل سابق صوبائی وزیرصحت حاجی گلبرخان کو گلگت بلتستان کے وزیراعلی کےلئے امیدوارنامزدکرنے کے فیصلے پرپی پی گلگت بلتستان نے اس اہم سیاسی معرکے سے لاتعلق رہنے اوراپوزیشن بنچوں پربیٹھنے کافیصلہ کیا ہے۔ امجد حسین ایڈووکیٹ کا ےہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی کارکن سوشل میڈیاپر مشیر امور کشمیر وگلگت بلتستان قمرزمان کائرہ کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے سے دور رہیں اور کسی سازش کا حصہ نہ بنیں ، قمر زمان کائرہ لمحہ بہ لمحہ صوبائی صدر کے ساتھ رابطے میں ہیں اور پارٹی کے تمام معاملات باہمی مشاورت سے چل رہے ہیں ایسے وقت میں قابل احترام مشیر امور کشمیر و گلگت قمرزمان کائرہ کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت منفی میڈیا مہم کا حصہ بننے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان کے انتخاب کے حوالے سے نام کائرہ صاحب کی طرف سے نہیں آیا۔ گلگت بلتستان میں قائد ایوان کے انتخاب کے حوالے سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری‘ صدر آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور صاحبہ سمیت قمر الزماں کائرہ مسلسل رابطے میں ہیں۔ادھر ایم ڈبلیو ایم کی صوبائی کابینہ اور ضلعی کابینہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ خالد خورشید سرکار کو عوام نے پانچ سال کیلئے مینڈیٹ دیا تھا مگر اس پر شب خون مارا گیا اور حکومت رخصت کر کے گلگت بلتستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا اوررجیم چینج کا وہ عوامی مسترد شدہ تجربہ کیا گیا جو وفاقی سطح پر بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اجلاس اس منصوبے کو بائی ڈیزائن سمجھتا ہے۔جس سے عوامی مینڈیٹ کی توہین سیاسی عدم استحکام اور سیاسی نفرت کے سواکچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ یہ اجلاس نئے قائد ایوان کےلئے منعقدہ اجلاس کو سبوتاژکرنے کیلئے اسمبلی کو سیل کرنے سپیکر اور ممبران اسمبلی کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روک کر جمہوری عمل میں مداخلت کرنے اورعوامی نمائندوں کی توہین جمہوری اقدار کیلئے سیاہ باب قرار دیتا ہے۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اپنے من پسند وزیر اعلی کو منتخب کرنے کیلئے مینڈیٹ کو روند ڈالا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی کا انتخاب میرٹ پر ہونا چاہیے۔اکثریتی ووٹ کو فرقہ وارانہ طرز عمل یا خرید و فروخت کے ذریعے متاثر کرنا جمہوری روایات کے منافی اور صاف شفاف انتخاب کو متاثر کرنے کی سازش ہے۔ملی یکجہتی کونسل گلگت بلتستان کے اجلاس میں بھی ےہی موقف سامنے آےا ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی صورت حال تشویش ناک اور محرم الحرام سے قبل منافرت پھیلانے کا سبب بن سکتی ہے مذہبی و قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے محرم الحرام سے پہلے کانفرنس بلائی جائے گی۔اجلاس میں سیاسی عمل میں نئے قائد ایوان کے انتخاب کیلئے قومی ، علاقائی ، لسانی و مسلکی کارڈ استعمال کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ، اجلاس کے شرکا نے اظہار کیا کہ گلگت بلتستان نہایت حساس محل وقوع رکھتا ہے اور خطے میں ملی یکجہتی کونسل کا قیام امن میں نمایاں کردار ہے اس لئے اس امر پر نہایت تشویش رکھتے ہےں کہ محرم الحرام کے آغاز میں ایک ہفتہ رہتا ہے ایسی صورت حال میں گلگت بلتستان کسی بھی نوعیت کی منافرت کی سیاست اور تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ۔ نامور عالم دین علامہ شیخ محمد حسن جعفری کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں اسمبلی میں پولیس گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اس عمل سے دشمن ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں اکثریتی پارٹی کو حکومت کرنے دی جائے جمہوری اصولوں و اقدار کی پاسداری کی جائے جمہوری طریقوں سے نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے علاقائی لسانی مسلکی بنیادوں پر وزیراعلی نہ بنایا جائے غیر جمہوری طریقے استعمال کرنا خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔درےں اثناءسابق وزیر اعلی گلگت بلتستان و صدر پاکستان مسلم لیگ نون حافظ حفیظ الرحمان نے کہا ہے کہ نئے قائد ایوان کے لئے مرکزی قیادت نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر ہی کام کریں اور جو مرکزی قیادت کا فیصلہ ہوگا وہ سب کو ماننا ہوگا جو بھی اپنی قیادت یا پارٹی قیادت کے خلاف جائے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی مرکزی قیادت نے اختیار ہمیں دیا ہے اب ہم نے ایک نام مرکز کو پیش کرنا ہے،خالد خورشید نے نااہل ہونے کے بعدپارلیمانی پارٹی کا فوری اجلاس بلاکر راجہ اعظم کا نام پیش کرکے راجہ اعظم کے ساتھ بھی دشمنی کی، کہا گیا کہ راجہ اعظم کو عمران خان نے نامزد کیا ہے، جس طرح مرکز میں عمران خان نے پچ اکھاڑی اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی خالد خورشید نے حکومتی پچ اکھاڑنے کی کوشش کی جو کہ کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس کوشش نے پی ٹی آئی کو ہی تباہ کردیا۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر کو چاہیے تھا کہ کم سے کم 72 گھنٹوں کے لئے قائد ایوان کے انتخاب کے لئے وقت دیتے لیکن سپیکر نے قانون اور رولز کو بلڈوزر کرکے چار گھنٹوں کا وقت دیا جس کے خلاف پی ٹی آئی کے ہی رکن عدالت گئے اور حکم امتناعی لیا۔اسمبلی میں پولیس کے داخلے کی مذمت کرتے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سپیکر سے پوچھا جاتا اور جو بھی کرنا تھا سپیکر کو اعتماد میں لیکر کیا جاتا کیونکہ یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ اسمبلی میں بم ہے اور بم ڈسپوزیبل سکواڈ بھی اسمبلی پہنچا تھا۔خالد خورشید نے گلگت بلتستان کا بجٹ مال غنیمت کی طرح لوٹا لیکن ہم عمران خان کی طرح کرپشن کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے والوں میں سے نہیں ہیں ،بجلی کے حوالے سے سوا ارب روپے کہاں گئے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے اسی طرح کوآرڈنیٹرز اورمشیروں پر مشتمل فوج کے لئے ماہانہ تےن کروڑ روپے ضائع ہورہے تھے ، خالد خورشید کے ساتھ جو ہوا ہے یہ مکافات عمل ہے جو انہوں نے بویا تھا وہی کاٹا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما فرمان نے خالد خورشید کے خلاف دھاندلی اور ڈگری کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں پٹیشن دائر کی تھی اور اس پٹیشن کے خلاف خالد خورشید خود چیف کورٹ گئے اور رٹ پٹیشن دائر کی اور یہ موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن اس کیس کو نہیں سن سکتا ہے اور اس کیس پر نظر ثانی کے لئے درخواستیں عدالت میں جمع ہوئیں لیکن اس کیس کی سماعت کو رکوانے کے لئے بار ایسوسی ایشن کو تباہ کیا ،کبھی چھٹیاں کرائیںتو کبھی بار ایسوسی ایشن کے لئے 30 کروڑ کا اعلان کیا تو کسی کا نام سروس ٹربیونل کے لئے دیدیا، قانون اور ضابطے کا جنازہ نکال دیا لیکن آخرکار خالد خورشید کو رسوائی ملنی تھی رسوائی ملی اور جاتے ہوئے حکومتی پچ اکھاڑنے کی کوشش میں پی ٹی آئی کو ہی لے ڈوبے۔ ہم جانتے ہےں کہ سےاسی مےدان میں حکومتےں بنتی اور ٹوٹتی ہےں‘کوئی سدا حکمرانی کے لےے نہےں بنا‘لہذا ضروری ہے کہ جمہورےت کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے آئےن و قانون کی پاسداری کو ترجےح دی جائے ۔جمہورےت نمبروں پر منحصر ہوتی ہے ےہاں بندوں کو گنا کرتے ہےں تولتے نہےں اس لےے سابق وزےراعلی کی نااہلی کے بعد جس جماعت کے پاس اکثرےت ہے اسے وہ اکثرےت ثابت کرنے کا موقع فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہےں لےنا چاہےے۔