گلگت بلتستان کیلئے جامع پروگرام مرتب کرنے کا مطالبہ

وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے ہیڈ آف یواین ریذیڈنٹ کوآرڈینٹرشاہ ناصر خان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کو ملک کے دیگر صوبوں سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یو این اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو گلگت بلتستان میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق متنازعہ نہیں، لیکن بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی توجہ گلگت بلتستان کی نسبت دیگر صوبوں پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ منفی اثرات گلگت بلتستان پر پڑرہے ہیں حالانکہ موسمیاتی تبدیلی میں گلگت بلتستان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے گلگت بلتستان کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ یو این سمیت تمام بین الاقوامی اداروں کو گلگت بلتستان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یو این گلگت بلتستان کے حوالے سے پانچ سالہ جامع پروگرام مرتب کرے جو گلگت بلتستان کے مخصوص جغرافیے کو مد نظر رکھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی، کلین انرجی، زراعت اور دیگر اہم شعبوں پر مشتمل ہو۔ متبادل توانائی کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے جنگلات کے بتدریج کٹاﺅ میں اضافہ دیکھا جارہاہے۔ یو این اور دیگر بین الاقوامی ادارے اگر گلگت بلتستان میں کلین انرجی پر توجہ دیں تو جنگلات کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔حالیہ سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے گلگت بلتستان میں بڑے پیماے پر تباہی ہوئی لیکن یو این اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا تعاون نہیں دیکھنے کو ملا۔ےہ درست ہے کہ گلگت بلتستان میں موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سے مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں جنکی روک تھام کے لئے ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان کہہ چکی ہےں کہ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں درجہ حرارت معمول سے چارسے چھے ڈگری زیادہ ہے، غیرمعمولی درجہ حرارت کے باعث سیلاب، برفانی جھیلیں پھٹنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ عید الاضحی پر چھٹیوں کی وجہ سے شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگا، ضلعی انتظامیہ، مقامی ادارے، کمیونٹیز الرٹ رہیں اور احتیاطی تدابیر اختیارکریں۔ پاکستان کے پاس پولر ریجن سے باہر کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں، پچھلے سال گلاف کے تےس سے زیادہ واقعات نے ہزاروں افراد کو بے گھر کر دیا تھا۔ گرمی کی حالیہ لہر کے باعث گلیشیئر پگھلنے کے خدشات کے پیش نظر محکمہ موسمیات گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں گلاف الرٹ جاری کرچکا ہے ۔ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں گلاف اور فلیش فلڈنگ کا خدشہ ہے۔ بارشیں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں لیکن اب حالیہ برسوں میں اس میں ہونے والا اضافہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں سے متعلق پیش گوئیوں کا سلسلہ 1999 سے جاری ہے ، جب پہلی بار اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا میں موسمیاتی تبدیلیو ں کے وار کی زد میں آنے والے ممالک کی فہرست جاری کی گئی اور ان موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب دنیا میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا بنیادی سبب تیزی سے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کو قرار دیا گیا ۔جسے پیدا کرنے میں وہ تمام ترقی یافتہ ممالک شامل تھے جن کی صنعتیں دن رات انسانی ضروریات کیلئے مختلف طرح کی مصنوعات سے زیادہ مقدار میں دھواں فضا میں بھیج رہی تھیں۔ پہلے موسمیاتی تبدیلی کی زد میں آنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر پانچواں بتایا گیا، وجہ یہ نہیں تھی کہ پاکستان کی فیکٹریاں زیادہ دھواں اگل رہی تھیں بلکہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر پاکستان کی حدود میں موجود گلیشیئرزکو اسکی بڑی وجہ بتایا گیا جن کے پگھلنے کی رفتار میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔ دیگر ممالک جہاں گلیشیئرز موجود ہیں ان ممالک کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔عالمی سطح پردنیا بھرکیلئے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے 2010 میں موسمیات کے ماہرین نے آگاہ کردیا تھا کہ سردی ہو یا گرمی ان میں شدت بڑھتی چلی جائے گی۔ ان تبدیلیوں کی بدولت خشک سالی بڑھے گی اور طوفانی قسم کی بارشیں برسیںگی۔ سیلاب آئیں گے، وہ ممالک جن کا انحصار زراعت پر ہے زیادہ متاثر ہونگے۔ انہیں پانی کی قلت کا سامنا ہوگا گلیشیئرز کے اندر چھپی جھیلوں کے پھٹنے کی وجہ سے پانی کے تیز بہاﺅ کی زد میں آنے والی آبادیوں کیلئے تباہ کن ہوگا۔ زمین کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا جوکہ برسات کے موسم میں شدید ترین حبس کا سبب بنے گا ۔اس سے زراعت متاثر ہوگی،اجناس کی پیداوار میں کمی آئے گی۔ انسانوں اور لائیو اسٹاک میں بیماریاں بڑھیں گی۔ اس سے بچاﺅ کیلئے ایک تو پانی کے ذخائر میں اضافے پر زور دیا گیا تاکہ خشک سالی کے وقت زراعت کو تحفظ فراہم کیا جاسکے اور درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے کیلئے جنگلات میں جنگلی بنیادوں پر اضافے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو رقبے کے تناسب سے خطرناک حد تک کم ہیں اور اس میں مزید کمی ہو رہی ہے۔ خاص کر پہاڑی علاقوں میں جنگلات میں اضافے کی بات کی گئی تاکہ بارشوں کے موسم میں لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے اور سردیوں کے موسم میں برفباری کی شدت سے بچا جاسکے۔گزشتہ سردیوں میں مری کے پہاڑوں پرجس قدر برفباری ہوئی یہ اس موسمی تبدیلی کا نتیجہ ہے جس کے بارے میں موسمیات و ماحولیات کے عالمی ماہرین عرصہ دراز سے پوری دنیا اور پاکستان کو آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ ہر موسم توقع سے زیادہ شدت کے ساتھ نازل ہوگا ۔ رواں سال ماہ جنوری میں مری میں برفانی طوفان اچانک اور اس قدر غیر متوقع تھا جس میں بہت سے افراد اپنے دوستوں و اہلخانہ کے ساتھ زندگی کی بازی ہار گئے یا رات بھر آباد علاقے میں ہونے کے باوجود امدا د کو ترستے رہے ۔ جسے انتظامی ناکامی قرار دیکر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جاتی رہی ۔ کچھ ایسی ہی صو رتحال کا سامنا چند ماہ قبل تھرو چولستان میںخشک سالی اور پانی کی کمی وجہ سے وہاںکی آبادی کو کرنا پڑا ۔موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاﺅکی ذمہ داری کسی ایک فرد یا سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ ہرشہری پریکساں عائد ہوتی ہے۔ایسا ملک جہاں قومی نوعیت کے منصوبوں کی بجائے ایسے غیر پیداواری منصوبوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہو جنہیں برسراقتدار جماعت اپنے حکومتی عرصہ کے اختتام سے قبل مکمل کر کے ان کی بنیاد پر آئندہ کیلئے انتخابی جیت کو یقینی بنانا ضرور سمجھتی ہو۔ انہیں وجوہات کی بنا پر ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں یہ احساس کبھی بیدار ہی نہیں ہوسکا کہ پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی کے ساتھ نیچے جارہی ہے ۔ آبادی میں اضافے کیلئے خوراک کی ضروریات کا پورا کرنا وافر پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ ہرسال برسات کا پانی ڈیم یا پانی کے بڑے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے سمندر برد ہو جاتا ہے لیکن سمندر تک پہنچنے سے پہلے بستیوں کی بستیاں اجاڑ جاتا ہے ۔ عالمی تھنک ٹینک جرمن واچ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کے موسمی حالات اور قدرتی آفات کا جائزہ لیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اس مدت کے دوران عالمی معیشت کو 2.56 کھرب امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔جرمن واچ کے گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو عالمی تنظیموں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ۔جرمن واچ نے رپورٹ میں کہا کہ فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثر ملک ہے۔ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہرین پاکستان میں موسمی حالات کے سبب آنے والی قدرتی آفات میں سے سیلاب کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ کشمیر اور گلگت بلتستان میں تقریبا تین لاکھ افراد متاثر اور 2300 ملین کے مالی نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریبا ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیشگی اندازہ نہ لگائے جانے اور مون سون کی شدید بارشوں اور گلوبل وارمنگ کے باعث پگھلتے گلیشیئرز پاکستان میں شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف حیاتیاتی تنوع والے علاقوں میں تقریبا ہر سال ہی سیلاب آنا معمول بن چکا ہے۔پگھلتے گلیشیئرز اور شدید مون سون بارشوں کے بعد دریاﺅں میں طغیانی کے بعد آنے والے دریائی سیلاب، بھارت کی جانب شدید بارشوں کے بعد پاکستان کے دریاﺅں میں پانی چھوڑنے سے آنے والے سیلاب، اربن فلڈنگ یا شہری سیلاب، پہاڑوں کی ڈھلون پر واقع انسانی آبادیوں میں اچانک بہا لے جانا والا سیلاب یا فلیش فلڈنگ اور سب سے زیادہ خطرناک گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلیں پھٹنے سے آنے والا سیلاب یا گلیشیئل لیک آٹ برسٹ فلڈ خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ان حالات میں زےادہ ضروری ےہ ہے کہ گلگت بلتستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نکالنے کےلئے اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