بحیرہ عرب میں موجود انتہائی شدید سمندری طوفان بائپر جوائے مزید شدت اختیار کر گیا ہے اور اس وقت کراچی کے جنوب سے تقریبا 760 کلومیٹر، ٹھٹہ کے جنوب سے 740 کلومیٹر اور اورماڑہ کے جنوب مشرق سے 840 کلومیٹر دور موجود ہے۔ڈائریکٹر محکمہ موسمیات سردار سرفراز کے مطابق امکان ہے کہ یہ سسٹم شمال کی جانب بڑھتا رہے گا، اس کے مرکز کے گرد ہوائیں زیادہ سے زیادہ 140 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں اور لہروں کی اونچائی زیادہ سے زیادہ 30 سے 40 فٹ ہے اور سمندری حالات غیر معمولی ہیں۔ لوگوں کو سمندری طوفان کے پیش نظر ساحل سمندر سے دور رہنے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مقامی حکام کی ہدایات پر عمل کرنے کی اپیل کی ہے۔کمشنر کراچی نے شہریوں کے ساحل سمندر پر جانے، ماہی گیری، کشتی رانی، تیراکی اور نہانے پر آج سے لے کر طوفان کے خاتمے تک کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر پابندی عائد کر رکھی ہے۔دریں اثنا کمشنر کراچی نے طوفان کے ممکنہ خطرے اور محکمہ موسمیات کے انتباہ کے پیشِ نظر شہر میں مختلف مقامات پر نصب بل بورڈز، سائن بورڈز سمیت دیگر اشتہاری مواد اور کمزور درختوں کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔ حکم نامے پر عملدرآمد کے لیے کے ایم سی، کنٹونمنٹ بورڈز اور تمام میونسپل کمشنرز کو خط لکھ دیا گیا ہے۔ طوفان 14 جون کو شمال مشرق کی جانب مڑ کر کیٹی بندر جنوب مشرقی سندھ اور بھارتی گجرات کے ساحل کے درمیان سے گزرے گا۔ پاکستان اور بھارت کے تقریبا 13 لاکھ 80 ہزار افراد کو اس طوفان سے خطرہ ہے۔ یہ سسٹم 72 گھنٹوں تک شمال کی سمت بڑھنے کی پیش گوئی ہے، جس کے بعد اس کے مشرق کی جانب مڑنے کا امکان ہے جبکہ کچھ اثرات مغرب کی جانب منتقل ہونے کا امکان اب بھی موجود ہے۔زوم ارتھ کے لائیو ریڈار کے مطابق اس سسٹم کے متوقع ٹریک میں معمولی تبدیلی نمایاں ہوئی ہیں، گزشتہ روز اس کے پاکستان کے ساحلی شہروں کی جانب بڑھنے کی پیش گوئی تھی، تاہم یہ سمندری طوفان بھارتی ساحلی پٹی کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، تاہم سندھ کی ساحلی پٹی کا بڑا حصہ تاحال اس حوالے سے بے یقینی کا شکار ہے۔اس طوفان کے جنوب مشرقی سندھ کے ساحل تک پہنچنے پر ٹھٹہ، سجاول، بدین، تھرپارکر اور عمرکوٹ اضلاع میں 13 سے 17 جون کے دوران 80 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چلنے اور گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش کا امکان ہے۔ماہی گیروں کو کہا گےا ہے کہ وہ کھلے سمندر میں نہ جائیں جب تک کہ یہ سسٹم 17 جون تک ختم نہ ہو جائے، کیونکہ بحیرہ عرب کی صورتحال مزید شدت اختیار کرسکتی ہے اور ساحل سمندر کے نزدیک اونچی لہریں بھی آسکتی ہیں۔بھارتی محکمہ موسمیات کی ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ بائپرجوائے مشرقی وسطی بحیرہ عرب، پوربندر سے 460 کلومیٹر دور، دوارکا سے 510 کلومیٹر دور اور نالیہ سے 600 کلومیٹر دور موجود ہے۔ یہ سسٹم سوراشٹرا اور کچھ اور اس سے ملحقہ پاکستان کے ساحل سے 15 جون کی دوپہر تک ٹکرا سکتا ہے اور ایک انتہائی شدید درجے کا سائیکلون پیدا ہوسکتا ہے۔ دہلی میں موسم میں اچانک تبدیلی دیکھنے میں آئی اور درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیس سے نیچے گر گیا۔ اِس وقت سمندری طوفان کا رخ کراچی، ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر اور بھارتی گجرات سے ملحقہ ساحلی علاقوں کی طرف ہے۔سائیکلون گرم ہوا کی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور ایک گول دائرے کی شکل میں آگے بڑھتے ہیں۔ ایسے طوفان اپنے ساتھ کافی تیز ہوائیں اور بارش لاتے ہیں جو سمندروں کے گرم پانی کے اوپر جنم لے کر آگے بڑھتے ہوئے شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔جب سمندر کی گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے تو اس کی حدت میں کمی آتی ہے اور یہ بادل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسے زیادہ دباﺅ کا علاقہ کہا جاتا ہے۔جیسے جیسے یہ ہوا بلند ہوتی ہے سمندری سطح کے قریب ہوا میں کمی ہوتی ہے۔ اسے کم دباﺅ کا علاقہ کہتے ہیں۔اس کم دباﺅ والے علاقے کی جانب خلا کو پر کرنے کے لیے اور ہوا حرکت میں آتی ہے جو گرم ہو کر ایک گول دائرے کی صورت میں گھومتی ہے۔ایسے سمندری طوفان جو گھومتے ہیں، ان کا ایک مرکزی نقطہ ضرور ہوتا ہے۔ اسے طوفان کی آنکھ یعنی آئی آف دی سٹورم کہا جاتا ہے جو پرسکون حصہ ہوتا ہے۔یہاں ہوا کا دباﺅ کم ہوتا ہے اور اسی نقطے کے گرد طوفان گھومتا ہے۔پانی کی سطح پر سفر کے دوران سمندری طوفان کی شدت بڑھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طوفان کے اوپر موجود گرم ہوا ایندھن کا کام کرتی ہے۔جیسے جیسے یہ گرم ہوا بلند ہوتی ہے اس کی جگہ متبادل ہوا لے لیتی ہے اور اسی سے طوفان یا سائیکل بنتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کئی سمندری طوفانوں کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔تاہم جب یہ سمندری طوفان زمین کے قریب پہنچتے ہیں تو ان کی شدت میں کمی آتی ہے کیوں کہ وہ گرم پانی پر سفر نہیں کر رہے ہوتے اور اسی لیے ان کا ایندھن کم ہوتا جاتا ہے۔اس کے باوجود یہ طوفان تیز رفتار ہواﺅں اور بارش سے کافی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔تاہم یہ پیشگوئی کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ سمندری طوفان کتنا طاقتور ہو گا اور زمین کے کس حصے سے ٹکرائے گا۔ان کی سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے اور وقت سے پہلے تیاری ان کے اثرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ایسے علاقے جو ساحل کے قریب ہوں، وہاں عمارات کی تعمیر میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ سمندری طوفان سے ان کو زیادہ نقصان نہ ہو۔ایسے ہی ان علاقوں میں سائرن کے ذریعے مقامی افراد کو خبردار کیا جا سکتا ہے۔ چند ممالک میں شہریوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ ضروری سامان پہلے سے ہی خرید کر رکھ لیں جس میں خوراک، پانی اور طبی امداد کا سامان شامل ہوتا ہے۔ گزشتہ سال ان علاقوں میں بارش کی وجہ سے بڑی تباہی پھیل گئی تھی جس میں ایک سو ترپن افراد ہلاک اور آٹھ لاکھ انہتر ہزارافراد متاثر ہوئے تھے جب کہ 44 ہزار کچے مکانات گرگئے تھے جبکہ اور چورانوے ہزار مکانات کو نقصان پہنچا تھا-پانچ سال قبل سندھ کے ساحلی علاقوں کو ایک ایسے ہی طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس میں سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہو گئی تھیں اور بڑے پیمانے پر فصلوں اور املاک کا نقصان ہوا تھا۔