وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کاشغر میں فیسٹیول کے اختتامی تقریب میں پاکستانی وفد کی سربراہی کی۔اس موقع پر گورنر سنکیانگ، چائینز حکومت کے اعلی عہدیدار اور بےس ممالک کے وفود نے فیسٹیول میں شرکت کی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور چین کی دوستی لازوال ہے۔ پاکستان ایک چائنہ پالیسی کے ساتھ کھڑا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہاکہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے بعد جس طرح چائنہ نے پاکستان کی مدد کی اس پر چائینز حکومت کے مشکور ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ہے۔ پاکستان کو چائنہ کی دوستی پر فخر ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہاکہ گلگت بلتستان میں ہائیڈرو، زراعت، سیاحت اور معدنیات کے شعبے میں بہت سے مواقع ہیں۔ چائینز سرمایہ کاروں کو گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ گلگت بلتستان میں چالےس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پانی سے پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ زراعت، معدنیات اور ہائیڈرو کے شعبے میں چائنہ کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تعاون کریں۔ چائینز سرمایہ کاروں کے ساتھ بھرپور تعاون کیاجائے گااور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس موقع پر وزیر اعلی نے گورنر سنکیانگ اور چائینز سرمایہ کاروں کو گلگت بلتستان دورے کی دعوت دی۔ چائنہ ہمارا ہمسایہ دوست ملک ہے۔ پاکستان کے ہمیشہ سے چائنہ کیساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ہر مشکل اور آزمائش کی گھڑی میں چائنہ نے پاکستان کا ساتھ دے کر اپنی دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے کہ ہم چائنہ کے ہمسایہ ہیں۔ گلگت بلتستان میں مستقبل قریب میں چائینز حکومت کے تعاون سے بہت سے منصوبے متوقع ہیں۔ سی پیک دونوں ممالک کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مستقبل میں پاور سیکٹر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوگی جس سے چائنہ اور ملک کے دیگر صوبوں کو کلین انرجی فراہم کی جاسکے گی۔ گلگت بلتستان سے پھلوں اور دیگر اشیا کو چائنہ برآمد کےا جا سکتا ہے ۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ چین پاکستان کے متعدد منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پاکستان کو درپیش داخلی مشکلات کے باوجود چین سرمایہ کاری اس امید کے ساتھ کرنے پر تیار ہے کہ ایسا کرنے سے پاکستانی معیشت اور معاشرت استحکام کی طرف بڑھے گی جس کے نتیجے میں پاکستان چین کے لئے ایک موثر اثاثہ ہے ۔چین کی ابھرتی ہوئی معیشت اور بڑھتی فوجی طاقت سے پاکستان کو بہت بڑا سہارا مل سکتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے، چینی سرمایہ کاری خیر سگالی سے بڑھ کر ایک حکمت عملی کا حصہ ہے جس کی رو سے ایک کمزور اور غیر مستحکم پڑوسی چین کے مفادات کے لیے اچھا نہیں رہے گا۔جیسے جیسے افغانستان میں چین کی سرمایہ کاری اور صنعت سازی بڑھے گی ویسے ویسے وہ علاقائی استحکام میں پاکستان کے ایک مثبت کردار کا طالب ہوگا۔چین نے پاکستان کو اربوں ڈالر کا تاریخی اقتصادی پیکیج دے کر جو احسان کیا ہے اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ چین کے صدر، وزیراعظم اور چینی قیادت کی جانب سے تاریخ ساز پیکیج پاکستان کی کسی ایک اکائی کیلئے نہیں بلکہ بائیس کروڑ پاکستانیوں کیلئے عظیم تحفہ ہے اور اس سے قومی یکجہتی، باہمی محبت، اخوت اور یگانگت بڑھے گی۔ چینی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت کی تقدیر بدلے گی۔ پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام ضرور حاصل کرے گا۔ اس مقصد کیلئے ہمیں امانت، دیانت اور محنت کے سنہری اصولوں کو اپنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔چین کے تعاون سے ترقی وخوشحالی کے شاندار سفر کا عظیم آغاز ہوا ہے اور اختتام بھی عظیم ہوگا۔ چین کے پاس نہ تیل ہے نہ گیس بلکہ یہ ان کی محنت کی کمائی ہے جو انہوں نے اپنے دوست ملک پاکستان کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے اور معاشی طورپر مضبوط بنانے کے لئے دی ہے۔ چین نے ایک مشکل وقت میں ہمارا ہاتھ تھاما ہے اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھائیں اور ملک کو معاشی طورپر مضبوط بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیں۔چین کے تعاون سے توانائی کے منصوبوں سے ترقی کی رفتار بڑھے گی کیونکہ توانائی ہوگی تو ہماری صنعتوں کا پہیہ رواں دواں ہوگا ،کھیت ہرے بھرے ہوںگے ، زراعت ترقی کرے گی۔ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو گی، روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے۔ امپورٹ و ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا، غربت میں کمی آئے گی اور ہم اپنے ہمسایہ ملک سے معاشی میدان میں مقابلے کے قابل ہوں گے۔ ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا نادر موقع ہے اور امتحان بھی، جسے کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ چین کی ترقی ہمارے لئے رول ماڈل ہے اور ہمیں اس سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ وطن عزیز کو اندھیروں اور مسائل کے چنگل سے نکالنے کے لئے افواج پاکستان، پولیس، تمام اداروں اور معاشرے کے تمام طبقات کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان کے بڑے سرمایہ کاروں کو بھی اب پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے میدان عمل میں آنا چاہیے۔چین پاکستان کا سٹریٹجک پارٹنر ہے ۔لاہور میں قائم چینی ٹیکسٹائل کمپنی نے گلگت بلتستان حکومت سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت گلگت بلتستان سے دو ہزارافراد کاانتخاب کیا جائے گا اور منتخب افراد کو تربیت دینے کے بعد لاہور میں ٹیکسٹائل فیکٹری میں ملازمتیں دی جائیں گی۔گلگت بلتستان سیاحت کی دولت سے مالامال ہے لیکن انفراسٹرکچر نہ ہونے سے یہاں سیاحت فروغ نہیں پاسکی اور ترقی محدود ہے۔کچھ عرصہ قبل چےن نے کہا تھاکہ سوملین ڈالر کی لاگت سے گلگت بلتستان میں آبی توانائی کے مختلف منصوبوں پر کام کیا جائے گا جس سے گلگت بلتستان میں توانائی کے شعبے میں نمایاں بہتری آئے گی۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پانی سے انتہائی سستی بجلی بنانے کی اہلیت کے باوجود دیگر ذرائع سے مہنگی بجلی پیدا کرتے ہیں۔ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول کی شرح اکتیس فی صد ہو گی جب کہ 2047 میں یہ شرح کم ہو کر 23فی صد رہ جائے گی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار بجلی کے حصول کے جدید ذرائع پر انحصار نہیں کر رہے۔ ایک جانب درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنا بلاشبہ ایک قابل ستائش اقدام ہے۔ کوئلہ او دیگر فوسل ایندھن کے استعمال میں کمی اور قابل تجدید توانائی میں اضافے سے پاکستان میں بہتری آئے گی۔ تاہم حکومتی پلان میں کم لاگت سے بجلی پیدا کرنے والے ذرائع یعنی ہوا اور شمسی توانائی کے مقامی وسائل کو کہیں بھی مناسب اہمیت نہیں دی گئی۔ حکومتی پلان سے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے ۔حکومتی پلان میں زیادہ توجہ پن بجلی اور کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار پر دی گئی ہے جب کہ متبادل توانائی کے ذرائع کو ان کی مکمل استعداد کے مطابق استعمال کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔پاکستان میں سستی اور صاف بجلی کی پیداوار بڑھانے کی استعداد موجود ہے مگر ہمیں جدت اور کھلے دماغ کے ساتھ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال کرنا ہوگا۔حکومت پاکستان کے وزارت توانائی کے ماتحت کام کرنے والی کمپنی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کی جانب سے تیار کیے گئے اس پلان میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ2047تک ملک میں بجلی کی ضرورت ایک لاکھ تیس ہزار میگاواٹ سے دو لاکھ بیس ہزار میگاواٹ تک ہوجائے گی۔اس مقصد کے لیے ملک میں پن بجلی اور تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر کے انحصار سے بجلی کی ضرورت کو پورا کیا جائے گا جب کہ2030 تک متبادل توانائی کے مختلف منصوبوں کے ذریعے بھی بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پانی کی کمی ہو گی اس لیے آبی ذرائع سے بجلی کے حصول کی آئندہ مصدقہ پیشگوئی چوں کہ ناقابل بھروسہ ہے ،اس لیے بلوم برگ کی پیشگوئی کے مطابق عالمی طور پر آئندہ تین عشروں میں2050 تک آبی بجلی کی پیداوار سولہ فی صد سے کم ہوکربارہ فی صد ہوجائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان پانی کا حب ہے جہاں ایک لاکھ میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے حتی کہ رن آف ریور سے بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر بڑے منصوبے نہ بھی لگائے جائیں تو بہتے پانی سے بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ پن بجلی‘بجلی کی پیداوار کا سستا ترین ذریعہ ہے مہنگی بجلی کی پیداوار سے پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور پاکستانی مصنوعات مہنگی ہونے کے باعث عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔اس لیے چینی سرمایہ کاری کے ذریعے گلگت بلتستان میں سستی بجلی کی پیداوار کو یقینی بنانا ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔گلگت بلتستان میں ہائیڈرو، زراعت، سیاحت اور معدنیات کے شعبے میں بہت سے مواقع ہیں جن سے چےنی سرماےہ کار فائدہ اٹھا سکتے ہےں۔
