وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے
اثرات پوری دنیا خصوصا گلگت بلتستان پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر
گلیشیئرز گلگت بلتستان میں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی وجہ
سے گلیشےئرز پگھل رہے ہیں۔ گلیشیائی جھیلوں سے پانی کے اخراج کے سبب سیلاب
سے مقامی آبادی کو خطرات کا سامنا ہے۔ ماحولیات کے عالمی دن کے موقع پر
خصوصی پیغام میں خالد خورشید نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے
بچاﺅ کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی طور
پر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔جنگلات کے تحفظ اور درخت لگانے پر
توجہ دینا ہوگی۔حکومت گلگت بلتستان قدرتی ماحول کے تحفظ اور ماحولیاتی
تبدیلیوں سے بچاﺅ کے لیے آگاہی مہم سمیت عملی اقدامات کر رہی ہے‘عوام بھی
ماحولیات کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کریں اور حکومت کے ساتھ تعاون
کریں۔جنگلات کی اہمےت سے انکار نہےں کےا جا سکتا اور جانتے ہےں کہ جنگلات
کی کٹائی کے نقصانات عالمی ہیں ، جنگلات کی کٹائی کے نقصانات کاربن ڈائی
آکسائیڈ کے اخراج اور مٹی کے کٹاﺅ کے ساتھ ساتھ جنگل کی تباہی اور پودوں
اور جانوروں دونوں کے حیاتیاتی تنوع کا ضیاع ہیں۔جنگلات کی کٹائی اس وقت
ہوتی ہے جب جنگلات کی زمین صاف ہوجاتی ہے ، زمین پر پچےس فیصد سے زیادہ
زمین جنگلات کی زد میں ہے لیکن اس ماحولیاتی نظام کے لاکھوں ہیکٹر ہر سال
تباہ ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے نصف سے زیادہ جنگلات صرف سات ممالک میں پائے جاتے
ہیں: برازیل ، کینیڈا ، چین ، جمہوری جمہوریہ کانگو ، انڈونیشیا ، روس اور
امریکہ۔فوٹو سنتھیس کے دوران ، درخت اور دوسرے پودے ماحول سے کاربن ڈائی
آکسائیڈ کو ہٹا دیتے ہیں ، اسے شوگر کے مالیکیول میں تبدیل کرتے ہیں اور
آکسیجن چھوڑ دیتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ ایک گرین ہاﺅس گیس ہے جو گلوبل
وارمنگ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے
نکال دیتے ہیں اور گرین ہاﺅس اثر کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ جب درخت
منقطع ہوجاتے ہیں ، تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جو انہوں نے پہلے جذب کی تھی
اور ذخیرہ کرلی اسے ماحول میں واپس چھوڑ دیا جاتا ہے۔ فضا میں جاری ہونے
والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کاسترہ فیصد جنگلات کی کٹائی اور درختوں اور دیگر
بایڈماس کے خاتمے کی وجہ سے ہے۔ جب جنگلات کی کٹائی ہوتی ہے تو مٹی کے
کنارے کٹاﺅ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ مٹی کو جگہ پر رکھنے کے لئے جڑیں نہیں
ہوتی ہیں اور گرنے والی بارش کی طاقت کو توڑنے کے لئے پودے نہیں ہوتے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق ، پچھلے 150 برسوں میں دنیا کی نصف ٹاپ مٹی
ختم ہو چکی ہے۔ کٹاﺅ قریبی آبی گزرگاہوں میں مٹی کو دھوتا ہے ، جہاں بڑھتی
ہوئی تلچھٹ اور آلودگی سے سمندری رہائش گاہوں کو نقصان ہوتا ہے ۔جنگلات کی
کٹائی سے جنگلات کے رہائشی مقامات جانور درختوں کو کھانے ، ٹھکانے اور