بدین اور ٹھٹہ کے لوگ ابھی گزشتہ سال کی تباہی سے بحال نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور آفت آن پڑی ہے۔ساحلی علاقے میں کاشتکاروں، ملاحوں اور دوسرے مکینوں کو نقصان کا احتمال ہے کیونکہ تمام تر حکومتی دعوﺅں کے باوجود نہ پانی کی نکاسی کا انتظام ہے اور نہ ہی لوگوں کو نکالنے کا۔طوفان کی وجہ سے سمندر میں دس سے بارہ فٹ تک اونچی لہریں اٹھیں گی جس کی وجہ سے ماہی گیروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگلے دو دن تک محتاط رہیں۔محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی کے جنوب مشرق میں آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ڈپریشن کی موجودگی سائیکلون کی شکل اختیار کر سکتی ہے جس کا نام شاہین ہوگا۔ماضی میں بھی بحیرہ عرب اور بحرِ ہند میں اس طرح کے طوفان بنتے رہے ہیں اور انہیں باقاعدہ کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا رہا ہے۔ان طوفانوں کے نام بھی عجےب و غرےب رکھے جاتے ہےں سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون کہا جاتا ہے۔اس پینل میں ابتدائی طور پر سات ممالک تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب 13 ہو گئی ہے جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، مالدیپ، سری لنکا، عمان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔2004 سے قبل طوفان کے اس طرح کے ناموں کی کوئی روایت نہیں تھی جس طرح آج ان کے نام رکھے جاتے ہیں۔ ماضی میں سمندری طوفانوں کو ان کے نمبر سے یاد رکھا جاتا تھا۔1999 میں ایک سائیکلون پاکستان کے شہر بدین اور ٹھٹھہ سے ٹکرایا تھا، تب اس کا نام زےرو ٹو اے تھا جو اس سیزن کا بحیرہ عرب کا دوسرا طوفان تھا۔پی ٹی سی کے رکن ممالک کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ ہر ملک باری باری سمندری طوفان کو ایک ایک نام دے گا۔ اس طرح 2004 میں ایک فہرست بنائی گئی جو 2020 تک رہی اور اس میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے گئے ان تمام کو استعمال کیا گیا۔پاکستان نے اس فہرست میں جن طوفانوں کے نام تجویز کیے تھے ان میں فانوس، نرگس، لیلی، نیلم، نیلوفر، وردہ، تتلی اور بلبل شامل ہیں۔2020 میں اس فہرست کا مجوزہ آخری نام ایمفن تھا۔ یہ طوفان خلیجِ بنگال میں بنا تھا اور اس کا رخ بھارت کی جانب تھا بعد ازاں پی ٹی سی کے تمام 13 رکن ملکوں نے گزشتہ برس طوفانوں کے ناموں کی ایک نئی فہرست ترتیب دی تھی۔ طوفانوں کے نام رکھنے کے لیے پی ٹی سی میں شامل رکن ملکوں کے انگریزی حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان ملکوں کی باری آتی ہے۔ مثلا 2020 میں بننے والی نئی فہرست کا سب سے پہلا نام بنگلہ دیش کا تجویز کردہ رکھا گیا جو نسارگا تھا۔بعدازاں بھارت، ایران اور مالدیپ کے ناموں کا نمبر آیا۔ اب میانمار کی باری تھی تو حالیہ طوفان کا نام تاوتے اسی کا تجویز کردہ ہے۔اگر مستقبل میں کوئی طوفان آتا ہے تو عمان کا تجویز کردہ نام یاس رکھا جائے گا جس کے بعد پاکستان کے مجوزہ نام گلاب کا نمبر آئے گا۔پاکستان نے پی ٹی سی کی ترتیب دی گئی فہرست میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے تھے وہ کچھ اس طرح ہیں۔ گلاب، اثنا، صاحب، افشاں، مناحل، شجانہ، پرواز، زناٹا، صرصر، بادبان، سراب، گلنار اور واثق۔
