چیف کورٹ گلگت بلتستان نے پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعلی گلگت بلتستان کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دے دیا۔یہ فیصلہ چیف کورٹ کے تین ججز پر مشتمل بنچ نے سنایا، جعلی ڈگری کیس میں تینوں ججز نے متفقہ فیصلہ سنایا۔اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رکن جی بی اسمبلی غلام شہزاد آغا نے درخواست دائر کی تھی۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ وزیر اعلی نے عوام کے ساتھ جس قسم کا مذاق کیا آج وہ پوری دنیا میں مذاق بن گئے ہیں ہم نے قانونی و آئینی طور پر کام کیا کسی کے ساتھ ذاتی عناد کی بنیاد پر کام نہیں کیا 'ہم نے جو بھی کام کیا وہ قانون و آئین کے تحت کیا ہم نے عدلیہ سے جو بھی فیصلہ آتا اسے قبول کرنا تھا چار مئی کا دن ایک نااہل اور جعلی پارٹی کے جعلی وزیر اعلی سے نجات کا دن ہے آج کے دن یہ لوگ سرٹیفائیڈجعلساز ثابت ہوگئے اور یہ سب غریب عوام کی آہ لگی ہے 'گلگت بلتستان اسمبلی میں جو بھی حکومت بنے گی وہ کم از کم خالد خورشید کی حکومت جیسی نہیں ہوگی۔ گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلی خورشید نے نااہلی کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کارکن مایوس نہ ہوں۔ پہلے بھی ورکر تھا آج بھی ورکر ہوں اور کل بھی ورکر ہی رہوں گا۔ میری جگہ پر پی ٹی آئی کا ورکرہی چیف منسٹر بنے گا اور پی ٹی آئی کی حکومت جاری رہے گی۔ پی ٹی آئی کی سیاست کرسی اور اقتدار سے ہٹ کے ہے۔ ایک نظریے کے تحت پاکستان کی بہتری کے لئے خان کے ساتھ ہیں۔ عدلیہ کی پہلے بھی عزت تھی اور آج بھی کرتے ہیں۔ ہماری جدوجہد انشااللہ کامیاب ہوگی۔ گلگت بلتستان پی ٹی آئی کا قلعہ ہے اور ہم یہ ثابت کر کے رہیں گے۔انہوں نے کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بالکل پرامن رہیں۔ آج کا فیصلہ پی ٹی آئی کی فتح ہے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا کہا گیا تو میں نے کہا کیوں اسمبلی تحلیل کروں؟ ہم اکثریت میں ہیں ہم دوبارہ الیکشن میں جا کر دو تہائی اکثریت کے لئے کوشش کریں گے اور جو آئین و قانون کا گندا کھیل پاکستان کے اندر کھیلاگیا ہے یہاں تو آئین و قانون بھی نہیں ہے جس خطے میں آئین و قانون نہیں ہے وہاں ہر آئین و قانون گھسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے پیغام دیا کہ یہ گلگت بلتستان ہے یہاں کی نہ تمہیں سمجھ ہے نہ پہچان ہے۔ یہاں کے عوام پہلی دفعہ امید کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور وہ امید پاکستان ہے اس کی عظمت و سربلندی کے لئے تن من دھن قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔دریں اثناء تحریک انصاف کے رہنما اور رکن اسمبلی شمس الحق لون نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی ہی حکومت رہے گی اور ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں جمہوری انداز میں ہی پی ٹی آئی حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ انہوںنے وزیر اعلی کے ڈگری کیس پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ اپنی جگہ لیکن جو وفاقی چور ٹولے سہولت کار ہیں ان کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی اپنا وقت پورا کرے گی چونکہ پی ٹی آئی نے گلگت بلتستان میں گڈ گورننس قائم کی گلگت بلتستان کو تعمیر و ترقی پر گامزن کیا اور عوام کے دلوں میں آج بھی پی ٹی آئی کیلئے محبت ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید خان نااہل ہونے والی پہلی سیاسی شخصیت نہیں ہیں۔پیپلز پارٹی کے رکن گلگت بلتستان اسمبلی غلام شہزاد آغا نے وزیر اعلی خالد خورشید خان کی قانون کی ڈگری چیلنج کرتے ہوئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ان کی نااہلی کا مطالبہ کیا تھا۔درخواست گزار نے اپنے وکیل امجد حسین کے ذریعے موقف اختیار کیا کہ خالد خورشید کی جمع کرائی گئی ڈگری کی لندن یونیورسٹی سے تصدیق نہیں ہوئی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن ایچ ای سی نے اسے جعلی قرار دیا ہے۔29 مئی کو عدالت کے چیف جج علی بیگ نے جسٹس ملک عنایت الرحمن، جسٹس جوہر علی اور جسٹس محمد مشتاق پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیا ، جسے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے اور چودہ روز کے اندر کیس ختم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔عدالت نے اس معاملے پر ایچ ای سی، وزیر اعلی، گلگت بلتستان بار کونسل اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔کیس میں تمام فریقین نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد بنچ نے خالد خورشید کو پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے دیا۔اس سے قبل گلگت بلتستان کی اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکین اسمبلی نے خالد خورشید کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادی تھی تاکہ وہ اسمبلی تحلیل نہ کر سکیں۔گلگت بلتستان اسمبلی کے سیکرٹری عبدالرزاق نے تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر نو اراکین اسمبلی کے دستخط موجود ہیں۔چیف کورٹ کے فیصلے کے بعد ریجن کے چیف الیکشن کمشنر نے خالد خورشید کو اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ڈی نوٹیفائی کر دیا۔