آئندہ مالی سال 2023‘24 کے وفاقی بجٹ کے ابتدائی خدوخال سامنے آگئے ہےں جس
کے تحت وفاقی بجٹ کا حجم چودہ ہزارچھے سو ارب روپے متوقع ہے۔ مالیاتی خسارے
کا ہدف چھے ہزار ارب روپے ہے جبکہ جی ڈی پی کے لحاظ سے وفاقی مالیاتی
خسارے کا ہدف 7.7 فیصد مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم وفاق اور صوبے کا
مالیاتی خسارے کا ہدف 7.1 فیصد متوقع ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے
430 ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے۔دفاعی بجٹ کا حجم 1809ارب روپے کے
لگ بھگ متوقع ہے۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9.2 ٹریلین روپے اور نان ٹیکس
ریونیو کا ہدف دو ہزار 800 ارب روپے متوقع ہے۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے
کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں عوامی ریلیف کیلئے اقدامات یقینی بنا رہے
ہیں،ملکی معیشت کو مشکل حالات سے استحکام کی طرف لیکر آئے،تیل کی قیمتوں
میں کمی کے اثرات کو عام آدمی تک پہنچانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔وزیر
مملکت نے وزیرِ اعظم کو آئندہ بجٹ پر پیش رفت، عوامی ریلیف اور ملکی مجموعی
اقتصادی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا۔وزیرا عظم نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں
عوامی ریلیف کیلئے اقدامات یقینی بنا رہے ہیں،ملکی معیشت کو مشکل حالات سے
استحکام کی طرف لے کر آئے، مشکلات کے باوجود معاشی ٹیم نے معیشت کے استحکام
کیلئے محنت جاری رکھی جو لائقِ تحسین ہے،ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب
میں متاثرین کو مالی مدد و بحالی کی مد میں بڑا ریلیف پیکیج دیا۔معاشی
چیلنجز کے باوجود غریب اور متوسط طبقے کے لیے وزیراعظم نے خصوصی اقدامات
کرتے ہوئے موجودہ وسائل کو بہترین انداز میں بروئے کار لا کر عوامی ریلیف
دینے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کسانوں کو کھاد پر براہ راست
سبسڈی پہنچانے کا دو ٹوک فیصلہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ سبسڈی براہ راست
کسانوں تک پہنچانے کے لیے جامع پلان پیش کیا جائے، مستحق کسانوں کے ٹیوب
ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے میں معاونت کریں گے۔وزیراعظم شہباز
شریف کا کہنا تھا عالمی منڈی میں قیمتیں نیچے آتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں فوری کمی کی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات کو
عام آدمی تک پہنچایا جائے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ کار بڑھا کر
مستحق لوگوں کی شمولیت یقینی بنائی جائے، یقینی بنایا جائے کہ کوئی مستحق
بیوہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا سے باہر نہ رہے۔مستحق طلبا و
طالبات کو وظائف سے اعلی تعلیم اور پیشہ ورانہ ہنر سے آراستہ کیا جائے گا،
حکومت اس مقصد کے لیے پاکستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ کا قیام یقینی بنا رہی
ہے۔ان کا کہنا تھا ملک کے نوجوانوں کو تعلیم، ہنر، لیپ ٹاپس اور روزگار کے
مواقع دیتے رہیں گے، حکومت نوجوانوں کو بین الاقوامی معیار و عصری تقاضوں
کے مطابق ہنر فراہم کرے گی، نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرض سے کاروبار میں
سہولت دی جائے گی اور نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبے میں سہولیات دےکر ملکی
آئی ٹی برآمدات بڑھائی جائیں گی۔شہباز شریف کا کہنا تھا گزشتہ حکومت کے چار
سالہ سیاہ دور میں نوجوانوں میں نفرت و انتشار کے جذبات بھڑکائے گئے،
چھوٹے کاروبار اور چھوٹے پیمانے کی صنعت کی ترقی کے لیے تمام سہولیات دی
جائیں۔ہم جانتے ہےں کہ پاکستان میں مئی میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ اڑتےس
فیصد تک جا پہنچی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ مہینوں میں
اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت 09جون کو پیش ہونے والا بجٹ آئی ایم ایف کی
فنڈنگ کے بغیر پیش کرنے جا رہی ہے۔یہ پاکستان میں الیکشن کا سال ہے اور
اگست کے مہینے میں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو جائے گی جس کے بعد عبوری
حکومت اس کی جگہ لے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عموما الیکشن کے سال میں
حکومتیں ریلیف بجٹ پیش کرتی ہیں جوعوام دوست تو ہوتا ہے لیکن اس کے باعث
حکومتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ
کوشش کریں گے کہ عوام پر بوجھ نہ پڑے یہ ایک عوام دوست بجٹ ہو گا۔ جبکہ
وزیرِ مملکت برائے خزانہ ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا نے قومی اسمبلی کی قائمہ
کمیٹی برائے خزانہ میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں مہنگائی
کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے، اس میں خسارے اور مہنگائی کا توازن قائم
کرنا ہو گا۔ آئندہ بجٹ ٹیکس فری نہیں دے سکتے۔انہوں نے مہنگائی پر قابو
پانے اور بجٹ خسارے اور مہنگائی کا توازن برقرار رکھنے کو آئندہ بجٹ کا سب
