وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جیو پولیٹکس ہورہی ہے، پاکستان کو اس سطح پر لایا جارہا ہے کہ ہم سری لنکا بنیں، ڈیفالٹ کریں اور پھر مذاکرات کریں لیکن ہم سری لنکا نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف ہو یا نہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کی ہربات نہیں مان سکتے، پاکستان خود مختار ملک ہے ہمیں ملکی مفادات کو دیکھنا ہے، آئی ایم ایف کے کہنے پر نوجوانوں کو آئی ٹی میں رعایت دینے پر پابندی عائد نہیں کرسکتے، اگر آئی ٹی میں روزگار نہ بڑھائیں گے تو کیا 0.29 فیصد شرح نمو پر رہیں؟اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ٹی کی ترقی سے نوجوانوں کو روزگار دینا چاہتے ہیں، اس سال آئی ٹی برآمدات 2.5 ارب ڈالر رہیں گی، آئندہ سال آئی ٹی کی برآمدات 4.5 ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں، آئی ٹی کی برآمدات کو اگلے پانچ سال میں پندرہ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے ہم کسی شعبے میں بالکل ٹیکس استثنی نہ دیں، بطور خودمختار ملک ہمیں اتنا حق تو ہونا چاہیے کہ کچھ ٹیکس چھوٹ دیں، ہمیں پتا ہے کہاں سے کتنا ٹیکس اکٹھا کرنا ہے، 7200 ارب سے ٹیکس ہدف بڑھاکر 9200 ارب روپے رکھا ہے، یہ ہدف ٹیکس چھوٹ کے علاوہ ہے، ٹیکس چھوٹ والے شعبوں سے کوئی بجٹ نہیں آ رہا، آئی ایم ایف کو اس پر اعتماد میں لیں گے۔ اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم کی گئیں وہ ناقابل برداشت ہیں، اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم کی ہیں لیکن ابھی مکمل نہیں ہوئی ان کا کہنا تھا اسٹیٹ بینک پاکستان کا بینک ہے کسی عالمی ادارے کا نہیں ہے، اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ایسی ترامیم ہوئیں جو ریاست کے اندر ریاست کوظاہر کرتی ہیں، یہ ترامیم اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ کی طرف لے گئیں۔ آج اخبارات میں چھپا ہے کہ آئم ایف نے بجٹ میں دی گئی چھوٹ پر اعتراض کیا ہے، ہم نے ان شعبوں کو سہولیات دی ہیں جو گروتھ کا باعث بنتے ہیں، گروتھ ہوگی تو معیشت کا پہیہ چلے گا، ہمیں ایک خودمختار ملک ہونے کے ناتے اتنی اپنی مرضی کرنے کی اجازت تو ہونی چاہیے، ہم بطور ملک بہت آہستہ چل رہے ہیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ فری لانسر کیلئے ایک صفحہ کی ٹیکس ریٹرن متعارف کروائی گئی ، اس کے علاوہ فری لانسر کو بہت سی سہولیات دی گئی ہیں۔ہمیں بیرونی اخراجات اپنی چادر کے اندر رہ کر کرنے چاہئیں ، بیرونی اکاﺅنٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے اخراجات کرتے تو ستر ارب سے بڑھ کر ایک سو ارب ڈالر تک نہ جاتے، میں کئی سال سے مالی ڈسپلن کی بات کررہا ہوں، لیکیوڈیٹی کرنچ ہماری پرابلم ہے اس کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اب ایم ڈی آئی ایم ایف نے ایک دو ہفتے پہلے بیان دید یا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہورہا۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ہم نے کرنسی کی اسمگلنگ کو ہر صورت روکنا ہے، اس کیلئے کریک ڈاﺅن کرنا ہے، صرف کسٹمز یہ اسمگلنگ نہیں روک سکتا، اسکی اسمگلنگ روکنے کیلئے تمام ایجنسیوں کو مل کر کوشش کرنا ہے۔آئی ایم ایف جس انداز سے پاکستان کو خطرناک شکنجے میں کس رہا ہے اس سے پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے بارے میں خدشات پیدا ہو چکے ہیں- مالیاتی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ آئی ایم ایف آخر کار پاکستان کو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ پاکستان ایک غریب پسماندہ ملک ہے اور قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے تو وہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی سیکیورٹی پر اربوں روپے خرچ کیوں کر رہا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ آئی ایم ایف یہ دباو بھی ڈال سکتا ہے کہ پاکستان کی فوج کے سائز کو کم کیا جائے-ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی مضبوط فوج انڈیا اسرائیل امریکہ کو کھٹکتی ہے۔ماضی میں بھی پاک فوج کو کمزور کرنے کی سازش ہوتی رہی ہے آئندہ بھی یہ سازش جاری رہے گی۔اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ ایک ہی طریقے سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان معاشی طور پر اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو جائے۔آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ لینے کی بجائے اپنے اخراجات میں واضح کمی کرے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ماحول سازگار بنائے زراعت اور صنعت کی پیداوار میں اضافے کیلئے گھریلو صنعتوں کا جال بچھایا جائے‘پاکستان ایسی اشیاتیار کرے جو برآمد کی جا سکیں۔