گرمی کی شدت اور موسمیا تی تبدیلیاں

گرمی کی شدت میں وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کا شمالی خطہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے جب کہ مغربی حصہ گرمی کی لپیٹ میں ہے۔پگھلتے گلیشےئرز، سیلاب، پانی کی کمی، خشک سالی اور تواتر کے ساتھ آنے والی گرمی کی لہروں کی وجہ سے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک کے دس سرِفہرست ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان کو عالمی اوسط سے کہیں زیادہ گرمی پڑنے کے خطرے کا سامنا ہے۔ اگر کاربن کے اخراج کی یہی صورتِ حال برقرار رہی تو 2090 کی دہائی تک ملک کا اوسط درجہ حرارت 4.9 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔ملک کی آبادی کا بڑا حصہ دریائے سندھ کے کنارے واقع شہروں یا دیہی علاقوں میں آباد ہے جو عام طور پر سیلاب کے خطرات کا زیادہ شکار ہیں جب کہ ملک کے شمال اور مغربی پہاڑی خطوں میں زلزلوں کا آنا بھی معمول ہے۔ پاکستان میں بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے شمالی علاقہ جات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جب کہ سندھ میں تواتر کے ساتھ شدید گرمی کی لہریں بھی دیکھی جا رہی ہیں۔پاکستان میں مجموعی طور پر 1997 سے 2015 تک 126 ہیٹ ویوز آئیں جن کی سالانہ شرح سات ریکارڈ کی گئی۔ لیکن 2015 کے بعد سے ہیٹ ویوز میں مزید تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے نتیجے میں اموات میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔پاکستان کے مغربی علاقوں میں گرمی کی شدت میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں بارشوں کے سالانہ دورانیے میں تبدیلی اور کم ہوتے ہوئے پانی کے ذخائر سے خشک سالی جیسی صورتِ حال پیدا ہونے کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ دریائے سندھ اور اس سے منسلک دیگر دریائی نظام جسے انڈس بیسن سسٹم کہا جاتا ہے، اس پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے پانی کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ پانی کے ذخائر کی ناکافی گنجائش کی وجہ سے زمینی پانی استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ اور مستقبل میں اس پر مزید دباﺅ دیکھا جائے گا۔ ملک کے بنجر زمینی علاقوں میں 1960 سے اب تک 10 سے 15 فی صد بارشوں میں پہلے ہی کمی ریکارڈ کی جا چکی ہے۔ہمےں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے ہمہ جہت پالیسی اپنانا ہو گی۔پاکستان میں ماحولیاتی تباہی سے متعلق شعور اب بھی بے حد کم ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق مسائل کا تکنیکی طور پر حل تلاش کرنا ہوگا۔موسمی اثرات کو کم کرنے کے لیے ملک میں قابلِ تجدید توانائی کا استعمال 30 فی صد تک لے جانے، آب پاشی کے لیے شمسی توانائی کا استعمال، پلاسٹک کو ایک سے زائد بار استعمال کے قابل بنانے کے اقدامات، الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کی تیاری اور دیگر منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔گزشتہ آٹھ برس تاریخ کے گرم ترین سال تھے جب سطح سمندر میں اضافے اور سمندری حدت نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہاﺅس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔گرین ہاﺅس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج اور تبدیل ہوتے موسم میں دنیا بھر کے لوگ شدید موسم اور موسمیاتی حادثات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔گزشتہ برس مشرقی افریقہ میں متواتر خشک سالی، پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور چین اور یورپ میں اب تک آنے والی گرمی کی شدید ترین لہروں جیسے موسمی واقعات نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان واقعات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی اور اربوں ڈالر کا نقصان اور تباہی ہوئی۔ انسانوں پر شدید موسم کے اثرات کو محدود رکھنے میں مدد دینے کے لئے موسمیاتی نگرانی اور ایسے واقعات کے بارے میں بروقت انتباہ کے نظام بنانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت سے انکار نہےں کےا جا سکتا۔ اس وقت ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے عمل کو سستا اور پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی بنا دیا ہے۔گرین لینڈ اور انٹارکٹکا میں گلیشیئروں اور برفانی تہہ کے پگھلنے کے علاوہ گرمی کے سبب سمندری حجم بڑھنے سے بھی سطح سمندر میں اضافہ ہوا جس سے ساحلی علاقوں اور بعض صورتوں میں پورے ممالک کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ شدید موسمی حالات کے بہت سے سماجی معاشی اثرات نے دنیا بھر میں غیرمحفوظ ترین لوگوں کی زندگیوں کو غارت کر دیا ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلسل پانچ سالہ خشک سالی اور مسلح تنازعات جیسے دیگر عوامل کے سبب خطے بھر میں 20 ملین لوگ تباہ کن غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔گزشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران پاکستان میں آنے والے بہت بڑے سیلاب میں 1700 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے جبکہ اس آفت نے مجموعی طور پر 33 ملین لوگوں کو متاثر کیا۔ اس سیلاب سے مجموعی طو رپر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک آٹھ ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے تھے۔ سال بھر خطرناک موسمی حالات نے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کے علاوہ پہلے ہی بے گھری کی زندگی گزارنے والے 95 ملین لوگوں میں سے بڑی تعداد کے لیے حالات بدترین بنا دیے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ارتھ ڈے پر اپنے پیغام میں خبردار کیا تھا کہ حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دس لاکھ انواع معدومیت کے دھانے پر ہیں۔ انہوں نے دنیا سے کہا کہ فطرت کے خلاف یہ مسلسل اور غیرمعقول جنگ بند کی جائے۔ ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے ذرائع، علم اور طریقہ ہائے کار موجود ہیں۔2019 میں آئی پی سی سی نے نشاندہی کی تھی کہ عالمی حدت میں کمی لانے کے لیے 2030 تک کاربن کے اخراج کو 2010 کی سطح کے مقابلے میں 43 فیصد تک کم کرنا ہو گا لیکن حالیہ موسمیاتی منصوبوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں الٹا 10.6 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔تاہم گزشتہ برس کی رپورٹ کے مقابلے میں قدرے بہتر صورتحال ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ 2030 تک کاربن کے اخراج میں 13.7 فیصد اضافہ متوقع ہے اور 2030 کے بعد گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں اضافہ جاری رہے گا۔ 2030 تک گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممالک نے اس سال کچھ پیش رفت ضرور کی ہے۔ان حالات میں حکومتوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے منصوبوں کو فوری طور پر بہتر بنانے اور آئندہ آٹھ سال میں ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس سی او پی چھبےس کے دوران تمام ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے مںصوبوں پر نظرثانی کرنے اور انہیں بہتر بنانے پر اتفاق کیا تھا لیکن 193 میں سے صرف چوبےس ممالک نے ہی اقوام متحدہ کو اپنے نئے منصوبے جمع کرائے۔یہ مایوس کن صورتحال ہے۔ حکومتوں کے فیصلوں اور عملی اقدامات سے ان خطرات سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت اور ان کی شدت کا اظہار ہونا چاہیے جو آج ہمیں درپیش ہیں اور ان اقدامات سے واضح ہونا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے ہمارے پاس بہت کم وقت باقی ہے۔ اقوام متحدہ کو نئے منصوبے جمع کرانے والے بیشتر ممالک نے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کی صورتحال کو بہتر کیا ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے خاطرخواہ عزم کا اظہار ہوتا ہے۔دنیا کے 93 فیصد جی ڈی پی، عالمی آبادی کے 47 فیصد اور دنیا بھر کی 69 فیصد توانائی استعمال کرنے والے 62 ممالک ان منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ےہ اس بات کی ایک اہم علامت ہے کہ دنیا کاربن کا اخراج نیٹ زیرو سطح پرلانے کے مقصد کی جانب اپنا سفر شروع کر چکی ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اپنے منصوبوں پر نظرثانی کریں اور انہیں بہتر بنائیں تاکہ گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کی موجودہ صورتحال اور اس حوالے سے سائنس دانوں کے متعین کردہ اہداف کے مابین فرق دور ہو سکے۔ بات چیت سے عملدرآمد کی جانب ہم ضروری کردار ادا کر سکتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ایسی تبدیلی کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں جو موسمیاتی ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کے لیے معاشرے کے ہر حصے میں لائی جانی چاہیے۔ان ممالک کو چاہےے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے چار ترجیحی شعبوں میں پیش رفت کریں جن میں گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنا، خود کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھالنا، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصان پر قابو پانا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کا اہتمام کرنا شامل ہیں۔انتونیو گوتیرش نے اقوام متحدہ کے اعلی حکام، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے رہنماﺅں پر مشتمل ایک مشاورتی پینل کا اجلاس منعقد کیا تھا جس کا مقصد 2027 تک تمام ممالک کو شدید موسمی واقعات سے بروقت آگاہی کے نظام کے ذریعے تحفظ دینے کی غرض سے ایک عالمگیر اقدام کی رفتار تیز کرنا تھا۔اس موقع پر ابتدا میں تےس ایسے ممالک میں ایک تیزرفتار مربوط اقدام کا اعلان کیا گیا جو شدید موسم کے مقابل خاص طور پر غیرمحفوظ ہیں۔ ان میں چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک اور کم ترین ترقی یافتہ ملک شامل ہیں۔