شدید بارشیں اور جانی و مالی نقصانات

ملک بھر میں شدےد بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ‘ےہ بارشےں معمول سے ہٹ کر ہےں اےک بار پھر حالیہ جاری سیلابوں نے آبادی، ملکی انفراسٹرکچر اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ شدید بارشیں اور گرمی کی لہر کا بڑھتا دورانیہ موسمیاتی تبدیلی کو نظریاتی مباحثے کی فہرست میں شامل ایک نکتے سے نکال کے ملک و قوم پر پڑنے والے ایک واضح بوجھ میں بدل چکا ہے۔ہر سال بارشےں نقصان کا باعث بنتی ہےں لےکن انفراسٹرکچر تبدےل کرنے کے دعوﺅں کے باوجود کوئی تبدےلی نہےں آتی۔ ےہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ بارشوں اور سےلابوں کو ہم نے بےرونی امداد کے حصول کا ذرےعہ بنا لےا ہے ےہ امداد متاثرےن تک نہےں پہنچتی اور بالا بالا ہی ہڑپ کر لی جاتی ہے۔ہمارے ہاں2010 سے تاحال تقریبا ہر سال ایک بڑا سیلاب آتا رہا ہے جس سے سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ اس برس کے موسم گرما میں پاکستان کو گرمی کی مہلک لہر اور مون سون کی غیرمعمولی بارشوں کا سامنا ہے ۔ گلوبل وارمنگ کے خلاف فی الوقت دنیا جس رفتار سے اقدامات کر رہی ہے، اس کے پیش نظر بارش یا برفباری سے جڑی آفات جےسے کہ سیلاب کا زیادہ خطرہ ہے جبکہ گرمی سے جڑی آفات جیسا کہ ہیٹ ویو کا خطرہ بھی موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آنے والی دہائی میں اس سے ملتی جلتی آفات کا خطرہ دوگنا سے زیادہ ہو سکتا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں معاشرتی و معاشی نقصانات ناقابل تصور حد تک بڑھ سکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات چہار سو پھیلتے اور کئی شعبوں کو متاثر کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرتی و معاشی نقصانات ریاستی وسائل و سلامتی پر اضافی بوجھ ڈالنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اب محض جغرافیائی سیاسی دشمنیاں ہی ریاست کو درپیش خطرہ نہیں رہی ہیں بلکہ یہ ریاست کو درپیش خطرات کے سلسلے کی محض ایک کڑی رہ گئی ہے۔ قومی سلامتی کو اب ایک جامع روایتی سلامتی و موسمیاتی سلامتی پر مبنی لائحہ عمل کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان خطرات کی نشاندہی ہو سکے جو پاکستان پر سب سے زیادہ دباﺅ بڑھا رہے ہیں اور اس کی بقا کے لیے خطرہ ہیں۔ اس امر کی ضرورت ابھی باقی ہے کہ پاکستان کے پہلے سے موجود قومی سلامتی ڈھانچے میں موسمیاتی سلامتی کو پوری قوت کے ساتھ شامل کیا جائے تاکہ این ایس پی کی اس مثبت پیش رفت کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس پر مسلسل عمل درآمد جاری رہے۔موسمیاتی سلامتی، موسمیاتی تبدیلیوں اور سلامتی کے متعدد شعبوں کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ موسمیاتی سلامتی بنیادی طور پر ان خطرات، خدشات اور اثرات کا جائزہ لیتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے سبب مختلف شعبوں پر اور مختلف سطح پر ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ موسمیاتی سلامتی پہلے سے موجود ایسے مسائل کے بگاڑ سے نمٹتی ہے جو بعد ازاں سلامتی اور تنازعوں جیسی صورتحال کا سبب بنتے ہیں۔ اسے موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب خطرات دوچند ہونے کی کیفیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم خطرات دوچند کرنے والا یہ اثر شدید موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والا واحد اثر نہیں ہے کیونکہ یہ سلامتی کے مختلف شعبوں کے لیے براہ راست خطرہ بھی رکھتا ہے۔ انتہائی نوعیت کی موسمیاتی آفات کی مقدار بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی معاشی قیمت میں فقط اضافہ ہی ہوگا۔جہاں موسمی آفات سے ہونے والے معاشی نقصانات کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے، وہیں موسمی آفات معاشرتی و سیاسی ہم آہنگی پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ سیلاب پوری کی پوری آبادیوں کو بے گھر کر دیتے ہےں ان کے ذریعہ معاش اور آمدن کے مواقع ختم کر دیتے ہیں اور ہجرت اور شہروں کی جانب رخ کرنے کا عمل جو پہلے ہی انتہائی بلند سطح پر ہے میں اضافے کا باعث بنتے ہےں ۔ متاثرین کے لیے جو امدادی کاروائیاں کی جاتی ہےں ہیں وہ جامع نہیں ہوتےں اور متاثرہ آبادیاں یہ محسوس کرتی ہیں کہ ایک ایسی آفت جس کے لیے وہ ذمہ دار بھی نہیں تھے، اس کے بعد ان کی مناسب امداد نہیں کی گئی ۔ ایسی صورتحال میں ریاست کی حیثیت یا حکام پر ان کے یقین پر بدترین اثرات رونما ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی شدید نوعیت کی موسمیاتی آفت کے بعد انفرادی سطح پر لوگوں کا احساسِ خودی مسلسل متغیر پذیر رہتا ہے۔ نسل در نسل چلے آتے گھرانوں کی تباہی، اپنے ملک کے اندر ہی ہجرت اور خیموں کی شکل میں عارضی و ناقص ٹھکانے شناخت کی بنیاد پر بڑے چیلنجز کا موجب ہوتے ہےں اور متاثرہ آبادیوں کے درمیان معاشرتی معاشی عدم تحفظ کا احساس بیدار کرتے ہےں ۔ ایسے اثرات سلامتی کے معاشرتی و سیاسی شعبوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور قومی یکجہتی کے احساس کو بے وقعت کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب غربت اور بیروزگاری کی شرح بھی بلند ہوتی ہے کیونکہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ اپنی کفالت کرنے والے افراد سے محروم ہو جاتے ہیں یا موسمی حالات کی وجہ سے پناہ گزین بن جاتے ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ اور انسانی اسمگلنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بچے، خاص کر چھوٹی بچیاں انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں۔ صاف پانی اور غذا تک لوگوں کی رسائی کم ہو جاتی ہے، بیماریوں کی شرح بڑھ جاتی ہے اور معیار زندگی گر جاتا ہے اور یہ تمام کے تمام کثیر الشعبہ جاتی مسائل ہیں۔ملک میں شدید نوعیت کی موسمی آفات سے مختلف شعبہ جات پر پڑنے والے منفی اثرات کے باعث پاکستان کی جامع قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ اب یہ محض معاشی سلامتی بمقابلہ روایتی سلامتی کا معاملہ نہیں رہا ہے۔ قومی سلامتی ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ قومی طاقت تمام عناصر اور وسائل پر مبنی ہوتی ہے جو ریاست کو اپنے مفادات کے حصول کے قابل بناتے ہیں۔ لہذا یہ تمام عناصر، وسائل اور شعبہ جات اس کی سلامتی میں حصے دارہیں۔ گویا کثیرالشعبہ جاتی خطروں کی اس بساط سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کو اس جامع نگاہ سے دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس میں تمام شعبہ جات پر یکساں توجہ ہو جبکہ موسمیاتی سلامتی کو اس کی شدت اور فوری نوعیت کی وجہ سے ترجیح دی جائے۔اس کی بنیادی وجہ پالیسی سازوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات پر محدود توجہ ہے جیسا کہ وہ دیگر شعبہ جات کو ان تبدیلیوں سے لاحق خطرات کا تخمینہ لگائے بغیر صرف غذا، پانی اور توانائی کے شعبے پر اس کے اثرات پر توجہ دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو ریاست کی بقا کو لاحق خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات کے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں ایسے میں ایسی ٹھوس پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے کثیرالشعبہ جاتی اثرات سے نمٹنے پرتوجہ مرکوز رکھے۔آنے والے وقتوں میں پاکستان کو اس زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے کہ جس سے وہ سیاسی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی اقدامات کو دیکھتا ہے۔ موسمیاتی بحران سے براہ راست متاثر ہونے والے افراد کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے ایک بین الضابطہ نقطہ نگاہ ترتیب دینا ناگزیر ہے۔ عملی شکل میں ڈھالے جانے پر یہ متعلقین سے روابط قائم کرنے،عملی احتساب کے لائحہ عمل یا حکومتی سرگرمیوں میں موسمیاتی اقدامات کی شمولیت کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی تیاری سے آگے بڑھتے ہوئے اس کے نفاذ کے لیے کام ہی تعمیری نتائج کی کنجی ہوگا۔ پالیسیوں کے نفاذ میں شعبہ جاتی تخصیص ہونی چاہیئے کیونکہ معاشرتی و سیاسی شعبہ جات میں اٹھائے جانے والے موسمیاتی اقدامات معاشی یا دفاعی شعبوں کی ضروریات سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ محکمہ موسمیات ےہ پےشنگوئی کر چکا ہے کہ ملک بھر میں مون سون سسٹم کے تحت شدید بارشےں اور ژالہ باری ہو گی ۔محکمہ موسمیات کے مطابق بحیرہ عرب میں مرطوب ہوائیں ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہو رہی ہیں جس کے تحت جو آٹھ جولائی تک ملک بھر میں مون سون بارشوں کا آغاز ہونے کا امکان ہے۔محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بارش سے اربن فلڈنگ کا خدشہ ہے جبکہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا بھی امکان ہے۔ آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش سے کمزور انفرا اسٹرکچر کونقصان پہنچ سکتا ہے، اربن فلڈنگ، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی صورتحال کے خدشے کے پیش نظر سیاحوں اور متعلقہ اداروں کو محتاط رہنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ہر مرتبہ درپےش آنے والی اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ اس جانب بھرپور توجہ مرکوز کر کے احتےاطی تدابےر اور ضروری اقدامات اٹھائے جائےں تاکہ نقصانات کی بڑھتی ہوئی شرح سے بچا جا سکے۔