چین کی ترقی سے استفادہ کی درست حکمت عملی

وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے دورہ کاشغر کے موقع پر پاکستان کے فارن آفس کے نمائندوں، تاجر برادری اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دورہ چین کے موقع پر مختلف شعبوں میں تعاون کے حوالے سے مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط متوقع ہیں۔ چین پاکستان کا اہم دوست ملک ہے جس نے ہر فورم میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ سی پیک پاکستان اور چائنہ دونوں ممالک کیلئے ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے اس اہم اجلاس کے موقع پر باہمی تجارت کے فروغ، گلگت بلتستان کے طالب علموں کو چائنہ میں اعلی تعلیم کیلئے سکالر شپ، توانائی، منرلز، سیاحت کے فروغ، ماحولیات کے تحفظ، تاجروں کودرپیش مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے اہم اجلاس میں مشاورت کی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہاکہ زراعت کے شعبے سمیت دیگر اہم شعبوں میں چائنہ کی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے پربات چیت کی جائے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ کاشغر فیسٹیول میں گلگت بلتستان کی ثقافت کو اجاگر کرنے سے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور سیاحت کو فروغ دیا جاسکے گا۔وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہاکہ گلگت بلتستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے حوالے سے بھی چائنہ دورے کے موقع پر چائینز حکومت اورتاجروں سے بات کی جائے گی۔ حکومت گلگت بلتستان توانائی سمیت دیگر اہم شعبوں میں تاجروں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے گی۔اس امر میں کوئی شبہ نہےں کہ اگر پاکستان چین کی جدید زرعی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرے تو زرعی شعبہ میں بہت ترقی ہو سکتی ہے۔ اس وقت زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اس لئے اپنے کسانوں کے لےے فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے چین کی جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال کےا جائے ۔ پاک چین شراکت داری کا مقصد چین کے تجربے سے غربت میں کمی کے اقدامات سے سیکھنا ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعاون بڑھ رہا ہے، سی پیک اور اقتصادی راہداری باہمی تعاون کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔چین کی سرمایہ کاری اقتصادی شراکت داری بڑھانے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے، یہ شراکت داری صرف دو طرفہ نہیں بلکہ پورے خطے کی بہتری اور ترقی کے لیے ہے۔زراعت کسی بھی ملک کی اسٹرٹیجک اہمیت حامل شعبہ ہوتا ہے۔ زرعی خود کفالت کسی بھی ملک کو خود انحصاری کی راہ پر آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں جہاں زندگی کے تمام شعبے ترقی کر رہے ہیں زراعت کے شعبے کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین میں زرعی شعبے کو شاندار انداز میں ترقی دی گئی ہے۔ بیجوں کے انتخاب سے لےکر پیداوار کی پراسیسنگ تک ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال نظر آتا ہے۔ ڈیجیٹل آٹو میشن، انٹرنیٹ آف تھنگز اور سیٹلائٹ نیوی گیشن سمیت جدید ٹیکنالوجیز نے زرعی شعبے کو آسان، باسہولت اور منافع بخش بنا دیا ہے۔ چینی کسانوں کے مطابق آٹومیشن کے استعمال سے کارکردگی اور فصل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ چینی حکومت اپنے کسانوں کی مسلسل رہنمائی کررہی ہے۔چےن مےں دیہی بحالی کی حکمت عملی کا نفاذ ، اہم زرعی مصنوعات خصوصا خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانا بنیادی کام ہوتا ہے ۔ چین کا جامع دیہی احیا کو فروغ دینا اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ، عالمی معیشت کی مستحکم بحالی کی ایک مضبوط بنیاد کے لیے مدد فراہم کررہا ہے ۔اسی ترقی اور توجہ کی بدولت ہے کہ اس وقت چین کے خود تیار کردہ بیجوں سے پیدا ہونے والے اناج کا رقبہ چین میں اہم فصلوں کے کل رقبے کا پچانوے فیصد سے زیادہ ہو گیا ہے ، چاول اور گندم کی خود کفالت کی شرح سو فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم، سبزیوں کے بیجوں کے سلسلے میں، چین اب بھی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے،چین کی بیجوں کی صنعت کی ترقی کے لیے اب بھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ چین کے صوبے شان دونگ کے تائیان شہر کے دیہات گندم کی پیداوار کے لئے مشہور ہیں۔چین میں زراعت کے شعبے میں زرعی کوآپریٹو نظام غریب کسانوں کے کھیتوں کو بھی جدید ٹیکنالوجیز سے استفادہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ بڑے کوآپریٹو گروپس بیج کے انتخاب سے لے کرڈرون اسپرے تک عام کسانوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس زرعی جدت کاری نے چینی منڈی کی طاقت کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان کے لئے چین کی زرعی منڈی میں وسیع مواقع موجود ہیں۔ سی پیک کی تعمیرسے پاک چین زرعی تعاون کو وسیع ترقی حاصل ہوئی ہے۔ اس شعبے نے اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہم پیش رفت ظاہر کی ہے ۔ 2011 سے 2019 تک پاکستان اور چین کے درمیان زرعی مصنوعات کی تجارت کا حجم 490 ملین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 830 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ چکا تھا جس میں شرح اضافہ تقریباستر فیصد ہے۔ 23نومبر کو پاکستانی پیاز کی چین برآمد کے لیے معائنہ اور قرنطینہ کی ضروریات کے پروٹوکول پر باضابطہ دستخط کیے گئے۔ یہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں زرعی مصنوعات کی برآمدات کے لیے دستخط کیے جانے والا پہلا معاہدہ ہے۔ چین میں زرعی ٹیکنالوجیز کا استعمال ایک عام چیز بن چکا ہے۔ملک کے بیشتر حصوں میں یہ عمل مکمل طور پر آٹومیشن کا حامل ہے۔ بیدو سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم ، بگ ڈیٹا ، ہائی برڈ سیڈ، نئی کھادوں ، زمین کی لیزر لیولنگ، ڈرپ ایری گیشن، گرین ہاوسز، پیسٹ کنٹرول،مشینی بوائی، ڈرون نگرانی، ڈرون اسپرے اور مشینی کٹائی سمیت لاتعداد نئے طریقوں کی مدد سے پیداوار میں واضح اضافہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آن لائن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، کارگو کمپنیوں اور جدید لاجسٹکس کی سہولیات کی مدد سے فصلوں کی فروخت نے شاندار نتائج دئیے ہیں۔ اسی طرح چین کے وسیع و عریض شمال مغربی علاقوں میں نئی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی نے روایتی کوئلے کی بجلی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور آج یہ بجلی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے 2022 کے اختتام تک چین کے نارتھ ویسٹ پاور گرڈ میں نئی توانائی کی نصب شدہ صلاحیت 157 ملین کلوواٹ تک پہنچ گئی تھی،جو خطے میں بجلی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ چین کے اسٹیٹ گرڈ کے اعداد و شمار کے مطابق شمال مغربی چین میں نئی توانائی کی نصب شدہ صلاحیت میں گزشتہ دس سالوں میں دس گنا اضافہ ہوا ہے جو دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو پاور اسٹیشن یعنی چین کے تھری گورجز ہائیڈرو پاور اسٹیشن کی نصب شدہ صلاحیت کا تقریباسات گنا ہے۔ ریگستان اور گوبی کے علاقوں میں زیر تعمیر شمسی اور پون بجلی کے بڑے اڈوں کے مسلسل فروغ کے ساتھ ساتھ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ 2025 تک شمال مغربی چین میں نئی توانائی کی نصب شدہ صلاحیت تےن ملین کلو واٹ سے تجاوز کر جائے گی۔ چینی عوام کی ایک بہتر ماحول کے حصول کی خواہش میں اضافہ ہوا ہے ، اسی باعث توانائی کے ڈھانچے میں بہتری اور کاربن اخراج میں کمی جیسے عوامل ماحول کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔شمسی اور پون بجلی سمیت دیگر قابل تجدید توانائی وسائل کو فروغ دینے سے نہ صرف آلودگی اور کاربن اخراج میں موثر طور پر کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول اور رہائش کے ماحول کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔مزید یہ کہ 2020 میں چین نے واضح طور پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی 2030 سے پہلے عروج پر لائی جائے گی اور 2060 سے پہلے کاربن نیوٹرل کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ان اہداف کی تکمیل کے لئے چینی حکومت نے قابل تجدید توانائی سے متعلق صنعتوں کی ترقی اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے متعدد اقدامات اپنائے ہیں۔اس وقت چین کی قابل تجدید توانائی کی ترقی میں تاریخی پیش رفت ہو رہی ہے۔ چین کی نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو ہزار بائیس میں چین میں شمسی اورپون بجلی کی پیداوار پہلی بار ایک ٹریلین کلو واٹ سے تجاوز کرتے ہوئے 1.19 ٹریلین کلو واٹ تک پہنچ گئی ہے ، جس میں سال بہ سال اکےس فیصد کا اضافہ ہے۔ دنیا کے تیسرے بڑے دریا یعنی دریائے یانگزی پر چھ کیسکیڈ ہائیڈرو پاور اسٹیشنز نے دنیا میں صاف توانائی کی سب سے بڑی راہداری تشکیل دی ہے۔ 2022 کے اختتام تک چین کی نصب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کوئلے کی بجلی کی نصب صلاحیت سے تجاوز کر گئی ہے ، جو ملک کی مجموعی نصب شدہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا 47.3 فیصدرہی ہے۔ملک میں قابل تجدید توانائی کی سالانہ پیداوار 2.7 ٹریلین کلو واٹ رہی ۔اسلئے ضروری ہے کہ ہر مےدان میں چےن کی ترقی سے استفادے کےلئے اس کے ساتھ مفاہمتی ےاداشتوں پر دستخط کےے جائےں تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کےا جا سکے۔