مقبوضہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس کی بدترین ناکامی پر منہ کی کھانے والی مودی سرکار نے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس آن لائن کرانے میں ہی عافیت جانی ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ جے شنکر نے اعلان کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ سمٹ کا 22 واں اجلاس وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں چار جولائی کو ہوگا۔بھارتی وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ جی ٹوئنٹی اور ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے برعکس یہ اجلاس ویڈیو کانفرنس کے ذریعے منعقد کیا جائے گا تاہم انہوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔بھارتی حکام نے میڈیا کے بار بار پوچھنے پر یہ عذر پیش کیا کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اجلاس کا انعقاد کی وجہ رکن ممالک کے چند سربراہان کی نجی مصروفیات ہیں جس کے باعث وہ بھارت آنے سے قاصر تھے۔بھارت نے اس اجلاس میں ورچوئل شرکت کے لیے ایران، بیلاروس اور منگولیا کو مبصر جب کہ ترکمانستان کو بطورمہمان مدعو کیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک سیاسی اور سیکیورٹی بلاک ہے جس میں پاکستان، روس اور چین بھی شامل ہیں۔ گزشتہ برس ستمبر سے اس تنظیم کی سربراہی بھارت کے پاس ہے۔رواں ماہ بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں شرکت کے لیے بلاول بھٹو بھارت گئے تھے جب کہ مقبوضہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی کا اجلاس رکھا گیا تھا جو بری طرح ناکام ہوا تھا۔بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عالمی معیشتوں کی تنظیم جی ٹوئنٹی کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا اجلاس شروع ہوا۔چین نے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا جب کہ ترکیہ، سعودی عرب اور مصر بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔ مسلمان اکثریت والے تینوں ملکوں نے اس اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے وفود کی رجسٹریشن نہیں کرائی۔جی ٹوئنٹی تنظیم کے ارکان میں بھارت، امریکہ، برطانیہ، چین، روس، سعودی عرب، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، ارجنٹائن، برازیل، انڈونیشیا، میکسیکو، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور ترکیہ سمیت یورپی یونین شامل ہے۔جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ اجلاس بھارت کی صدارت میں نئے دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میںہوا جس کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے۔بھارت نے یکم دسمبر 2022 کو جی ٹوئنٹی کی صدارت سنبھالی تھی اور اس سال پہلی بار جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس کی میزبانی انجام دی ۔ بھارت اس منصب پر 30 نومبر 2023 تک فائز رہے گا۔گروپ کا اجلاس کشمیر میں سرینگر کی مشہور ڈل جھیل کے کنارے واقع ایک کانفرنس ہال میں ہوا ۔مندوبین نئی دہلی سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سرینگر پہنچے ۔جی ٹوئنٹی اجلاس میں بھارت ثابت کرنا چاہتا تھا کہ مسئلہ کشمیر ختم ہوچکا ہے۔بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ سرینگر میں جی ٹوئنٹی کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اس اجلاس سے علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا جب کہ مقامی دست کاریوں کی جی ٹوئنٹی ممالک کے لئے برآمدات میں اضافہ ہوگا۔پاکستان نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جی ٹوئنٹی ممالک کے اجلاس کی مخالفت کی۔پاکستان کا موقف رے کہ جمو ں و کشمیر متنازع علاقہ ہے اوراس علاقے میں اس طرح کے اجلاسوں کا انعقادعالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔بلاول بھٹو کا کہنا تھاکہ یہ اجلاس بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔اور یہ کہ اجلاس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ کشمیر میں سب معمول کے مطابق ہے۔ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنایا تھا جسے متنازع ریاست کو ملک میں ضم کرنے کی جانب ایک بڑا اور اہم قدم خیال کیا جاتا ہے۔دونوں ممالک کشمیر کو اپنا علاقہ قرار دیتے ہیں اور 1947 کے بعد سے اس تنازع کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں جنگیں بھی ہوئی ہیں۔نئی دہلی کا موقف رہا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے جب کہ وہ اس تنازع کے حل کے لیے کسی تیسرے فریق یا ثالث کے کردار کی مخالفت کرتا رہا ہے۔پاکستان کشمیر کے تنازع کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔سرینگر میں 22 سے 24 مئی تک ہونیوالا یہ اجلاس ورکنگ گروپ کا بھارت میں رواں برس ہونے والا تیسرا اجلاس تھا۔ اس سے قبل ریاستِ گجرات کے علاقے رن آف کچھ اورمغربی بنگال کے سیاحتی مقام سلی گڑی میں اجلاس منعقد ہوئے تھے لیکن سرینگر میں ہونے والے اجلاس کو بھارتی حکومت اور مقامی منتظمین نے بہت اہمیت دی اور اس کی کافی تشہیر کی جب کہ یہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہا۔ بھارت سرینگر میں جی20کے ایونٹ کا انعقاد کرکے نہ صرف جموں و کشمیر کی سیاحتی ا ستعداد کی نمائش کرانا چاہتا تھا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دینا چاہتا تھا کہ وہ علاقے میں امن اور معمولات زندگی کو بحال اور استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔بھارت سرینگر میں جی20 اجلاس منعقد کرکے یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ پانچ اگست2019کو اس کی طرف سے اٹھایا گیا یہ اقدام کامیاب رہا ہے ۔ نیز وہ کشمیر پر اپنے اس موقف کی کہ یہ اس کا ایک اٹوٹ اور ناقابلِ تنسیخ حصہ ہے بین الاقوامی برادری سے تائید چاہتا تھا۔بھارت کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کے دوران مختلف موضوعات پر جو بحث و مباحثے ہوئے ان کے نتیجے میں چند شاندار خیالات ابھرے ہیں اور ان پر عمل سے جموں وکشمیر کو بے حد فائدہ ہوگا۔جن مندوبین نے اس اجلاس میں شرکت کی وہ اپنے ساتھ جموں و کشمیر کے عوام کی گرمجوشی اور محبت اور مہمان نوازی کے اظہار کی یادیں بھی لے گئے ہیں۔ جی20کا یہ اجلاس اس خطے میں امن اور خوشحالی کے پیغام کو دنیا میں پھیلا دے گا۔بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں بڑی تعداد میں غیرملکی مندوبین کی شرکت سے جموں و کشمیر کی معیشت کو کئی لحاظ سے فروغ حاصل ہوگا اوراس طرح بڑی مقدار میں غیرملکی زرِمبادلہ کمانے اور علاقے میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بھی راہیں ہموار ہوں گی۔جی 20 کے اس ورکنگ گروپ اجلاس میں میزبان ملک کے نمائندوں کے علاوہ 53غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی۔ان میں سے پانچ مندوبین سنگاپور، برطانیہ اور نائیجیریا کے چار چار، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور اسپین کے تین، تین، برازیل، فرانس، ماریشس، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات کے دو، دو ارجنٹائن، بنگلہ دیش، جرمنی، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، ہالینڈ اور روس سے ایک نمائندے نے شرکت کی۔اس کے علاوہ یورپین یونین اور دیگر عالمی تنظیموں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونائٹیڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام کے سات نمائندے بھی شریک ہوئے۔چین جو جی 20 کا ایک اہم رکن ہے اس نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اجلا س کے آغاز سے قبل چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے کہا تھاکہ ان کا ملک متنازع جموں و کشمیر میں جی 20کا اجلاس منعقد کرنے کے سخت خلاف ہے۔ان کا موقف تھا کہ چین متنازع علاقے میں جی20کا اجلاس منعقد کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔ہم ایسے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوں گے۔اجلاس سے سعودی عرب اورترکیہ بھی غیر حاضر رہے جبکہ جن نو غیر رکن ممالک کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی ان میں سے ایک اہم ملک مصر نے بھی اس دعوت کو خاموشی سے ٹھکرادیا۔چین نے ریاست اروناچل پردیش میں بھی منعقد ہونے والے ایسی ہی تقریبات میں شرکت نہیں کی تھی ۔چین کا موقف ہے کہ اروناچل پردیش اس کا حصہ ہے۔پاکستان نے سرینگر اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دو اور شہروں جموں اور لیہہ میں جی20 کی تقریبات کے انعقادپر اعتراض کیا تھا۔پاکستان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر چوں کہ ایک متنازع علاقہ ہے لہذا نئی دہلی یہاں اس طرح کے اجلاس اور تقریبات کا اہتمام کرکے اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قراردادو ں، عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحا خلاف ورزی کر رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کا ایک قریبی دوست ملک ضرور ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات نہ صرف سرد مہری کا شکار رہے بلکہ لداخ کے علاقے میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان گزشتہ کئی برس سے محاذ آرائی چل رہی ہے۔اس کے علاوہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست ارونا چل پردیش میں بھی گزشتہ سال دسمبر میں دونوں ممالک کے فوجیوں میں جھڑ پ ہوئی تھی اور پھر چین کی طرف سے اس ریاست کے کئی علاقوں کے نام بدلنے کے اقدام نے تلخیوں کو مزید گہرا بنادیا تھا۔ جی ٹوئنٹی تقریبات میں شریک ہونے سے چین کے انکار کو اس پس منظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔پاکستان نے جی 20میں شامل اپنے دوست ممالک سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے ان سے سرینگر، جموں اور لیہہ میں ہونے والے اجلاسوں میں شریک نہ ہونے کی استدعا کی تھی ۔بھارت میں حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اجلاس میں چین، سعودی عرب، ترکیہ اور مصر کی عدم شرکت سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ بھارت کے وزیرِ مملکت جتیندر سنگھ نے کہا کہ چین کی عدم شرکت بھارت کا نہیں بلکہ خود چین کا نقصان ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ ممالک کی عدم شرکت سے اجلاس اپنی اہمیت کھو بیٹھا اور اس سے بھارت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