ماحولےات کا عالمی دن

عالمی یوم ماحولیات ہر سال پانچ جون کو منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم ماحولیات کا مقصد آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ماحول کو لاحق خطرے کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ پہلا عالمی یوم ماحولیات 1974 میں منایا گیا ۔ اقوام متحدہ نے پانچ جون کو عالمی یوم ماحولیات کے طور پر منانے کے لیے مقرر کیا تاکہ آلودگی کی وجہ سے ماحول کو ممکنہ نقصان سے بچانے کی ضرورت پر توجہ مبذول کروائی جا سکے۔1974سے تاحال یہ دن منانے کے کسی حد تک مثبت نتائج و اثرات صرف ایسے ممالک میں دیکھنے کو ملے ہیں، جہاں کی حکومت اور عوام نے انسانی بقا کے اس اہم مسئلے پر سنجیدگی دکھائی لیکن ان ممالک میں جہاں انسانی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور صنعتی ترقی کی رفتار بھی تیز ہے، وہاں ماحولیات کی سنگینی کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کے مضر اور منفی نتائج ان ممالک میں زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بار بار اس عالمی مسئلہ کے سلسلے میں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ عالمی سطح پر مختلف وجوہات اور عدم توجہی کے باعث ماحول بہت تیزی سے زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں انسان ہلاک ہو رہے ہیں اور مختلف قسم کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔دنیا میں فضائی آلودگی سے ہرسال ستر لاکھ افراد کی موت ہو رہی ہے اور اس سے معاشرے کو پچاس کھرب ڈالر سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔آبی آلودگی کے باعث ہونے والے متعلقہ امراض ہر سال مزید چودہ لاکھ انسانی زندگیوں کو نگل ر ہے ہیں۔دنیا کے درجہ حرارت میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ اور حیاتیاتی تنوع میں آنے والی کمی انسانوں کو درپیش سنگین ترین خطرات ہیں جو مسلسل کئی طرح سے انسانی زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث دنیا کی زر خیزی بھی شدت سے متاثر ہو رہی ہے اور زمین تیزی سے بنجر اور بے کار ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت زمین کے کل رقبے کا انتےس فیصد ایسا ہے جن پر فصل اگانا مشکل ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی آلودگی کے باعث زمینی، فضائی اور سمندری آبادی پر بھی خطرات بہت شدت سے منڈلا رہے ہیں۔عالمی سطح پر ماحولیات کے بڑھتے خطرات کے مد نظر اقوام متحدہ نے1987 میں یہ طے کیا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک کو ماحولیات کے سنگین صورت حال سے متنبہ کرنے اور ان کے تدارک کے لیے ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں کسی ایک ملک میں موثر تھیم کے ساتھ عالمی یوم ماحولیات کے انعقاد کی میزبانی دی جائے اور اسی تھیم پر پوری دنیا میں ماحولیات کو سازگار بنانے کی کوشش ہو۔عالمی حدت کا سبب بننے والی گرین ہاﺅس گیسز میں پاکستان کاحصہ ایک فیصد کے قریب ہے۔تاہم پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ دس سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔پچھلی دو دہائیوں کے دوران صرف ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے پاکستان کا تین ارب اسی کروڑ ڈالر کے قریب مالی نقصان ہوا اور دس ہزار کے قریب جانیں اس المیے کی نذر ہو گئیں۔ آب و ہوا میں تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ کی سرگرمیاں کو مزید فروغ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس سے مزید پہلو تہی نہیں برتی جا سکتی۔ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ایک نئی تحقیق میں پیش کیے گئے اندازوں کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کی اوسط عمر میں تےن سال کی کمی آرہی ہے۔ رواں صدی میں گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کے لیے، ہمیں 2030 تک سالانہ گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کو نصف کر دینا چاہیے۔ساتھ ہی فضائی آلودگی ایک دہائی کے اندرپچاس فیصد تک بڑھ جائے گی اورپانی میں بہنے والا پلاسٹک کا فضلہ 2040 تک تقریبا تین گنا بڑھ جائے گا۔تاہم ہمیں ان اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ کرہ ارض کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لئے فطرت کے وضع کردہ لاتعداد حیاتیاتی نظام، مستقبل میں پچاس بلین ٹن کاربن گیسوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم قدرتی ماحالیاتی نظام کے اس طویل سلسلے میں جملہ ماحول دوست امکانات کو استعمال میں لانے کے لئے خود زمین پر آباد انسانوں کو بھی اپنے اردگرد کی آب و ہوا کو صاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی۔