سینئر وزیر راجہ ذکریا خان مقپون نے کہا ہے کہ کیڈٹ کالج سکردو کو مثالی ادارہ بنانے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے کیڈٹ کالج ایک قومی ادارہ ہے یہاں سے فارغ ہونے والے سینکڑوں طلبا ملک کے اہم اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں صوبائی حکومت نے کالج کیلئے پہلی مرتبہ فنڈز دئیے پانی اور بجلی کے مسئلے کے حل کیلئے آئندہ اے ڈی پی میں سکیم رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ قوموں کی تعمیر وترقی تعلیم سے مشروط ہے کیڈٹ کالج سکردو کے کیڈٹس فارغ ہوکر ملکی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالیں جب تک طلبا تعلیم کے میدان میں آگے نہیں بڑھیں گے تب تک قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتی کیڈٹس ہماری قوم کے معمار ہیں اگر تعلیم کے حصول میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تو قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا طلبا محنت اور لگن سے آگے بڑھیں قوم کو اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ طلبا نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ کر چڑھ کر حصہ لیں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں۔ےہ درست ہے کہ قوموں کی ترقی تعلےم سے شروط ہے‘ نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے ، جذبے اور توانائی اپنے عروج پہ ہوتے ہیں ۔اگران جذبوں اور توانائی سے قوم و ملک فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ انتہائی بڑا نقصان ہے ۔ہماری آبادی کا تقریبا ساٹھ فےصد نوجوانوں پر مشتمل ہے یہ نوجوان وہ ہیں جو صلاحیتوں سے بھرپور ہیں جنکے عزائم بلند ہیں جو مایوس نہیں ہیں اور جنکو اپنے ملک سے محبت ہے۔ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوے کیسے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔یہ کام حکومت ، والدین ، اساتذہ اور خود نوجوانوں، سب کو مل کر کرنا ہے۔اس حوالے سے سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے بہترین تعلیم کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہےں وہاں ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہواس لئے اس وقت کو ضائع نہ ہونے دیں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں ایسا علم جو اچھا انسان بنائے اور صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو۔اگر نوجوانوں میں لکھنے، پڑھنے،بولنے اور سمجھنے کی بہترین استعداد ہو گی تب ہی وہ ملکی معملات میں اپنا کردار بہتر طور پہ ادا کر سکیں گے۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش بھی ضرور کریں یہ ہنر ایک کارآمد ہوگا اور عملی زندگی میں ایک سے زیادہ راستے کھل جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو انسان سمجھنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ہم معاشرے کے کچھ لوگوں کو ان کے پیشوں سے ہٹ کر اپنے جیسا انسان سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ایک اور اہم کام جو کرنا ہو گا وہ یہ ہے کہ ایک باخبر انسان بننا ہے ۔اپنی تاریخ سے بھی باخبر اور مستقبل میں کیا ہوتا نظر آرہا ہے اس سے بھی باخبر نوجوان وہ نسل ہیں جنہیں آگے جا کر ملک کی باگ ڈورسنبھالنی ہے اس لئے ےہ معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی کی غلطیاں کیا تھیں جنہیں اب نہیں دھرانا اور بہترمستقبل کے لئے زمانے کے موجودہ وسائل اور ایجادات کا کیسے صحیح استعمال کرنا ہے ۔کتابیں پڑنے کی عادت ڈالیے اچھی اور علمی صحبت تلاش کیجئے ۔انٹر نیٹ کی سہولت سے مثبت طور پے استفادہ کیجئے۔فیس بک، وٹس اےپ‘ےو ٹےوب یہ سب چیزیں وقت ضائع کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے لہذا ان سے فائدہ اٹھانے والے بنیے۔ نوجوانوںکو اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں اوران کے مسائل سے بھی باخبر رہنا ہو گا تاکہ ایک دن جب وہ ایک ڈاکٹر، جج ، وکیل ، صحافی ، استاد یا کسی بھی پیشے کی حےثیت میں عملی طور پر مصروف عمل ہوں تو معاشرے میں موجود نسلی، لسانی اور طبقاتی اونچ نیچ سے بالا تر ہو کر معاشرے کی ان ناانصافیوں کو دور کرنے کا باعث بننے والے ہوں ۔جس معاشرے میں انصاف ہوتا ہے وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے اور پھر اجتماعی طور پہ وہ پوری قوم ہی ترقی کی رہ پہ گامزن ہو جاتی ہے۔