ڈالر کی ذخیرہ اندوزی

ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا، نئے بجٹ میں فنانس بل کے ذریعے اہم قوانین متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق ڈالر یا کسی دوسری کرنسی کی ذخیرہ اندازی کرنے والے کو سزا ملے گی۔ غیرملکی کرنسی کی ذخیرہ کرنے پر قید اور بھاری جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔ نئے قانون کا اطلاق غیرملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والےاداروں اور افراد پر ہوگا۔ذرائع کے مطابق بیرون ملک سے غیر ملکی کرنسی لانے کی حد بڑھانے کیلئے قوانین متعارف کرائے جارہے ہیں، بیرون ملک سے ایک لاکھ ڈالر تک لانے والوں سے آمدن کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے ایک سال کے دوران ایک لاکھ ڈالرتک ساتھ لاسکیں گے۔اس وقت 50 لاکھ روپے یا اس کے برابر کرنسی ذریعہ آمدن ظاہرکئے بغیر پاکستان لانے کی اجازت ہے۔دوسال قبل سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ملک میں کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی شخص یومیہ دس ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ اور سالانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کی نقد یا ترسیلات زر کی صورت میں خریداری نہ کرے۔مرکزی بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر ایک خاص حد سے زیادہ خریداری پر پابندی اس وقت لگائی گئی جب ملک میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔روپے کی قدر میں یہ کمی موجودگی سال میں مئی کے مہینے میں شروع ہوئی اور اس میں گراوٹ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر پابندی پر ماہرین اسے امریکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے کا اقدام قرار دے رہے تھے۔ان کے مطابق ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے اس کرنسی کی ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے اور افواہ سازی کی بنیاد پر اس کی قدر میں مزید اضافے کے امکان کی وجہ سے سرمایہ کار اس کی خریداری کر کے اس کی ذخیرہ اندوزی کر سکتے ہیں جس کی روک تھام سٹیٹ بینک چا رہا ہے۔ اس اقدام سے ڈالر کی بڑھتی قیمت پر کوئی فوری اثر نہیں پڑے گا جس کے لیے مرکزی بینک کو درآمدات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے جو ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب جاری کیے جانے والے اعلامیے کے مطابق بینک نے ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے افراد کو زرمبادلہ کی فروخت کا نظم و نسق چلانے والے ضوابط میں ترمیم کی جس کے تحت کوئی بھی شخص یومیہ نقد یا بیرونی ترسیلات زر کی شکل میں دس ہزارامریکی ڈالر اور کیلنڈر سال میں اےک لاکھ امریکی ڈالر یا دیگر کرنسیوں میں اس کے مساوی سے زائد کی خریداری نہیں کرے گا۔ خریداری کی یہ حد زرمبادلہ کے لیے فرد کی ذاتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مقرر کی گئی ۔بینک کے مطابق یہ اقدام ڈالر کی خریداری کو دستاویزی اور اس میں شفافیت بڑھانے اور زرمبادلہ کے نظام کو مزید بہتر بنانے کی غرض سے اٹھایا گیا اور یہ اقدام سٹیٹ بینک کی جانب سے کیے گئے دیگر اقدامات کا تسلسل ہے جس کا مقصد عوام کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے متعلق مارکیٹ کی صلاحیت متاثر کیے بغیر ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے سٹے بازی پر مبنی خریداری اور فروخت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ایکسچینج کمپنیاں اےک ہزارامریکی ڈالر یا دیگر کرنسیوں میں مساوی سے زائد کی فروخت پر سپورٹنگ دستاویزات حاصل کریں گی جس سے لین دین کا مقصد کا ظاہر ہو اور یہ کمپنیاں اتھارٹی لیٹرز پرلین دین نہیں کریں گی۔ہدایات میں مزید زور دیا گیا کہ ایکسچینج کمپنیاں صرف کمپنی کی مجاز آوٹ لیٹس پر لین دین انجام دیں گی اور صارفین کو ڈلیوری کی خدمات فراہم نہیں ہوں گی۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سرمایہ کاروں کے لیے ڈالر میں سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش ذریعہ بن چکا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر ڈالر کی دھڑا دھڑ خریداری ہو رہی ہے اور اس کی ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے۔چند ماہ پہلے سعودی عرب نے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروانے اور اسے مخر ادائیگی کی سہولت کے ساتھ ایک سال میں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا تیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ بات فطری ہے کہ جہاں اچھا نفع مل رہا ہو وہاں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اس وقت ڈالر کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔تاہم مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر سٹے بازی کی بات ناقابل فہم ہے کیونکہ کمپنیوں کے پاس اتنی بڑی تعداد میں ڈالر نہیں ہوتے کہ وہاں سے خریداری کر کے امریکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کی جائے۔ کمرشل بینکوں کے پاس ڈالر زیادہ ہوتے ہیں۔