مشرقی یورپی ملکوں پر ماحولیاتی تبدیلیوں اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات انتہائی شدید ہیں۔ اس وجہ سے اس خطے میں خشک سالی کے واقعات اور اچانک سیلاب کافی زیادہ دیکھنے میں آنے لگے ہیں۔ آج کے مشرقی یورپ میں آب وہوا کی تبدیلی کا بہت قریبی تعلق ماضی میں کالعدم ریاست سوویت یونین کی طرف سے صنعتی اور زرعی شعبوں میں برتی جانے والی شدید غفلت سے بھی ہے۔دنیا کے دوسرے خطوں میں ماحولیاتی تبدیلیاں وہاں پر آج کی انسانی آبادی کی لاپرواہی کی بنا پر دیکھنے میں آرہی ہیں۔ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ زمین کی فضا میں پہلے سے موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں ہوتی رہیں گی، چاہے ہم آج ہی سے کاربن گیسوں کا فضا میں اخراج روک بھی دیں۔صنعتی میدان میں ہونے والی پیش رفت اور ترقی نے انسانی ہاتھوں فطرت اور ماحولیات کو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ سرعت سے آلودہ کیا ہے۔ اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کا اندازہ کرنے والے انسانوں نے در اصل قدرتی طور پر اپنے وجود کو جاری رکھنے والی فطرت کے توازن کو بگاڑنے کو سمجھ لیا۔اس شعور کے پیدا ہونے پر صارفین ِ فطرت نے قدرت کے توازن کے تحفظ کے لیے ماحولیاتی شعور پروان چڑھا۔ صنعتی کارخانوں، موٹر گاڑیوں اور ہر طرح کے انسانی فضلات کو فطرت کو نقصان پہنچائے بغیر ان کی تجدید کے لیے عقلمندانہ حل تلاش کیے جانے لگے۔ ہمیں آئندہ کی نسلو ں کے ایک صاف ستھرے ماحول میں زندگی بسر کر سکنے کے لیے ہر ممکنہ جدوجہد اور کوششیں صرف کرنی ہوں گی۔صنعتی آلودگی اور جیواشم ایندھن کے جلنے سے گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے سیارہ گرم ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ماحولیاتی تباہی ہمارے پہلے سے گرم ہونے والے سیارے کو اور بھی گرم بنا دیتی ہے۔ پیٹ لینڈ اور جنگلات پھنس جاتے ہیں اور کاربن کو طویل عرصے تک ذخیرہ کرتے ہیں۔ جیسے ہی وہ تباہ ہو جاتے ہیں ، سیارہ گرین ہاﺅس گیس کو فضا میں جذب ہونے سے روکنے کی اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے۔اگرچہ یہ تمام امکانات خطرناک اور حقیقی ہیں ، ان کو روکا جا سکتا ہے۔ عالمی یوم ماحولیات ،ہمارے ماحول کی اہمیت پر غور کرنے اور اس کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا وقت ہے۔ ماحولیاتی نظام کی بحالی اس نقصان کو روکنا ، روکنا اور پلٹنا فطرت کے استحصال سے اسے ٹھیک کرنے کی طرف جانا ہے۔اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کا ماحول کئی وجوہات کی بنا پر تیزی سے زہریلا ہو رہا ہے جس کے باعث ہر سال لاکھوں انسان موت کا شکار ہو رہے ہیں۔دنیا بھر میں انسانوں کی غیر صحت مند سرگرمیوں کے نتیجے میں دنیا کے ماحول کو سخت نقصان پہنچا ہے اور اس سے انسانی معاشرے کی ماحولیاتی بنیادیں منہدم ہو رہی ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں، دنیا بھر میں تیزی سے معدوم ہوتے جانور اور نباتات، انسانی آبادی میں بے تحاشا اضافے، آلودہ فضا اور پلاسٹک، نامیاتی کھاد اور پانی میں ہارمونز میں تبدیلی لانے والے کیمیائی مواد کی موجودگی کو دنیا، اس کے ماحول اور اس کی آبادی کے لیے سنگین خطرات قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ اور حیاتیاتی تنوع میں آنے والی کمی انسانوں کو درپیش سنگین ترین خطرات ہیں کیوں کہ یہ مستقل ہیں اور کئی طرح سے انسانی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ کئی خطوں میں پانی کا معیار گرا ہے اور آبی آلودگی بڑھ رہی ہے۔پانی میں موجودبیکٹیریاز کی وجہ سے لوگ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور اگر صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو 2050 تک یہ دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی ایک بڑی وجہ ہوگی۔ دنیا میں زمین کی زرخیزی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور زمین تیزی سے بنجر اور بے کار ہوتی جا رہی ہے۔ماہرین کے مطابق اس وقت زمین کے کل رقبے کا انتےس فی صد ایسا ہے جس پر کوئی فصل اگانا بہت مشکل ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی اور اگر انسان اپنے رہن سہن میں تبدیلیاں لے آئیں تو دنیا کو دوبارہ رہنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ اگر انسان اپنی خوراک، اشیا کی خریداری اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کی عادات اور توانائی کے حصول کے ذرائع تبدیل کرلیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔قدرت کے فطری ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے ہم دن بدن ناکام ثابت ہوتے جا رہے ہیں جس کے منفی اثرات پورے کرہ ارض پر پڑ رہا ہے اور ان کا خمیازہ موجودہ نسل بھگت رہی ہے اور یہی حال رہا تو اس سے زیادہ آنے والی نسل شدید طور پر بھگتے گی۔