بھارت نے 1991 میں آئی ایم ایف سے صرف ایک بار قرضہ لیا تھا پھر اس کے بعد بھارت کو قرضہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی قرضہ لینا کوئی بری بات نہیں ہے البتہ یہ خطرناک اس وقت بن جاتی ہے جب قرضوں کو ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے کی بجائے قرضوں کی قسط ادا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے اور ان کو سرکاری اہلکاروں اور حکمران اشرافیہ کی عیش و عشرت پر خرچ کردیا جائے1958 میں جنرل ایوب خان نے جو قرض لئے تھے ان کو تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی تعمیر پر خرچ کیا گیا تھا جن سے آج تک پاکستان کو آمدن ہورہی ہے۔پاکستان قرضوں کو ایسے منصوبوں پر خرچ کر رہا ہے جن سے اس کو کوئی آمدن نہیں ہو رہی جب تک پارلیمنٹ منظوری نہ دے کسی حکومت کو بیرونی قرضے لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔یہ پالیسی انتہائی تشویشناک اور افسوسناک ہے کہ بیرونی قرضے امیروں پر خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ ان کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جاتا ہے۔پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔لہذاآئی ایم ایف کی ایسی شرائط تسلیم نہ کی جائیں جو ریاست کی آزادی اور سلامتی کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہوں۔پاکستان جس مسئلے سے گزر رہا ہے اس صورتحال سے نکلنے کا بظاہر واحدراستہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ہے۔ان شرائط پر عمل کرنے سے پاکستان کے گرد ایسا معاشی شکنجہ کس دیا جائے گا جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوکر رہ جائے گی۔ماضی میں پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک نے آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل بھی کیا۔اگر اداروں میں موجود بد انتظامی پر قابو پا لیا جائے تو اب بھی اس گرداب سے نکلا جا سکتا ہے۔اس مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے وفاقی حکومت گو مگو کا شکار ہے۔پاکستان کی تاریخ میں اتنے مشکل معاشی حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے جس طرح کی صورتحال کا سامنا آج کرنا پڑ رہا ہے۔اس معاشی بد حالی کے براہ راست اثرات پاکستان کی سلامتی پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔سیاسی جماعتوں میں بدزبانی کا کلچر عروج پر ہے۔تمام سیاسی جماعتیں خواتین کی کردار کشی پر اتری ہوئی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اب صرف ایک بینک نہیں ہے جو قرضہ دیتا ہے بلکہ اب یہ ایک عالمی مالیاتی اصلاحاتی ادارہ بن چکا ہے جو اپنے رکن ممالک کو قرضہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک پیسے دینے سے قبل آئی ایم ایف سے مشاورت کرتے ہیں۔پاکستانی معیشت کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں، حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، وزرا اور بیوروکریسی کو گاڑیاں اور پلاٹس نہ دیے جائیں، سبسڈیز کم کی جائیں۔وزیر مملکت خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے مطابق اس وقت آئی ایم کے بغیر رہنے کے آپشن پر کام نہیں کررہے ، آئی ایم ایف پاکستان کو جن معاشی اصلاحات کی جانب لے جانا چاہتا ہے وہ ملک کے مفاد میں ہیں اور ہمیں اس طرف ہی بڑھنا چاہیے، ہمیں آئی ایم ایف کا پروگرام چاہیے۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے علاوہ چین، سعودی عرب، یو اے ای اور قطر سے مالی امداد کی بات چیت کر رہا ہے۔سعودی عرب 2019 سے پاکستان میں تیل و گیس کے شعبے 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان اس پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔چین نے پاکستان کو حال ہی میں دو ارب ڈالرز کا قرض رول اوور کیا ہے، چین کے کمرشل بینک نے ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز کا قرضہ موخر کر دیا ہے۔ پاکستان نے چین کا 30 ارب ڈالرز کا قرض ادا کرنا ہے، سعودی عرب نے پاکستان کو دو ارب ڈالرز کے سیف ڈیپازٹ فراہم کرنے کا اشارہ دے دیا ہے، یو اے ای نے پاکستان کا دو ارب ڈالرز کا قرضہ رول اوور کردیا ہے تاہم پاکستان کو ایک ارب ڈالرز کی اضافی امداد کا انتظار ہے۔حکومت نے تارکین وطن پاکستانیوں سے اگلے دو سال میں چوبےس ارب ڈالرز اکٹھے کرنے کی سکیم دی ہے اور وہ اس سکیم کے تحت سٹیٹ بینک کے اکاﺅنٹ میں ڈالرز بھیج سکیں گے، حکومت کو یہ ڈالرز واپس نہیں کرنا ہوں گے، دو سال بعد حکومت ڈالرز کی اضافہ قیمت تارکین وطن کو ادا کر سکے گی۔پاکستان کو تےس جون 2023 تک قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں چار سے ساڑھے چار ارب ڈالرز ادا کرنا ہے، جب کہ آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو پےنتےس ارب ڈالرز درکار ہیں جس میں سے بارہ ارب ڈالرز عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، چین اور مختلف منصوبوں کے لیے میسر آ سکیں گے اور تےرہ ارب ڈالرز کا شارٹ ٹرم قرضہ ہے جسے رول اوور کیا جاسکے گا۔ہمےں ےہ جان لینا چاہیے کہ جب تک ہم اپنی معیشت کو پاﺅں پر کھڑا کرنے کےلئے اقدامات نہےں کریں گے ہمیں اسی طرح کشکول لے کر مختلف دروازوں پر دستک دےنا پڑے گی اب ےہ ان دروازوں پر منحصر ہے کہ وہ کھلتے ہیں یا نہیں۔