گھونسلے کی جگہوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ درختوں کے بغیر جانوروں کو لازم
ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لئے دوسری جگہیں تلاش کریں یا وہ ہلاک ہوجائیں۔ جب
جانوروں کی آبادی کی قدرتی رہائش گاہ میں ردوبدل کیا جاتا ہے تو ڈرامائی
نقصان ہوتا ہے۔جنگل جانوروں کی بے شمار اقسام کے لئے گھر مہیا کرتا ہے ،
لیکن یہ ان گنت پودوں کی انواع کے لئے بھی ہیں۔درختوں کے وسیع علاقوں کو
ہٹانے کے نتیجے میں آکسیجن کی پیداوار کم ہوجاتی ہے ، ہوا میں کاربن ڈائی
آکسائیڈ اور عالمی درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔جنگلات کی کٹائی عام طور پر
انسانی سرگرمیوں کا ایک ضمنی اثر ہوتا ہے جیسے لاگنگ ، زراعت یا زمین کی
ترقی۔ اس سے مقامی ماحولیاتی نظام پر نمایاں اثر پڑ سکتا ہے ، جنگلات کی
کٹائی ہمیشہ ہی ایک انتہائی متنازعہ سیاسی موضوع رہا ہے ، دنیا کے بڑے
پیمانے پر جنگلات کو پوری دنیا میں ایندھن کی نمو کیلئے قربان کیا جاتا ہے۔
ماہرین ماحولیات نے استدلال کیا ہے کہ اگر جنگ بندی کو اپنی موجودہ شرح پر
جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تو وسیع پیمانے پر جنگلات کی کٹائی سے دنیا کے
لئے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔جنگلات اور سبزہ پانی جیسی ایک نعمت اور
ضروریات ا نسانی وحیوانی کا ایک اہم جزو ہیں۔ سیلاب اور قحط سے بچاﺅ، لینڈ
سلائیڈنگ سے تحفظ ، صوتی آلودگی میں کمی، پانی کی مسلسل دستیابی، زراعت کی
بہتری اور انسانی صحت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔علاوہ ازیں ،
آکسیجن کی فراہمی، عمل انجذاب، مٹی کی زرخیزی، فائدہ مند کائی کا اگاﺅ،
ماحولیاتی توازن اور سیاحت کا فروغ جنگلات کے اہم فوائد میں سے ہیں۔
پاکستان میں تےزی سے جنگلات کی سالانہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔بڑھتے ہوئے
درجہ حرارت اور تبدیل ہوتے ہوئے ماحولیاتی نظام کی وجہ سے جنگلات کے تحفظ
کا ادراک وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس وقت پاکستان ماحولیاتی آلودگی، بڑھتے ہوئے
درجہ حرارت، سالانہ سیلاب اور پانی کی شدید قلت جیسے مسائل کا شکار ہے جو
ملکی معیشت، موسمی تغیر، انسانی صحت اور زراعتی شعبے پر منفی اثرات مرتب کر
رہے ہیں۔ اگر جنگلات کا رقبہ ملکی رقبے اور آبادی کے تناسب سے موزوں نہ ہو
تو ماحولیاتی آلودگی اور پانی کی قلت جیسے مسائل پر قابو پانا ناممکن ہوتا
ہے۔پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں جنگلات کی پیداوار کی شرح دنیا میں کم
ترین سطح پر ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر حصوں میں خشک آب و ہوا ، لکڑی جلانا،
پانی کی کمی اور عدم توجہی جنگلات کی کمی کی اہم وجوہات ہیں۔ علاوہ ازیں
حشرات اور درختوں کی بیماریاں جنگلات پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔
جنگلات کے تحفظ کے لئے موثر اور نتیجہ خیز پالیسی ترتیب دینا انتہائی ضروری
ہے۔قوانین کو ضروریات کے موافق بنانا اور پالیسیوں پر من و عن عمل پیرا
ہونا عوامی شعور و آگاہی کے بغیر ناممکن ہے جس پر آج تک توجہ نہیں دی گئی۔
پاکستان میں تحقیقی ادارے جنگلات کے حوالے سے مختلف اعدادو شمار بیان کرتے