ایکسچینج کمپنیاں انفرادی طور پر ڈالر کی خرید و فروخت کرتی ہیں یعنی وہ کسی فرد سے ڈالر خریدتی اور اسے فروخت کرتی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اقدام کا مقصد ایکسچینج کمپنیوں میں ڈالر کی خرید و فروخت کو دستاویزی صورت اور اس میں زیادہ شفافیت لانا تھا۔ اس شعبے میں افواہوں پر کام ہوتا ہے جس کی وجہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کو ڈالر میں سرمایہ کاری زیادہ پرکشش نظر آرہی ہے۔ دنیا میں زمین، سونے اور حصص مارکیٹ میں سرمایہ کاری ہوتی ہے تاہم پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے سرمایہ کار اس میں بھی پیسے لگاتے ہیں تاہم پاکستان میں انفرادی طور پر فاریکس مارکیٹ میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی۔سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر حد مقرر کرنے اور اس کے اثرات پر بات کہا جاتا ہے کہ اس اقدام سے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کا سدباب تو ہوگا تاہم اس سے گرے مارکیٹ کے پھیلاﺅ میں اضافہ ہوگا۔گرے مارکیٹ حوالہ اور ہنڈی کی مارکیٹ ہے کیونکہ جب خریدار ایک حد سے زیادہ ڈالر قانونی چینل سے نہیں خرید پائیں گے تو گرے مارکیٹ کی جانب جائیں گے۔ اس وقت بھی گرے مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں زیادہ ہے۔ اس اقدام سے ڈالر کی افغانستان کو اسمگلنگ کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی جہاں ڈالر کی کمی کی وجہ سے پاکستان سے امریکی کرنسی کی خریداری کی جا رہی ہے۔افغانستان میں طالبان کے آنے سے پہلے دس سے پندرہ لاکھ امریکی ڈالر یومیہ جا رہے تھے تاہم پھر اس میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا جب ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر افغانستان سمگل ہونا شروع ہوگئے تھے۔تاہم سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری کے لیے بائیو میٹرک کی شرط لاگو ہونے کے بعد ڈالر کی سمگلنگ میں کمی دیکھنے میں آئی۔ ڈالر کی خریداری پر حد مقرر کرنے سے اس کی سمگلنگ میں مزید کمی آنے کا امکان ہے۔ ملک میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ پاکستان کا بڑھتا ہوا درآمدی بل ہے جو جاری کھاتوں اور توازن میں عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔ ڈالر کی خریداری پر حد مقرر کرنے سے ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کا سدباب تو ممکن ہے تاہم ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ مکمل طور پر مختلف ہے ۔آئی ایم ایف سے ڈالر نہ آنے کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی پاکستان میں فارن فنڈنگ نہیں ہو رہی جب کہ درآمدات کی وجہ سے ڈالر بہت زیادہ باہر جا رہے ہیں اور یہ صورت حال ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔سٹیٹ بینک کی جانب سے درآمدی اشیا پر کیش مارجن میں اضافے کے ساتھ حکومت کی جانب سے درآمدی چیزوں پر ٹیکس بڑھانے کے لیے منی بجٹ اسی مقصد کے لیے ہیں کہ امپورٹ بل کو کم کر کے ڈالر پر دباﺅ کم کرنا ہے۔ڈالر کی قیمت کا تعین انٹر بینک کا ریٹ ہے جہاں سے امپورٹ کے لیے ادائیگی ہوتی ہے اور اسی پر اوپن مارکیٹ میں بھی ریٹ میں ردو بدل ہوتا ہے۔پاکستان میں غیر ملکی کرنسیوں بشمول ڈالر کی خرید و فروخت کے لیے سٹیٹ بینک کی جانب سے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں تاہم غیر قانونی منی چینجر بھی اس کاروبار سے وابستہ ہیں جو گرے مارکیٹ میں کام کرتے ہیں۔پاکستان میں اس وقت ڈالر مقامی کرنسی کے مقابلے میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ ڈالر کی قیمت میں تاریخی اضافے کی ایک بڑی وجہ ملک کا بڑھتا ہوا درآمدی بل ہے جو تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے میں بے تحاشہ اضافہ کر رہا ہے اور اس کا منفی اثر ملک کے شرح مبادلہ میں روپے پر بہت زیادہ دباﺅ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ افغانستان کی صورتحال بھی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر کو بڑھا رہی ہے۔چمن کے ذریعے افغانستان جانے والے ڈالر کی خریداری کراچی کی مارکیٹ سے کی جاتی ہے اور یہ کراچی کی قانونی مارکیٹ سے نہیں بلکہ گرے مارکیٹ سے کی جاتی ہے۔ کوئٹہ میں ڈالر کی کوئی خاص مارکیٹ نہیں ہے اور وہاں صرف سیزن کے لحاظ سے غیر ملکی کرنسی کی تجارت ہوتی ہے جیسا کہ حج اور عمرے کے لیے غیر ملکی کرنسی کی ضرورت پڑتی ہے تو اس وقت کچھ سرگرمی نظر آتی ہے۔کوئٹہ اور چمن سے افغانستان جانے والے ڈالروں کی تعداد پشاور سے افغانستان جانے والے ڈالروں میں مقابلے میں بہت کم ہے۔پشاور سے افغانستان جانے والے ڈالروں کی زیادہ خریداری پنجاب کی مارکیٹ سے کی جاتی ہے اور اس کا مرکز راولپنڈی ہے جہاں سے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں پشاور باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ڈالروں کی افغانستان سمگلنگ اتنا مشکل کام نہیں کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان لوگوں کی آمدورفت بہت زیادہ ہے اور یہ کام باآسانی کیا جا سکتا ہے۔