پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینئر رہنما جہانگیر خان ترین نے نئی سیاسی
جماعت استحکام پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔استحکام پاکستان کے نام سے نئی
سیاسی جماعت کا اعلان کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر علیم خان نے کہا کہ نومئی
کے واقعات کے بعد ہم نے نئی جماعت کے قیام کا فیصلہ کیا۔لاہور میں پریس
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین نے اپنے بڑے پن کے
ذریعے ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جہانگیر
ترین کی سیاسی بصیرت سے ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں۔اس موقع پر
جہانگیر ترین نے کہا کہ آج ہم نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان کی بنیاد
رکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، ہمیں
نئی جماعت بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ سیاست میں آنے سے لے کر اب
تک میرا مقصد ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا رہا ہے۔اپنے سیاسی سفر میں
مجھے کئی لوگوں سے ملنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، میں نے ان کے
تجربے اور سیاسی بصیرت سے بہت کچھ سیکھا، میں کوئی روایتی سیاستدان نہیں
ہوں، میں سیاست میں ایک مقصد کے ساتھ آیا اور اسی جذبے کے تحت پی ٹی آئی
میں شامل ہوا۔جہانگیر ترین نے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ ہم پی ٹی آئی کے
پلیٹ فارم سے وہ اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جن کی پاکستان کو
ضرورت تھی اور ہے، اس لیے ہم نے پی ٹی آئی کو ایک مضبوط سیاسی قوت بنانے کے
لیے دن رات محنت کی، 2013 کے بعد ہم نے پارٹی کے اندر ایک نیا جوش و جذبہ
پیدا کیا، یہاں پر بیٹھے سب لوگ اس جدوجہد کا حصہ ہیں۔ آنے والے دنوں میں
کچھ ایسی چیزیں آپ کے سامنے آئیں گی جن سے آپ کو علم ہوگا کہ ہم نے پارٹی
کو مضبوط کرنے کے لیے کس حد تک محنت کی، ہم نے یقینی بنایا کہ جب بھی
الیکشن ہوں تو پی ٹی آئی اسے جیتے بلکہ اس پوزیشن میں ہو کہ ملک میں
اصلاحات نافذ کرسکے۔پاکستان میں اصلاحات لانا ہمارا ایک بنیادی اصول ہے،
اسی وجہ سے ہم سب لوگوں نے جدوجہد کی، بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا، معاملات
ویسے نہ چل سکے جیسا ہم چاہتے تھے، لوگ بد دل ہونا شروع ہوگئے، مایوسی پھیل
گئی۔ قوم کے کام ےہ آوازےں سن سن کر پک گئے ہےں کہ ملک نازک صورتحال سے
گزر رہا ہے لےکن بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود ےہ نازک صورتحال ہمےشہ قائم
رہتی ہے۔پاکستان میں نئی سےاسی جماعتےں بنی ہےں‘بگڑتی ہےں‘ ٹوٹ پھوٹ کا
شکار ہوتی ہےں ‘تقسےم کی جاتی ہےں ےوں اےک کے بعد دوسری سےاسی جماعت وجود
میں آتی ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس اب تک رجسٹرڈ جماعتوں کی مجموعی
تعدادسےنکڑوں میں ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ جماعتیں بھی بہت ہےں ۔ جماعتےں اتنی
ہےں کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشانات کم پڑ گئے ہیں۔ درجنوں نام تو
ایسے ہیں جن کے بارے میں شاید ہی کبھی کسی نے کچھ سنا ہو۔ لیکن کچھ نام
ہرگز بھی دلچسپی سے خالی نہیں مجموعی طور پر دیکھیں تو ملک میں سب سے زیادہ
تعداد دینی و مذہبی جماعتوں کی ہے۔ ان کی تعداد چالےس سے زائد ہے ۔ کچھ
پارٹیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے کچھ انتہائی مشہور غیر ملکی پارٹیوں سے
متاثر ہو کر اپنی جماعت کا نام بھی ان سے ملتا جلتا رکھ لیا ہے ۔چالیس دینی
و مذہبی اور ڈیڑھ سو سے زائد غیر معروف جماعتوں کے مقابلے میں قومی سطح کی
مقبول جماعتوں کی تعداد پندرہ ہے جو نہایت قلیل نظر آتی ہے۔صوبائی و
علاقائی سطح تک محدود رہنے والی اور قوم پرست جماعتےں بھی موجود ہےں‘نسلی و
لسانی جماعتیں بھی ہےں ۔پاکستان کی متعدد جماعتیں ایسی بھی ہیں جن کے ایک،
دو نہیں بلکہ کئی کئی دھڑے ہیں۔ مثلا جمعیت علمائے پاکستان جس کے تین دھڑے
ہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے دو ،جبکہ پاکستان مسلم لیگ کے سب سے زیادہ
چھے دھڑے ہیں۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے بھی کئی دھڑے ہیں۔ قیامِ
پاکستان کے بعد خود ملک بنانے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ کو تقسیم کا سامنا
کرنا پڑا۔ماضی میں بائیں بازو کے نظریات کی حامل نیشنل عوامی پارٹی ولی
خان گروپ اور بھاشانی گروپ میں تقسیم ہوئی اور دونوں ہی کا دعوی تھا کہ وہ
حقیقی جماعت ہیں۔اگر اسٹیبلشمنٹ کے دباو کے تحت سیاسی پارٹی چھوڑنے کی
نمایاں مثال دی جائے تو 1977 کے مارشل لا کے بعد پیپلز پارٹی کو اس کا
سامنا کرنا پڑا۔ مارشل لاکے بعد مصطفی کھر، ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ ملک
سے باہر چلے گئے لیکن پارٹی کے بارے میں خاموش رہے۔ اسی طرح پاکستان میں