گلگت بلتستان میں نئے وزیر اعلی کے انتخابات سے قبل پولیس کی بھاری نفری نے اسمبلی میں داخل ہوکر اسمبلی ہال کو سیل کرکے ملازمین اور صحافیوں کو اسمبلی عمارت سے نکال دیا جس کی وجہ سے انتخابی عمل بییقینی سے دوچار ہوگیا۔گلگت بلتستان اسمبلی کے سیکرٹری عبدالرزاق کی جانب سے نئے وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے جاری شیڈول کے مطابق بارہ بجے وزیر اعلی کے امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تھے۔پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے راجا اعظم خان، پیپلز پارٹی کی طرف سے امجد ایڈووکیٹ، مسلم لیگ نون کے انجینیئر انور اور جمعیت علمائے اسلام کے رحمت خالق نے وزیر اعلی کے امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔کاغذات نامزدگی کا عمل مکمل ہوتے ہی پولیس کی بھاری نفری ڈی آئی جی فرمان علی کی سربراہی میں اسمبلی میں داخل ہوگئی اور وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے کھولے گئے اسمبلی ہال کو دوبارہ بند کروا دیا۔پولیس کے جونیئر افسران کے مطابق اسمبلی عمارت میں موجود تحریک انصاف کے بعض ارکان اسمبلی جن کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں ان کی گرفتاری عمل میں لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔اسمبلی کے سینئر افسر کا کہنا تھا کہ پولیس اسمبلی کے اندر اور باہر موجود ہے، گلگت بلتستان اسمبلی میں تین بجے وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے رائے شماری ہونی تھی لیکن صورتحال پیچیدہ ہو گئی۔دوسری طرف بعض ارکان اسمبلی نے سپریم اپیلٹ کورٹ میں وزیر اعلی کے انتخاب کو روکنے کے لیے حکم امتناع کی درخواست دائر کردی ہے۔سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید کا کہنا ہے کہ نئے قائد ایوان کے انتخاب کو عمل میں لانے کے لیے بلائے گئے اسمبلی اجلاس کو بم کی افواہ پھیلا کر ملتوی کرا دیا گیا جس کا مقصد ہمارے ارکان کو خرید کر مینڈیٹ چوری کرنے کی کوشش ہے۔کچھ عرصہ قبل وطن عزیز میں جعلی ڈگری کی بنیاد پر متعدد اراکین اسمبلی نااہلی کی لٹکتی تلوار کا نشانہ بنے۔یہ عمل اس لیے عبرت انگیز ہے کہ جنہوں نے ملک و قوم کو چلانا ہے وہ جعلی طریقے اختیار کر کے اقتدار میں آتے ہیں اور انہیں اس پر شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔جعلی ڈگری والے اصلی ڈگری والوں کے حوالے سے فیصلے کرتے ہیں جو ایک المیہ سے کم نہیں۔ ماضی میں الیکشن کمیشن نے مختلف تعلیمی اداروں کی طرف سے جاری کردہ جعلی ڈگری کے حامل 54امیدواروں کے ناموں کی فہرست جاری کی تھی ۔ایچ ای سی کے سابقہ چیئرپرسن ڈاکٹر جاوید لغاری کے دور میں سپریم کورٹ کے حکم پر پارلیمینٹیرینز کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا عمل شروع کیا تھا۔پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے ایچ ای سی کو اس عمل سے روکنے کی کوشش کی لیکن ایسا کرنے میں ناکامی کے بعد ایچ ای سی کو صوبوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جسے اعلی عدلیہ نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔آخری کوشش کے طور پر اس دور کی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرپرسن سے وفاق کا منصب لیتے ہوئے کمیشن کو منسٹری آف ایجو کیشن ، ٹریننگز اور اسٹینڈرڈز کے زیر انتظام کردیا تھا ۔پھر سابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ ایچ ای سی حکومت کے دوسرے اداروں کے ملازمین کی ڈگریوں کی بھی جانچ پڑتال کرے گا، تاہم اس کے لیے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو خود ایچ ای سی سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ جعلی ڈگری کیس میں جس کیس نے شہرت حاصل کی وہ جمشید دستی تھے 'انہیں تین سال قید اور پانچ ہزار جرمانہ کی سزا سنائی گئی انہیں عدالت کے کمرے سے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی نے قاف لیگ کی آمنہ الفت کی ڈگری جعلی قرار دی۔صوبائی وزیر کھیل خیبر پختونخوا سید عاقل شاہ کی جعلی ڈگری کیس میں پشاور کی مقامی عدالت نے فیصلہ سنایا۔ انہیں ایک سال قید اور تین ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل میں جعلی ڈگری والوں کے خلاف عدالتی فیصلوں میں تیزی آئی ۔کیمبرج یونیورسٹی نے سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم و تربیت شیخ وقاص اکرم کی اے لیول کی ڈگری جعلی قرار دی ۔ کیمبریج یونیورسٹی نے ایچ ای سی کو بتایا کہ شیخ وقاص اکرم کی کوئی تعلیمی ڈگری ان کے پاس نہیں تاہم اے لیول کی ڈگری بھی جعلی ہے۔ جعلی ڈگری کیس میں پشاور کے سابق ایم پی اے سردار علی خان کو تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ۔ جعلی ڈگری کیس کی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ آئین کے تحت اگر ارکان نے جان بوجھ کر غلط بیانی کی تو ان کے خلاف فوجداری کارروائی بنتی ہے۔بہرحال سیاستدانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے حربے اختیار کرنے سے گریز کریں جن سے سیاست اور سیاستدانوں کی بدنامی ہوتی ہے اور عوام میں ان کیلئے نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں۔