گلگت بلتستان میں وزےراعلی خالد خورشےد خان کی نااہلی کے بعد نئے وزےراعلی کے انتخاب کے لےے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ نئے وزیر اعلی کے انتخاب سے قبل حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف مزید تقسیم ہوگئی ہے اور سابق وزیر خزانہ کی سربراہی میں تیسرا گروپ سامنے آگیا ہے جبکہ 13 جولائی کو نئے وزیراعلی کا انتخاب ہوگا۔پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر خزانہ گلگت بلتستان جاوید حسین منوا نے ہم خیال گروپ کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا کہ انہیں پارٹی کے دس ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور مزید اضافہ ہو رہا ہے۔جاوید منوا کا کہنا تھا کہ ہمارا فارورڈ بلاک نہیں ہم خیال گروپ ہے جو کئی ماہ سے سرگرم عمل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم خیال گروپ اپنی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھے گا اور اس سلسلے میں ہم مختلف جماعتوں سے رابطے میں ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھیں گے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ایک مخلوط حکومت تشکیل دی جائے، گلگت بلتستان کے سیاسی حالات تبدیل ہو رہے ہیں اس لیے ہمیں نئے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ماضی میں پارٹی کی جارحانہ پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں، عمران خان کے سامنے بھی گلگت بلتستان کے امور پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں، اب بھی پارٹی نامزدگی پر ہم خیال گروپ کو شدید تحفظات ہیں اور مستقبل کے معاملات کو پیش نظر رکھ کر حکمت عملی سامنے لائیں گے۔ےوں گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی تین واضح گروپس میں تقسیم ہوگئی ہے جن میں حاجی گلبر خان گروپ بھی شامل ہے ۔گلگت بلتستان اسمبلی سیکریٹریٹ نے نئے وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے نیا شیڈول جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق تےرہ جولائی کو بارہ بجے وزیر اعلی کے لیے رائے شماری ہوگی اور اس کے فوری بعد نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ادھر پاکستان پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام کی پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعلی کے لیے متفقہ امیدوار سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اجلاس میں اس بات پر اتفاق کر لیا گیا کہ تینوں جماعتوں کی مرکزی قیادت جس پارٹی کے رکن اسمبلی کو امیدوار نامزد کرے گی اسی کی حمایت کی جائے گی۔ امجد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح ملک دشمن سوچ رکھنے والی جماعت پی ٹی آئی کی بیخ کنی کی جائے گی۔ گلگت بلتستان میں اسی وجہ سے تحریک انصاف کئی حصوں میں بٹ گئی ہے اور ان کے ارکان ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ملکی سےاست میں ہم خےال گروپوں کی تشکےل کا سلسلہ جاری ہے پنجاب اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے ہم خیال اراکین نے ڈیموکریٹس کے نام سے گروپ کا اعلان کیا تھا۔گروپ کا نام ڈاکٹر مراد راس اور ہاشم ڈوگر کی زیرِ صدارت اجلاس میں فائنل کیا گیا۔گروپ نے فیصلہ کیا کہ ہم خیال اراکین جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ نہیں جائیں گے، اراکین ڈیموکریٹس کے نام سے اپنی الگ شناخت رکھیں گے۔ گروپ میں آنے والے اراکین کی شناخت بھی ظاہر نہ کی جائے، الیکشن کمیشن میں گروپ کو رجسٹر نہیں کروایا جائے گا۔ڈاکٹر مراد راس کا کہنا تھاکہ الگ گروپ کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائیں گے، گروپ مسلم لیگ قاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں بھی شمولیت اختیار نہیں کرے گا۔ ہم خیال چھینہ گروپ نے بھی پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ نے کا فیصلہ کیاتھا۔ ملک میں اس وقت سیاسی صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور پی ٹی آئی کے ساتھی اس سے راستے الگ کرتے جارہے ہیں ۔ ہم خیال چھینہ گروپ میں صوبائی وزرا اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد موجود ہے۔ہم خیال چھینہ گروپ میں پاکستان تحریک انصاف کے انےس ٹکٹ ہولڈرز شامل ہیں ۔نو مئی کے واقعات نے ملکی سےاست میں ہلچل پےدا کر رکھی ہے‘اےک جانب اسٹےبلشمنٹ زےر بحث ہے اور دوسری جانب عدلےہ کا کردار بھی خبروں کی زد میں ہے۔ بلوچستان میں بھی ےہ صورتحال درپےش رہی ایک ماہ تک جاری رہنے والی سیاسی کشمکش کے بعد جام کمال خان نے وزیر اعلی بلوچستان کے عہدے سے استعفی دے دیا۔جام کمال پر اپنی ہی پارٹی بی اے پی اور اتحادیوں کے ناراض اراکین کے گروپ کی جانب سے عہدے سے مستعفی ہونے کا شدید دباﺅ تھا، جس کا انہوں نے کچھ وقت تک مقابلہ کیا، تاہم انہیں مستعفی ہونا پڑا، اور عبدالقدوس بزنجو نے وزیر اعلی بلوچستان کا منصب سنبھال لیا۔پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین نے مئی میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور پنجاب اسمبلی میں ہم خیال اراکین پارلیمنٹ کا ایک گروپ لانچ کیا۔ راجہ ریاض کو قومی اسمبلی میں جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کا پارلیمانی لیڈر جب کہ سعید اکبر نوانی کو پنجاب اسمبلی میں گروپ کا پارلیمانی لیڈر نامزد کیا گیا، ترین کی طرف سے ہم خیال حامیوں کے لیے گروپ کے افتتاحی عشائیے میں 31 اراکین اسمبلی نے شرکت کی تھی۔یہ گروپ دراصل شوگر اسکینڈل میں جہانگیر ترین کے خلاف انکوائری اور مقدمات کے درمیان منظر عام پر آیا تھا، اس نے ایک پریشر گروپ کے طور پر کام کیا، لیکن وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا کہ حکومت شوگر اسکینڈل کی تحقیقات میں ایف آئی اے پر اثرانداز نہیں ہوگی۔ترین گروپ نئی پارٹی بنانے کے حوالے سے متحرک ہوا ۔ جہانگیر ترین نے سیاسی رہنماں سے رابطے کے لیے تےن رکنی کمیٹی تشکیل دی ۔کمیٹی میں عون چوہدری، سردار تنویر الیاس اور اسحاق خاکوانی کو شامل کیا گیا۔ترین گروپ نے خیبرپختونخوا سے پرویز خٹک سمیت دیگر رہنماﺅں کو بھی شامل کرنے کے لیے رابطوں کا فیصلہ کیا ۔ ترین گروپ کے مطابق فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان پہلے سے رابطے میں تھے جبکہ سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان گروپ جہانگیر ترین سے پہلے ملاقات کر چکے تھے۔ہاشم ڈوگر اور مراد راس گروپ کو تےنارکان اسمبلی نے خیر باد کہہ دیا تھا۔تینوں ارکان اسمبلی نے ترین گروپ میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔جہانگیر خان ترین،جن کی اہمیت 2018کے الیکشن کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سازی کے لیے بڑی نمایاں رہی تھی نو مئی کے بعد پھرسیاسی منظر نامے میں اہم حیثیت اختیار کر گئے ۔ جہانگیر خان ترین نے 9 مئی کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں سیاسی روابط کا سلسلہ تیز کیا جس کا نتیجہ استحکام پاکستان پارٹی کی صورت سامنے آ چکا ہے۔سوال ےہ ہے کہ کیا یہ نوزائیدہ جماعت پی ٹی آئی کے لیے ہی چیلنج ثابت ہو گی یا دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی خطرہ ہے؟ اس جماعت کا اثرورسوخ پاکستان کے کن علاقوں میں زیادہ ہو گا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ الیکشن سے قبل نئے سیاسی اتحاد اور جماعتیں قائم ہوتی ہیں اور اِن کے پیچھے مقاصد کیا ہوتے ہیں اور کیا ایسی جماعتوں کا وجود سیاسی نظام کو استحکام سے ہمکنار کرتا ہے یا غیر مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے؟پاکستانی تاریخ میں تواتر کے ساتھ نئی سیاسی جماعتوں کی بنیاد پڑتی رہی ہے اور عمومی طور پر انتخابات سے قبل کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی توڑ پھوڑ سے نیا سیاسی اتحاد قائم ہوا یا نئی پارٹی کی بنیاد پڑتی رہی ہے۔2018 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ نون میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔بلوچستان میں، بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد پڑی تو جنوبی پنجاب میں صوبہ محاذ اتحاد بنا جو بعدازاں پی ٹی آئی میں ضم ہوا۔ بظاہر 2018کے الیکشن سے قبل سیاسی سطح پر جس طرح کی اتھل پتھل ہوئی، ویسا ہی کچھ عمل موجودہ لمحات میں جاری ہے۔پاکستان میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں تقریبا مصنوعی طریقوں سے تشکیل پاتی رہی ہیں۔ اگر تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی جماعتوں کے پیچھے طاقتور لوگ ہوتے ہیں جو مکمل پلاننگ کرتے ہیں اور نئی جماعت کا سٹرکچر ڈیزائن کرتے ہیں۔ اور یہ یہ کون لوگ ہوتے ہیں، یہ ہم سب کو معلوم ہے۔ کن لوگوں نے آئی جے آئی کو بنوایا تھا، کن لوگوں نے مسلم لیگ ق کو بنوایا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ اس کا بنیادی مقصد طاقتور لوگوں کی اجارہ داری قائم رکھنا ہوتا ہے مگر کچھ عرصے میں جب کوئی سیاسی جماعت اتنی پرورش پا جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ پر اعتمادکرنے لگ پڑتی ہے یا تابع رہنا پسند نہیں کرتی تو اس کے بعد ایک بار پھر نئی سیاسی جماعت کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔کے پی کے میں پرویز خٹک نے سابق وزرا اور اراکین اسمبلی کو ساتھ چلنے کی دعوت دی اور اےک بڑا گروپ بنا لےا ہے۔پرویز خٹک نے اقبال وزیر ، ہشام انعام اللہ ، اجمل وزیر، شوکت علی سمیت کئی رہنماﺅں سے رابطہ کیا اور اپنے حلقے کے رہنماﺅں کو بھی ساتھ دینے کی درخواست کی۔گلگت بلتستان میں تحرےک انصاف کی اکثرےت ہے اور غالب امکان ےہ ہے کہ تحرےک انصاف ہی حکومت بنائے گی تاہم مخلوط حکومت بننے کے امکانات بھی روشن ہےں‘جمہورےت کا تقاضا ےہ ہے کہ اکثرےت ہی کو حکومت بنانے کا موقع دےا جائے ۔
