پٹرولم مصنوعات کے نرخوں میں کمی



حکومت نے پٹرولےم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا اعلان کےا ہے ےوں مجموعی طور پر اےک ماہ میں نرخوں میں بےس روپے لٹر کمی کی گئی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کہہ چکے ہےں کہ جب حکومت سنبھالی تو ورثے میں تباہ شدہ معیشت ملی، مہنگائی اپنے عروج پر تھی اور تیل کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی تھیں۔ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پر معاہدہ کیا اور جاتے جاتے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھا دیں۔ تیل کی قیمتیں منجمد کر کے حکومت کو مشکلات میں مبتلا کر دیا۔ ہم نے دل پر پتھر رکھ کر تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ اب جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تیزی سے گر رہی ہیں، ہمیں ان میں کمی کا موقع ملا ہے۔ ماضی میں البتہ ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو بھی ہوا ہو۔ حالانکہ ملک میں ہر ماہ میں دو مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کیا جاتا ہے ۔ جب ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور عالمی سطح پر تیل مہنگا ہونے پر ملک میں تیل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں لیکن سستا ہونے کی صورت میں ان قیمتوں میں کمی خال خال ہی کی جاتی ہے اور جو کمی کی جاتی ہے وہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے تناسب سے نہیں کی جاتی۔ جس کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف منفی جذبات جنم لیتے ہیں۔ دنیا کی اقوام ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے لیے اپنے دستیاب وسائل کا پوری دیانتداری کے ساتھ استعمال کرتی، خود احتسابی کا راستہ اپناتی اور اپنی افرادی قوت سے بہترین اور منظم انداز میں استفادہ کرتی ہیں۔ پاکستان بھی یہ سنگ میل عبور کر سکتا ہے۔ پاکستان کی قوم بہترین صلاحیتوں کی مالک ہے، یہاں ملک کی کثیر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جن کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے بڑھے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے تعلیمی شعبے میں انقلابی اصلاحات کرنا اور اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہمیں زمینی حقائق کے مطابق اپنے اہداف متعین کرنا ہوں گے اور پھر ان کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ ہمیں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت بھی اس لیے پیش آئی تھی، ہم نے اپنے وسائل سے بڑھ کر اخراجات کیے۔ ہماری حکومتوں نے ملکی وسائل میں اضافہ کرنے اور انہیں وسعت دینے کے بجائے بیرونی ممالک سے امداد پر زور دینا شروع کر دیا۔ہمیں اپنے اخراجات اور ضروریات پوری کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑا، جو قرضے لیے گئے بدقسمتی سے انہیں ملکی مفاد اور عوامی فلاح کے لیے استعمال کرنے کے بجائے غیر پیداواری کاموں پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور یوں اپنے پھیلائے جال میں خود ہی پھنستے چلے گئے۔ اب قرضوں کا حجم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ان پر قابلِ ادا سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے اور اس میں کسی ایک حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ پریکٹس گزشتہ چار عشروں پر محیط ہے اور ہر حکومت نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے جبکہ اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے، اتحادی حکومت نے عوام سے تباہ حال معیشت کی بحالی، خودانحصاری کی منزل کا حصول اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے بلند بانگ وعدے کر رکھے ہیں۔ اس کا بھی یہی دعوی ہے کہ اسے بدحال معیشت ورثے میں ملی ہے۔ میاں شہباز شریف جو بہترین منتظم تصور کیے جاتے ہیں ان کے پاس ایسی ماہرین پر مشتمل ٹیم بھی ہے جو ان کے وعدوں کو عملی شکل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ میاں شہباز شریف عوام کی فلاح اور بہتری یر یقین رکھتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات میں کمی ان کی اسی سوچ کی مظہر ہے ۔ان سے بجاطور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کو خودکفالت کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے۔ آئی ایم ایف کے چنگل سے ہمیشہ کے لیے نکلنے کی راہ ہموار کریں گے اور عوام کیلئے جس فوری ریلیف کا اہتمام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں کیا گیا ہے اس کے ثمرات ہر آدمی تک پہنچانے کے لیے تمام شعبوں میں ضروری اقدامات بروئے کار لائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی کہہ چکا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے عوام کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے، قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کیلئے ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔حکومت کی پوری کوشش ہے کہ گزشتہ حکومت کی ذمہ داریوں کی درستگی کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے۔پٹرول کے ساتھ ڈیزل کی قیمت میں بھی کمی ہوئی ہے، ٹرانسپورٹرز کو کرایوں میں کمی کرنی چاہیے، صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچانے کیلئے اقدامات کئے جائیں، اس کا فائدہ لوگوں تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور کھانے پینے کی چیزوں میں اضافے فورا کر دیے جاتے ہےں ۔ تاہم قیمتوں میں کمی کے بعد کرایوں اور کھانے پینے کی چیزوں میں کمی یا تو نہیں ہوتی یا پھر بہت کم کی جاتی ہے۔ عوام کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے ۔پاکستان میں تیل کی مصنوعات میں کمی کا اثر فوری طور پر ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور کھانے پینے کی چیزوں پر نہیں پڑتا۔ماہرین نے پاکستان میں قیمتوں کے کنٹرول کے حکومتی نظام میں خامی کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں کمی کیا واقعی بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی سے مطابقت رکھتی ہے، اس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس کمی کو پوری طرح عوام کو منتقل نہیں کیا جس کی بڑی وجہ اس پر ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر ٹیکس میں اضافہ کرنا ہے۔پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا جائزہ لیا جائے اور بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمت کا جائزہ لیا جائے تو حکومت نے عالمی منڈی میں ہونے والی قیمت میں کمی کو مکمل طور پر صارفین کو منتقل نہیں کیا۔ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں نظر ثانی تیل کی عالمی قیمتوں کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔حکومت نے پیٹرول و ڈیزل پر سیلز ٹیکس کو بڑھا کر ٹیکس کی وصولی کو بڑھایا تو دوسری جانب پیٹرولیم ڈیلرز کے نفع میں بھی اضافہ کیا جس کا معاہدہ حکومت کی جانب سے گذشتہ ماہ اس وقت ڈیلرز سے کیا گیا جب انہوں نے مارجن کے اضافے کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے ہڑتال کی تھی۔تیل مصنوعات میں اضافے پر فوری طور پر پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں ہوتا ہے تاہم تیل کی مصنوعات میں کمی کا فوری اثر دکھائی نہیں دیتا۔ تیل کی مصنوعات میں کمی وفاقی حکومت کا اختیار ہے اور اس کمی کا فائدہ عوام کو پہنچانے کے لیے صوبائی و مقامی حکومتوں کا کردار ہوتا ہے۔ےوں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے اور اسی طرح مقامی منڈیوں میں اشیائے خورد و نوش میں قیمتوں کو کنٹرول کرنا صوبائی و مقامی حکومتوں کا کام ہے۔تاہم بدقسمتی سے پاکستان میں صوبائی سطح اور مقامی سطح پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا نظام کمزور پڑ چکا ہے۔ صارفین کو قیمتوں میں کمی کا فائدہ پہنچانے کے لیے وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں سب کا کردار ہے۔جب وفاقی حکومت قیمت کرنے کا اعلان کرتی ہے اور اب اس کا فائدہ صارفین تک پہنچانے کے لیے ضلعی سطح پر موثر نظام ہو جو فی الحال موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے صارفین کو فوری کمی کے ثمرات نہیں پہنچ پاتے۔تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بھی عوام کا بوجھ کم نہیں کیا جاتا۔ ڈیزل اور پیٹرول کے نرخ میں کمی کرنے کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں ، اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں اور سازوسامان کے نرخوں میں کمی لانے کا اعلان نہیں کیا جاتا اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملتا ہے اس حوالے سے سخت کارروائی کی بجائے وفاقی حکومت اب تو تاجروں اور ٹرانسپورٹرز سے درخواست بھی نہےں کرتی حالانکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی اضافہ کے بعد بھی ٹرانسپورٹرز کی جانب سے کرایہ میں اضافہ کرد یا جاتا ہے اور اشیا خورونوش کی قیمتیں بھی راتوں رات بڑھادی جاتی ہیں لہذا اس جانب توجہ دےنا بہت ضروری ہے جس طرح اضافہ کےا جاتا ہے کمی کی صورت میں اسی تناسب سے کمی کی جانا ضروری ہے۔اب حکومت کو بجلی کے نرخوں میں کمی پر بھی توجہ دےنا ہو گی۔