سے بڑا چیلنج قرار دیا۔ پاکستان کو اگلے مالی سال میں بیرونی قرضوں کی مد
میں پچےس ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام
میں داخل ہوئے بغیر ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ موجودہ صورتحال بہت زیادہ
سنگین ہے، حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے نویں اور دسویں قرض پروگرام کا حصہ
بننا بھی ضروری ہے اور اس وقت مہنگائی کی یہ صورتحال ہے کہ یہ تاریخ کی
بلند ترین سطح پر ہے تو اس میں عوام بھی ریلیف کے منتظر ہیں۔ایسے میں بظاہر
تو حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترنے اور عوام کے لیے
ریلیف بجٹ پیش کرنے کے درمیان خاصا مشکل فیصلہ درپیش ہو سکتا ہے تاہم
ماہرین کے مطابق حکومت اسے اپنی مرضی کا بجٹ بنانے کے موقع کے طور پر دیکھ
سکتی ہے۔ آئی ایم ایف ہمیشہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ آپ کا بجٹ حقیقت کے قریب
ہونا چاہیے تاکہ اہداف پورے کیے جا سکیں لیکن عومما الیکشن کے سال میں
حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ کس قسم
کا بجٹ بناتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا بیان بظاہر یہ اشارہ ضرور دیتا ہے کہ
پروگرام بحال ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی ایسا ہونا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے
لیکن ایک ریلیف بجٹ دینے سے پاکستان کی عالمی معاشی اداروں کی ریٹنگز نیچے
جا سکتی ہیں اور دوست ممالک کا اعتبار بھی پاکستان پر کم ہو سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ اس کی پیداواری صلاحیت کا کم ہونا ہے۔ یعنی
آپ کی معیشت وہ اشیا پیدا نہیں کرتی جن کی طلب باقی دنیا کو ہے تو آپ کی
برآمدات بہت کم ہیں اور معیشت کے اندر روزگار کے مواقع بھی کم ہیں۔اس وجہ
سے معیشت کو مالی خسارہ، ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی رقوم میں کمی،
بیروزگاری، قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات اور روپے کی قدر گرنے جیسی مشکلات
درپیش ہیں اور یہ اس بنیادی مسئلے کا حل نکالے بغیر ہر بجٹ میں سامنے آتی
رہیں گی۔عوام دوست بجٹ سے عام طور پر مراد یہ ہوتی ہے کہ سرکاری ملازمین کی
تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، سبسڈیز دی جائیں اور ڈےولپمینٹ بجٹ کے حجم
میں اضافہ کیا جائے۔حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہوتے ہوئے مالی
خسارہ کم سے کم رکھنا ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ میں اضافے یا جن
شعبوں کو سبسڈی دے کر معیشت کی شرح نمو بڑھائی جا سکتی ہے یا چند سیکٹرز کو
ریلیف دیا جاتا ہے وہ نہیں دےا جا سکتا۔موجودہ 38 فیصد مہنگائی میں یہ
ممکن ہے کہ حکومت کی جانب سے تنخواہوں میں 15 سے 20 فیصد اضافہ کیا
جائے۔پاکستان میں اوسط آمدنی میں ایک سال کے دوران 198 ڈالر کی کمی کے ساتھ
تمام ہی شعبوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے جس سے مجموعی قومی پیداوار یعنی
جی ڈی پی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔جب بھی آمدن گھٹتی ہے اور اخراجات کی
رفتار وہی رہے تو ظاہر ہے اس کا اثرکے رہنے سہنے کے انداز پر بھی پڑتا ہے۔
فی کس یا اوسط آمدنی کم ہونے کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانیوں کا
معیار زندگی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہا ہے۔ معیار زندگی کم ہونے سے مراد یہ ہے
کہ لوگ اپنی صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، تفریح یا اس قسم کی دوسری مد میں
اخراجات کم کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے ملکی معیشت کو
بہت نقصان پہنچایا ہے اور حکومت کی معاشی پالیسیوں میں بھی مستقل مزاجی کم
دکھائی دیتی ہے۔ان حالات میں معیشت کو بڑے پیمانے پر اوور ہالنگ کی ضرورت
ہے اس کے لیے اسے مضبوط سیاسی حکومت کی ضرورت ہے جس کے پاس ایسا کرنے کا
عزم بھی ہو۔ مستقبل قریب میں ایسی اصلاحات کے نفاذ کے امکانات کم نظر آتے
ہیں کیوں یہ انتخابی سال ہے اور حکمران اتحاد ایسا بجٹ پیش کرنا چاہتا ہے
جس سے اسے عوامی مقبولیت حاصل ہوسکے۔ ایک جانب قرضوں کا بڑھتا حجم ہے،آمدن
بڑھانے اور اخراجات میں کمی کے لیے حکومت کے پاس کوئی پالیسی سرے سے نظر
نہیں آتی۔ ان سب کے پیچھے درحقیقت حکومت کا کوئی معاشی پلان نہ ہونا ظاہر
ہوتا ہے۔ حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے آمدنی میں مزید اضافے کی
خاطر کمپنیوں کے ذخائر، لین دین اور دیگر مد میں نئے ٹیکسز عائد کرنا چاہتی
ہے۔غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی، خام مال اور ضروری اشیا کی درآمد
کو کم کردینا، صنعتی خام مال کے لیے ایل سی کھولنے پر غیر ضروری پابندی
سمیت دیگر معاملات موجودہ منظر نامے میں چند بڑے معاشی مسائل ہیں جن پر
خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی تعمیل کے لیے پالیسی
سازوں کو ریونیو بڑھانے کے لیے دیگر ذرائع تلاش کرنے چاہئیں جیسے کہ
قبائلی اضلاع اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹیکس ریونیو بڑھانے اور
حکومتی اخراجات کم کرنا بھی شامل ہے۔