یونان کے سمندر میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے نتیجے میں سےنکڑوں افراد ڈوب گئے۔ یونان کے سمندر میں تارکین وطن کی کشتی گنجائش سے زیادہ افراد کے سوار ہونے کے باعث تیز ہواﺅں کے تھپیڑوں اور بلند لہروں کا مقابلہ نہ کرسکی۔ کشتی کا توازن بگڑا اور وہ الٹ گئی۔کشتی میں تقرےبا چار سو سے سات سو افراد سوار تھے جن میں سے بیشر پانی میں ڈوب گئے تھے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی فوجی طیارے، ہیلی کاپٹر اور چھے کشتیوں کے ساتھ ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔ریسکیو اہلکاروں نے 104 افراد کو سمندر سے بحفاظت نکال لیا ‘ریسکیو کیے جانے والوں میں سے اےک درجن کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسپتال منتقل کردیا گیا ۔ترجمان کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ حادثہ بحیرہ آیونی میں پیش آیا تھا۔ کشتی میں سوار کسی بھی شخص نے لائف جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ حادثے کی شکار کشتی کے تارکین وطن کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ تارکین وطن لیبیا سے اٹلی جا رہے تھے۔یونان کے صدر اور وزیر اعظم نے کشتی حادثے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ صدر نے زخمیوں کی اسپتال جاکر عیادت کی اور ان کے بہترین معالجے کی ہدایت کی۔ےونان کشتی حادثے میں صرف گجرات سے لاپتا ہوئے نوجوانوں کی تعداد پچاس کے قریب ہے جب کہ کوٹلی آزاد کشمیر اور پنجاب کے دیگر اضلاع کی تعداد علیحدہ ہے ۔کشتی میں آزاد کشمیر کوٹلی سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع کے نوجوان سوار تھے، درجنوں افراد کوٹلی سے لاپتا ہیں اور اب گجرات سے بھی کشتی حادثے میں لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے کا سخت نوٹس لیتے واقعے کی تحقیقات کے لیے چاررکنی اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دینے اور یوم سوگ منانے کا اعلان کیا۔نیشنل پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کمیٹی کے چئیرمین مقرر کیے گئے ہیں، جبکہ وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری افریقہ جاوید احمد عمرانی کو کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا ہے، اسی طرح آزاد جموں و کشمیر پونچھ ریجن کے ڈی آئی جی سردار ظہیر احمد اور وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری ایف آئی اے فیصل نصیر بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔کمیٹی یونان میں کشتی ڈوبنے کے تمام حقائق جمع کرے گی اور انسانی اسمگلنگ کے پہلو کی تحقیق ہوگی اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا، عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے تعاون اور اشتراک کے عمل کی تجاویز دی جائیں گی۔ایسے واقعات کا سبب بننے والے افراد، کمپنیوں اور ایجنٹوں کو سخت ترین سزائیں دینے کے لیے قانون سازی ہوگی۔ کمیٹی ایک ہفتے میں رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی اور کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ وزیر اعظم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرنے والے انسانی اسمگلروں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی ہے۔انہوں نے انسانی اسمگلنگ جیسے گھناﺅنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈاﺅن اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کی ہدایت کی۔دفتر خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ لوگوں کی تلاش جاری ہے، اب تک زندہ بچ جانے والوں کی تعداد 104 ہے، جس میں بارہ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ برطانوی اخبار دی گارجین کی رپورٹ میں زندہ بچ جانے والوں کی لیک ہونے والی شہادتوں کا حوالہ دیا گیا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستانیوں کو زبردستی کشتی کے نیچے والے ڈیک میں بھیجا گیا جبکہ دیگر قومیتوں کو اوپر والے ڈیک پر جانے کی اجازت دی گئی جہاں ان کے گرنے سے بچنے کا بہت زیادہ امکان تھا۔رپورٹ میں مقامی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کم از کم 298 پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 135 کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا۔چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے یونان کے ساحل پر حالیہ کشتی حادثے میں 300 سے زائد پاکستانیوں کی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انسانی سمگلنگ کا دھندہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے اور آئے روز سانحات میں لوگوں کی ہلاکت کی خبرےں منظر عام پر آتی ہےں۔