کوثر نیازی اور کمال اظفر نے بھی پارٹی سے راہیں جدا کیں۔بعض رہنماﺅں پر
دباو تھا تو بعض کو لالچ بھی دیا گیا۔ غلام مصطفی جتوئی کو وزارتِ عظمی کی
پیش کش ہوئی لیکن بیگم نصرت بھٹو نے انہیں روک دیا۔ 1983 میں جتوئی صاحب نے
بھی پیپلز پارٹی چھوڑ دی۔ حالیہ تاریخ میں 1990 کی دہائی میں ایم کیو ایم
کے خلاف ہونے والے آپریشن اور 2013 کے بعد سیاسی پارٹیوں میں ہونے والی ٹوٹ
پھوٹ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔سیاسی جماعتیں چھوڑنا پاکستانی سیاست میں
معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام بات ہے کہ ایک امیدوار کبھی کسی
پارٹی کے ٹکٹ سے میدان میں اترتا ہے اور اگلے انتخاب میں کسی اور سیاسی
جماعت کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کا کمزور
ڈھانچا ہے جس کی وجہ سے بڑی قومی سیاسی جماعتوں کو بھی مقامی اشرافیہ کے
گروپس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔پہلی پی ٹی آئی میں لوگ تےزی سے شامل ہو رہے
تھے اب تےزی سے الگ ہو رہے ہےں ۔نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو
رد عمل سامنے آیا وہ جارحانہ تھا جس کا آغاز اسی دن سے نہیں ہوا تھا پہلے
سے تھا۔جب 22 اگست 2016 کو الطاف حسین نے ریاست کو چیلنج کیا تو اس کے بعد
وہی لوگ جو صبح تک ان کے ساتھ تھے شام کے بعد اپنی پارٹی کے قائد سے
لاتعلقی کا اظہار کرنے لگے۔ماضی میں بہت کچھ ہوتا رہا لیکن ایسا نہیں ہوا
کہ سیاسی احتجاج کرنے والے دفاعی تنصیبات پر چڑھ دوڑے ہوں۔ اس لیے تحریکِ
انصاف چھوڑنے والے سبھی افراد کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا۔ پی ٹی
آئی چھوڑنے والوں کے اس فیصلے کی اپنی اپنی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ کئی کو
درحقیقت دباﺅ کا سامنا ہے اور کئی ایسے بھی ہیں جنہیں نو مئی کے واقعات سے
واقعی شدید دھچکا پہنچا اور اب وہ پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی مزید برقرار
نہیں رکھنا چاہتے۔پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتیں کمزور رہی
ہیں لیکن اس کی ذمے داری خود سیاسی قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے کیوں کہ
سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوری رویے نہیں ہیں۔ اسی لیے جب فردِ واحد کے
منشا پر فیصلے ہوتے ہیں تو اسی فرد کی غلطیوں کی وجہ سے لوگ اپنے راستے بھی
الگ کرلیتے ہیں اور پارٹیاں بھی کمزور ہوجاتی ہیں۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل
ہونے اور کمزور سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ملک میں جمہوری عمل متاثر ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتیں جب تک نچلی سطح پر اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط نہیں کریں
گی اور بااثر افراد پر انحصار کرتی رہیں گی تو وہ کبھی مضبوط نہیں ہوں
گی۔پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ بھی کوئی مضبوط سیاسی جماعت نہیں تھی
بلکہ وہ ایک سیاسی پلیٹ فارم تھا اس کے پاس کوئی نظریہ نہیں تھا۔ نظریاتی
جماعتیں بھی تقسیم کا شکار ہوئیں۔ نیپ اور پیپلز پارٹی نظریاتی جماعتیں
تھیں لیکن انہیں بھی اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ملک میں آئین کی
بالادستی ہو تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں۔ جس میں دم خم
ہوتاہے وہ باقی رہ جاتا ہے لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی عمل کو
جاری رہنے دیا جائے۔ داخلی سیاست میں بیرونی مداخلت کے الزامات کا تعلق
عالمی سیاسی صورتِ حال سے بھی رہا ہے۔اب جو رہنما پارٹی چھوڑ کر جارہے ہیں
وہ سیاست سے لاتعلقی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ وہ مستقبل میں اس فیصلے میں
قائم رہتے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن جماعت چھوڑنے پر
اس طرح سیاست سے لاتعلقی کا رجحان ماضی سے قدرے مختلف ہے۔ تحریکِ انصاف سے
علیحدگی کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوتا نظر آرہا ہے لیکن فی
الوقت ان رخصت ہونے والوں کا کوئی اور استقبال کرتا نظر نہیں آتا۔ اس بار
یہ بات بھی مختلف ہے کہ جس جماعت کے لوگ جارہے ہیں وہ خاموش نہیں بیٹھ رہی
ہے۔جب ایک سیاسی جماعت کا لیڈر طاقتور حلقوں سے ڈیل کر کے اقتدار میں آتا
ہے تو اسے اپنی پارٹی گراس روٹ لیول پر منظم کرنے کی ضرورت نہےں ہوتی
۔ہمارا سیاسی نظام ووٹ کی طاقت سے نہیں چلتا اس کو کچھ اور لوگ چلاتے
ہیں۔اگر یہاں انتخابات منصفانہ ہوں تو سیاسی جماعتیں اپنی پارٹی کی تنظیم
نو کرنے اور مشاورت سے پارٹی فیصلے کرنے کی طرف آ سکتی ہیں، ملک میں
جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے بھی زیادہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں
کے کندھوں پر ہے وہ سےاست کو سےاست سمجھ کر کرےں تو ملک میں جمہوریت جڑےں
مضبوط ہو سکتی ہےں ۔