نوجوانوںکو اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن اور ترتیب بھی ضرور پیدا کرنا ہوگا اگر طلباءکتنی ہی محنت سے کوئی کام کریں لیکن اگر اس میں بے ترتیبی ہوگی تو نتیجہ وہ نہیں حاصل ہوگا جو اتنی محنت کے بعد حاصل ہونا چاہیے۔ملکی ترقی کی اصطلاح سے مراد ہے کسی بھی ملک کا افراد کی مجمو عی کوششوں کی بدولت اخلاقی،سماجی،معاشی اورمعاشرتی، المختصر تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہتری کی طرف گامزن ہونا۔کسی بھی ملک میں طلبہ کی مثال ایک ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ملک و قوم کی ترقی میں طلبہ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔وہ قوم کے رو شن مستقبل کے ضامن ہیں۔اگر کسی قوم کے طلبہ تعلیم یافتہ،ذمہ داراور فرض شناس ہیں تو یہ اس بات کا منہ بولتاثبوت ہے کہ اس قوم کا مستقبل محفوظ ہے۔اور اگر اس کے بر عکس کسی ملک و قوم کے طلبہ غیر ذمہ دار ہیں تو اس کا مستقبل تاریک ہے۔اگر کسی بھی ملک میں طلبہ کی تعداد کم ہوگی تو شرح خوا ندگی کم ہوگی اور صاحب شعور لوگوں کی کمی ہوگی جس کے نتیجے میں مسائل کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔تو ایک نا قابل فرا موش حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کے لیے طلبہ کا ہونا ضروری ہے۔اگر افراد ترقی کریں گے تو ملک ترقی کرے گا اور اگر ملک ترقی کرے گا تو اس کے اثرات افراد تک پہنچیں گے۔ملک و قوم کی حفا ظت و آبیاری اور اس کو مستحکم و مضبوط بنانے کی ذمہ داری بالخصوص کسی ایک فرد پر عا ئد نہیں ہوتی بلکہ اس کے تمام افراد اس کی حفاظت کے ذمہ دار اور اسکی عظمت و حرمت کے رکھوالے اور امیں ہیں جن میں طلبہ سر فہرست ہیں۔ انسان عمر کے مختلف مدارج سے گزرتا ہے یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔بچپن میں انسان صرف خواب دیکھتا ہے لیکن ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتااور با لکل اسی طرح بڑھاپے میں بھی اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کا سامان کر سکے۔اسکی ہمت، جذبے اور ارادے بھی ڈھلتی عمر کے ساتھ بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔تو صرف جوانی ہی عمر کا وہ بہترین حصہ ہوتا ہے جب وہ خواب بھی دیکھتا ہے اور انہیں تکمیل کے سانچے میں ڈھالنے کی ہمت اور طاقت بھی رکھتا ہے۔تو اس ضمن میں طلبہ کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے کیوں کہ ان کے پاس اپنے خوابوں کی تکمیل اور ملک و قو م کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تمام مطلوبہ ذرائع اور وسا ئل میسر ہیں۔ماضی کے دریچوں میں جھانکنے سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ انسانی میں جب بھی کوئی انقلاب رونما ہوا تواس میں طلبہ صف اول میں شامل رہے۔تحریک پاکستان میں طلبہ کا کردار نا قابل فراموش ہے۔تحریک پاکستان کے دوران طلباءنے پیغام قائد کو قریہ قریہ گلی گلی پہنچایا اور قائد اعظم کا ہراول دستہ بنے رہے۔اسی طرح جب صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمو لیت اختیارکرنے کا وقت آیا توطلبہ پیش پیش رہے اور ہجرت کے بعد مہاجرین کے مسائل کے حل کو یقینی بنایا اور انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی۔ پاک بھارت جنگوں میں بھی طلبہ نے مثالی کردار ادا کیا ۔زخمیوں کو طبی امداد دی اور ضرورت مندوں کو خون کے عطیات بھی دیے۔ماضی کے یہ تمام واقعات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے طلبہ ہماری ترقی ،خوشحالی اور روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ جدیدسائنسی اور فنی تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں رہیں تاکہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔قائد اعظم نے طلبہ کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے۔اس لیے انہیں چا ہیے کہ قائد کے فرمان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کی طرف مبذول کریںکیوں کہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہی ملک و قو م کی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ایک تعلیم یافتہ اور باشعور انسان ہی ملکی باگ ڈور سنبھال سکتا ہے اور اس کی ڈوبتی ناﺅ کو پار لگا سکتا ہے۔طلبہ کو چاہیے کہ وہ اچھے پاکستانی بنیں۔قوم ان کی طرف پرامید نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔انہیں چاہیے کہ قومی تہذیب و ثقافت کے پاسباں بنیں‘انہیں چاہیے کہ وہ اپنی پنہاں صلا حیتوں کو بروئے کار لاتے ہو ئے وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
