اسلامو فوبیا پھر سر اٹھانے لگا

سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے خلاف گلگت بلتستان میں بھی ریلیاں نکالی گئیں، مختلف اضلاع میں نکالی گئی ریلیوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور سویڈش حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی، اس موقع پر ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاکہ کیا آزادی اظہار رائے کا یہ مطلب ہے کہ مقدسات ایمان،مقدسات اسلام کی توہین کی جائے۔ دنیا اگرمقدسات کا تقدس سیکھنا چاہتی ہے تو ہمارے پیارے نبیﷺ، ان کے اصحاب اور مسلمانوں سے سیکھ لے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے نہ صرف دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے گئے۔ ہم کبھی بھی ان کے مقدسات پر کوئی غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدام نہیں کریں گے۔ ہمیں مسلکی خول سے باہر نکل کر ایک امت بننے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات پر ایک توانا آواز بن کر دنیا کو پیغام دےا جائے۔ امت مسلمہ ہوش کے ناخن لے اور اسلامی پرچم تلے جمع ہونے میں دیر نہ کرے۔سویڈن سر عام قرآن کی بےحرمتی ہوئی اسلامی ممالک جان پیداکرکے اسلامی سربراہی کانفرنس بلائیں اور سویڈن سے تمام اسلامی ممالک سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلامیہ جاری کریں۔سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعے کے خلاف پورے پاکستان میں یوم تقدیس قرآن منایا گےا ‘پاکستانی پارلیمان نے سویڈن واقعے پر مذمتی قرارداد منظور کی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ سویڈن میں ایک بدبخت کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی کے دلخراش واقعہ پر نماز جمعہ کے بعد تمام پاکستانی پر امن احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔ جمعہ کو اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ قرآن مجید کی حرمت کے معاملہ پر پوری قوم ایک ہے۔سانحہ سویڈن پرپوری امت مسلمہ مضطرب ہے۔ ایک بد بخت کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی کے دلخراش واقعے پر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے کے لئے یوم تقدیس قرآن کے عنوان سے ہم سب سے یک آواز ہو کر ملک گیر احتجاج کریں گے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ قرآن ہمارے قلب میں ہے۔ قرآن ہمارے لئے صرف قرات نہیں بلکہ جینے کا قرینہ ہے۔ سویڈن کی دارالحکومت اسٹاک ہولم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے 28 جون کو عراق سے تعلق رکھنے والے ایک پناہ گزین سلوان مومیکا کے ذریعہ قرآن کی بے حرمتی اور اس کے صفحات کو نذر آتش کرنے کے بعد پاکستان سمیت مسلم اور عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس واقعے کی مذمت کی جارہی ہے۔سویڈن کے وزیر انصاف گنر سٹرومر نے افٹن بلیڈیٹ نامی اخبار کو بتایا کہ حکومت سویڈن کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے قرآن کو جلانے کے حالیہ واقعات کی روشنی میں قرآن یا دیگر مقدس کتابوں کو جلانے کو جرم قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔ ایک عراقی نژاد تارک وطن نے گزشتہ ہفتے سٹاک ہوم میں ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کا ایک نسخہ نذر آتش کر دیا تھا، جس سے عالم اسلام کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ۔سویڈن کی سےکیورٹی سروسز کا کہنا ہے کہ اس حرکت نے ملک کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔رواں سال سویڈن کی پولیس نے سےکیورٹی وجوہات کی بنا پربعض احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے کی متعدد درخواستوں کی منظوری سے انکار کر دیا تھا جس میں قرآن کو جلانا شامل تھا لیکن سویڈش عدالتوں نے پولیس کے فیصلوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ایسے اقدامات سویڈن کے جامع آزادی اظہار کے قوانین کی ضمانت ہیں۔سویڈن کے وزیر انصاف نے جمعرات کو کہا کہ حکومت صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور اس بات پر غور کررہی ہے کہ آیا قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ کیا موجودہ نظام اچھا ہے یا اس پر نظر ثانی کرنے کی کوئی وجہ ہے۔حملوں میں سویڈن ایک ترجیحی ہدف بن گیا تھا۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے قرآن پاک کو جلانے سے ہماری داخلی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔اس واقعے نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی کوشش کو بھی متاثر کیا ہے کیونکہ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ ان کا ملک سویڈن کی درخواست پر قرآن کو جلانے کے واقعات روکنے سے پہلے رضامند نہیں ہو سکتا۔ عالمی سطح پر اسلام فوبےا مسلسل بڑھ رہا‘آزادی اظہار اور آزادی رائے کی آڑ میں مقدس شخصےات کی توہےن معمول بن چکی ہے۔ اربوں لوگوں کے جذبات کو ٹھےس پہنچانے والے کسی رعاےت کے مستحق نہےں لےکن بعض ملکوں میں حکومت کی مدد سے اےسی جسارتےں جاری ہےں۔امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کہہ چکے ہےں کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو اکثر اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی لےے اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دیا تھا کےونکہ اسی تاریخ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر دہشت گرد حملوں کے چار سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس دن ایک بندوق بردار نے دو مساجد میں اکےاون مسلمان نمازیوں کو ہلاک اور چالےس کو زخمی کر دیا تھا۔وزیرِ خاجہ بلنکن کے مطابق ہر شخص کو، ہر جگہ فکر، ضمیر، مذہب اور عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہے، اس میں اپنے عقائد کو تبدیل کرنے یا نہ ماننے کی آزادی بھی شامل ہے۔ ہر فرد کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر دوسروں کے ساتھ، عوامی یا نجی طور پر، عبادت، عمل اور تعلیمات میں ان عقائد کو ظاہر کرنے کی آزادی بھی ہے۔ہم دنیا بھر میں ان لوگوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جنہیں اسلام پر عمل کرنےوالوں، اسلام قبول کرنے یا اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والوں یا صرف مسلمان کی حیثیت سے شناخت کر کے ہراساں کیا جاتا ہے، حراست میں لیا جاتا ہے، قید کیا جاتا ہے، یا حتی کہ قتل بھی کیا جاتا ہے۔امریکہ، افراد کی اپنے ضمیر کے مطابق زندگی گزارنے کی اہلیت کی وکالت کرتا رہے گا اور ان لوگوں کی طرف سے بات کرے گا جنہیں ایسا کرنے کی اہلیت سے محروم کیا گیا ہے۔ حالانکہ حقےقت ےہ کہ امرےکہ ہی اسے حرکات کی پس پردہ پشت پناہی کرتا ہے اگر امرےکہ اےسا نہ چاہے تو کسی ملک کو ےہ جرات نہےں ہو سکتی۔وزےر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اس دن کا مقصد اسلامو فوبیا کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ، باہمی احترام اور افہام و تفہیم کی ترویج اور موجودہ دور کی طاعونی خرابیوں کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے مشترکہ عزم کو تقویت دنیا ہے۔اسلام اعتدال، رواداری ، مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کے عقائد اور ثقافتوں کا احترام کا درس دیتا ہے۔اسلامو فوبیا کی تاریخ ازمنہ وسطی میں اسلام کے یورپ پہنچنے کے بعد شروع ہوچکا تھا اور تب سے لے کرآج تک مغرب کی نفسیات میں اسلام کا خوف پھیلایا جاتا رہا۔اس کی بدترین مثال مشرق میں نوآبادیاتی دورکا وہ سارا لٹریچر ہے جسے مستشرقین نے بڑے پیمانے پر ادارتی سطح پرتیار کیا۔ اس پرمعروف عالمی دانشور ایڈورڈ سعید نے مفصل اور مستند ترین تحقیق کی ۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب میں واضح کیا کہ اسلام کے خلاف مغرب میں گمراہ کن خوف اورمعلومات بڑے پیمانے پرعام کیا گیا۔پروفیسرظفراقبال کے مطابق اسلاموفوبیا مذہبی اور تہذیبی تعصب کا نتیجہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسلام کومغرب اور دنیا کے لیے ایک سیاسی خطرہ بناکربھی پیش کیا جاتا رہا ہے اورتہذیبوں کے تصادم کے نام پراسلام کے خلاف اشتعال انگیزی اورمسلمانوں کے جذبات بھڑکانا شامل رہا ہے۔اسلاموفوبیا کے زیراثرساری سرگرمیاں گمراہ کن پروپیگنڈے کی تاریخ ہے، جسے صرف اسلام کے سچے تعارف اورمسلمانوں کے اعلی اخلاق سے بے اثر کیا جاسکتا ہے۔گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایسے گروپ کام کر رہے ہی جن کا کام لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کا ڈر پیدا کرنا اور ان سے نفرت کے جذبات کو فروغ دینا ہے اور اس کام کیلئے اس گروپوں کو دوسو ملین ڈالر دیے گئے ہی ۔ 15جنوری 2010کو ایک بل پیش کیا گیا جس میں ایک قانون بنانے کی سفارش کی گئی کہ برقع پہن کر باہر نکلنے والی خواتین کو ساڑھے سات سو یورو جرمانہ عائد کیا جائے گا ۔ مغربی میڈیا کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جا سکے۔اسلام مخالف یورپی رہنماﺅں میں ہالینڈ کا گیرٹ ویلدرس نماےاں رہا‘ یہ چاہتا ہے کہ یورپ میں قرآن پر کتاب پر پابندی لگائی جائے ۔اسلامی ممالک سے مسلمانوں کی آمد اورمساجد کی تعمیر روکی جائے ۔مسلمانوں پر اپنی سرحدیں بند کی جائیں اور انتہا پسند مسلمانوں کو اپنے ملکوں سے باہر نکال دیا جائے ۔یکم جولائی2009کو ایک اعلی تعلیم یافتہ مصری خاتون مرو الشربینی کو جرمن عدالت میں مقدمہ کی سماعت سے پہلے ہی ایک روسی نژاد جرمن نے چاقو کے وار کرکے شہید کر دیا ۔اس وحشیانہ قتل کے دوماہ بعد تحقیق کاروں نے بتایا کہ قاتل کواس وجہ سے چھوڑ دیا گیا کہ اس نے یہ فعل زےنو فوبےاکی وجہ سے کیا اور وہ غیر یورپی اور مسلمانوں سے نفرت کرتا تھا اور مروہ کے حجاب نے اسے ایسا کرنے پر مجبورکیا ۔ایف بی آئی کے مطابق امریکہ میںجتنے بھی دہشت گردی کے واقعات ابھی تک ہوئے ہیں ان میں سے چھے فیصد میں مسلمان ملوث پائے گئے۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام اس حوالے سے اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی وضع کرے اور ٹھوس و جامع اقدامات اٹھائے تاکہ کسی بدبخت کو دوبارہ اےسا کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