انسانی سمگلر اپنے متاثرین کو بھرتی کرنے کے لیے بہت سے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں، جس میں طاقت اور نفسیاتی ہیرا پھیری دونوں شامل ہیں۔ مجرم جسمانی طاقت، دھمکیوں یا نفسیاتی دباﺅ کے ذریعے اپنا شکار حاصل کرتے ہیں۔ انسانوں کو ٹریفک کے لیے استعمال کیے جانے والے کچھ طریقوں میں فریب کی شکلیں شامل ہیں جن میں لالچ ‘نوکریوں کے جھوٹے اشتہار‘تعلیمی یا سفری مواقع کے بارے میں جھوٹ‘اغوا‘خاندان کے ذریعہ فروخت کےے جانے والے‘بہتر مستقبل کی خواہش شامل ہےں۔غربت و افلاس، وسائل کی کمی اور حکومت کی جانب سے موثر کارروائی کرنے میں ناکامی ایسی چند وجوہات ہیں جن کے باعث پاکستان میں انسانی تجارت کا کاروبار عروج پر ہے۔ کم سن لڑکیوں اور خواتین کے انسانی سمگلنگ کے شکار ہونے کی شرح میں ہر سال اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔اغوا کار گروہوں کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں بسنے والے غریب اور پسماندہ طبقات بن رہے ہیں۔ یہ منظم گروہوں کی شکل میں کام کرتے ہیں جو بچیوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور جسم فروشی جیسے گھناﺅنے کاموں کے لیے انہیں آگے فروخت کر دیتے ہیں۔ جبری شادیوں، جنسی زیادتی اور جسمانی تشدد کے ذریعے خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔گلوبل انویسٹی گیٹو جرنلزم نیٹ ورک کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بچوں اور عورتوں کی سمگلنگ سے متعلق مقدمات کی تعداد بےس ہزار سے زیادہ ہے۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی پاکستان کے مطابق سب سے زیادہ سمگلر صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں سرگرم ہیں۔پاکستان میں ہر گزرتے سال کے ساتھ انسانی سمگلنگ کے کیسز کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے حوالے سے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی گذشتہ برس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا سب سے بڑا مسئلہ جبری مزدوری ہے جس میں سمگلر ملازمت کی سخت شرائط طے کرتے ہیں اور ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر پورے پورے خاندانوں کو اور بعض اوقات ان کی کئی نسلوں کو جبری مشقت میں پھنسا کے رکھا جاتا ہے۔ سمگلنگ کے اس چکر میں مقامی بااثر لوگ مردوں، عورتوں اور بچوں کو زراعت، اینٹوں کے بھٹوں، ماہی گیری، کان کنی اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بھی قرضوں کی ادائیگی کے عوض جبری طور پر کام کرواتے ہیں۔ پاکستان انسانی سمگلنگ کے لیے ایک ذریعے، ہموار راستے اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔پاکستان میں انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے صوبائی اور وفاقی اہلکاروں پر مشتمل یونٹ یعنی سپیشل ٹاسک فورس قائم ہے۔ اگرچہ اس یونٹ کا اپنا ایک بجٹ مختص ہے لیکن اس کی استعداد اور اس کی تربیت کا معیار غیر واضح ہے۔ اس کا قیام بھی اس لیے عمل میں آیا ہے کہ ایف آئی اے بنیادی طور پر بین الاقوامی سمگلنگ کے حوالے سے فکرمند ہے ۔سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے یونان میں مبینہ طورپرکشتی کے حادثہ میں جاں بحق افراد کے واقعہ کواندوہناک قراردیتے ہوئے انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے عبدالاکبرچترالی نے نکتہ اعتراض پرکہاکہ یونان میں کشتی کے حادثہ میں مبینہ طورپر سینکڑوں پاکستانی جاں بحق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ انسانی سمگلنگ کے تدارک کیلئے اب تک کیا گیاہے، اس واقعہ کا نوٹس لیا جائے۔سپیکر نے کہاکہ یہ اندوہناک واقعہ ہے، انسانی سمگلنگ بھیانک جرم ہے، میں چاہوں گا کہ حکومت نوٹس لے اورمکروہ دھندہ میں ملوث عناصر کے خلاف بھرپورکارروائی کرے۔ہم سمجھتے ہےں کہ انسانی سمگلنگ کے مختلف پہلوﺅں سے متعلق کوائف اکٹھے کرنے، انہیں مرتب کرنے اور رپورٹ کرنے کا ایک موثر نظام ترجیحی بنیادوں پر وضع کیا جانا چاہئے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سمگلنگ کی نشاندہی کرنے اور اطلاع دینے کی صلاحیت کو بھی مضبوط بنایا جانا چاہئیے۔حکومت انسداد سمگلنگ کے قوانین کو لاگو کرنے کے لیے مناسب وسائل مختص کرے۔متعلقہ فریقین کے مابین بہتر ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔اےسے واقعات کا سب سے بڑا محرک غربت ہے لیکن انسانی سمگلنگ روکنے کے قوانین پر بھی مناسب انداز میں عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اس دھندے میں ملوث افراد کو عبرت کا نشان بنا کرکےفر کردار تک پہنچائے تاکہ اےسے المناک واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