ہیں تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق 3.4 ملین ہیکٹررقبہ قدرتی جنگلات پر
مشتمل ہے۔ مسلسل کٹائی اور حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے ان جنگلات میں
اضافے کی بجائے کمی واقع ہوئی ہے۔پاکستان میں جنگلات کو صنعت کا درجہ دینا
انتہائی مفید ہو سکتا ہے۔ حکومتی عدم توجہی اور ناقص منصوبہ بندی کے باوجود
لکڑی کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ
لکڑی فرنیچر، کاسمیٹکس، میڈیسن، تزئین و آرائش، انڈسٹری اور جلانے میں صرف
ہوتی ہے جس میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ۔ یہ تمام عوامل جنگلات کے
کٹاﺅ کا باعث بن رہے ہیں ۔ پاکستان کو گرتی ہوئی معیشت، توانائی کے بحران،
دہشت گردی اور عالمی سفارتی تنہائی کے ساتھ ساتھ جنگلات میں مسلسل کمی جیسے
مسائل درپیش ہیں۔ جنگلات کا کٹاﺅ کسی بھی طرح چیلنج سے کم نہیں ہے جس سے
نمٹنا ماحولیاتی آلودگی، سالانہ سیلاب اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول
کرنے لئے انتہائی ضروری ہے۔جنگلات کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ ضروریات
زندگی کے لئے درختوں کی کٹائی ناگزیر ہے تو مناسب تعداد میں اور درخت بھی
لگائے جائیں۔ ٹمبر مافیا پر قانونی گرفت مضبوط کی جائے اور لکڑی اسمگلنگ کی
ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے۔ لکڑی کی درآمدات اور برآمدات میں توازن
انتہائی ضروری ہے جس کے لئے محکمہ جنگلات کو مضبوط اور وزارت صنعت و تجارت
کو منصوبہ سازی میں بااختیار بنایا جائے۔ سرکاری سطح پر عوامی شعوروآگاہی
کے منصوبہ جات شروع کرنے کے ساتھ ساتھ جنگلات کی ترقی کے لئے کام کرنے والے
افراد یا غیر حکومتی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تحفظِ جنگلات میں
عالمی سطح پر پذیرائی پانے والے ممالک اور عالمی اداروں سے معاونت حاصل
کرنا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ ہر ضلع کی سطح پر زراعتی
اداروں کا قیام عمل میں لائے تاکہ گھریلو باغات اور جنگلات کی صنعت کو علمی
میدان میں متعارف کرایا جاسکے۔عام طور پر جنگلات میں آگ لگنے کے جو اسباب
بیان کیے جاتے ہیں ان میں سے خشک موسم، گرمی کی شدت یا انسانی غفلت وغیرہ
بہت عام ہیں۔ اس کے علاوہ تیز ہواﺅں کی وجہ سے اس کے پھیلاﺅ کی رفتار بڑھ
جاتی ہے۔ہمارے ہاں جنگلات میں بڑے پیمانے پر آگ لگنے کے واقعات میں
ماحولیاتی عوامل کا کردار بنیادی ہے اور یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ جنگلات کی
کٹائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ جنگلات میں لگنے والی آگ بھی جنگلات
اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔جنگل میں آگ اسی وقت
لگتی ہے جب وہاں ایسا مواد ہو جو کسی چنگاری سے بھڑکنے والی آگ کا ایندھن
بن سکتا ہو۔عام طور پر خشک موسم، گرمی کی شدت جیسے فطری اسباب کو جنگل میں
آگ لگنے کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ جنگل میں پکنک کے لیے آنے
والوں کے بنائے گئے الاﺅ سے بچ جانے والے انگارے یا سگریٹ کی چنگاری سے
بھڑکنے والی آگ بھی بڑے پیمانے پر جنگلات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اس
لےے اس ضمن میں حفاظتی انتظامات بھی بروئے کار لانا ضروری ہےں۔