سیا حت و تجارت اور انفراسٹرکچر کے تقاضے

وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے منظور کردہ 370 ارب مالیت کے گلگت بلتستان جامع ترقیاتی پیکیج میں شامل تاریخی استور ویلی روڈ کے سیکشن تےن پر کام کے آغاز کا باقائدہ افتتاح کردیا۔ استور ویلی روڈ عوام استور کا دیرینہ مطالبہ تھا جس کو وزیراعلی خالد خورشید نے اپنے پہلے ڈھائی سالوں میں ہی عملی جامہ پہنایا۔ یہ منصوبہ عوام کو بہتر سفری سہولیات کی فراہمی کیساتھ ضلع استور میں سیاحت اور تجارت کے ایک نئے دور کا آغاز کریگا۔ استور ویلی روڈ مستقبل میں شونٹر ٹنل منصوبے کی تکمیل کے بعد گلگت بلتستان کو بذریعہ مظفرآباد اسلام آباد سے منسلک کرےگا۔ یہ منصوبہ وزیراعلی خالد خورشید کے گلگت بلتستان کو متبادل تےن راستوں کے ذریعے اسلام آباد سے منسلک کرنے کے ویژن کا اہم حصہ ہے۔پچاس ارب مالیت کے وزیراعلی خالد خورشید کے دوسرے میگا منصوبے غذر ایکسپریس وے پر کام تیزی سے جاری ہے۔ استور ویلی روڈ بوبن شغرتھنگ منصوبے کے ساتھ گلگت، استور‘دیامر اور بلتستان ڈویژنوں کو ملانے کےلئے انتہائی اہم ہے۔کسی بھی معاشرے کی معاشی ترقی میں سماجی ڈھانچے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جس علاقے کا سماجی ڈھانچہ جتنا مضبوط اور جدید خطوط پر استوار ہو گا، وہ معاشی طور پر اتنی ہی تیزی سے ترقی کرے گا۔ ماضی میں پاکستان میں انفراسٹرکچر کی طرف توجہ نہ دینا ملک کی بدقسمتی تھی، ماسوائے ایک موٹروے کے، جو اسلام آباد سے لاہور تک بنی، کوئی دیگر بڑا منصوبہ شروع نہ کیا گیا۔ توانائی کے بحران کے خاتمے کی طرف بھی توجہ نہ دی گئی اور نہ ہی ملک میں بجلی اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ڈیم بنائے گئے۔انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری تو درکنا ر، پاکستان کے اپنے سرمایہ کار بھی دوسرے ممالک کا رخ کرنے لگے تھے اور پاکستانی معیشت سے غیر ملکی سرمایہ نکل کر دوسرے ممالک کا رخ کر رہا تھا۔ برآمدات نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھیں، درآمدات میں اضافے کی وجہ سے ملک کو بدترین مالی خسارے کا سامنا تھا۔ ڈیم اور توانائی کے منصوبے نہ لگنے کی وجہ سے ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بیس بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ عوام کا مقدر بن چکی تھی ۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سماجی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی اور ملک میں نئے ہائی ویز اور موٹر ویزکا آغاز کیا۔ منصوبہ کے تحت ساڑھے گیارہ بلین ڈالر کی خطیر رقم سٹرکوں ، ہائی ویز اور موٹرویز کی تعمیر کے لئے مختص کی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں سڑکوں کی تعمیر کا بڑا پروگرام شروع کیا گیا۔ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کے مطابق ملک میں ہائی ویز کا نیٹ ورک بارہ ہزارکلومیڑ تک محیط ہے۔حکام نے دیگر انفراسٹرکچر کی ترقی کے ساتھ ساتھ روڈ نیٹ ورک کی توسیع پر بھی خصوصی توجہ دی۔ جو لوگ ملک میں بننے والے موٹر ویز اور ہائی ویز پر تنقید کرتے رہے ہیں انہیں سٹرکوں اور موٹر ویز کی اہمیت کا اندازہ نہیں، وہ صرف سیاست کو ہی سامنے رکھتے ہیں اور ہر اچھے کام کو برے کام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے جدید دنیا کا مقابلہ کرنے اور معاشی طور پر مضبوط ملک بننے کے لئے ہمیں ملک کو جدید انفراسٹرکچر دینا ہوگا۔ سٹرکوں اور ہائی ویز کی تعمیر نے بلوچستان کو ایک نیا رنگ دیا ہے، قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہ صوبہ پسماندگی کاشکار تھا، لیکن اب ایسا نہیں رہے گا۔ سی پیک کے تحت بلوچستان میں سٹرکوں اور ہائی ویز مکمل ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ سے گوادر تک 560کلومیٹر ہائی وے مکمل کر دی گئی ہے اور کوئٹہ سے گوادر کا سفر جو چوبیس گھنٹوں میں بھی طے نہیں ہوتا تھا اب آٹھ گھنٹے کے سفر پر محیط ہے۔ گوادر میں دنیا کی جدید ترین اور گہرے پانیوں کی بندر گاہ فنکشنل ہوگئی ہے۔ چین سے گوادر بندر گاہ کی طرف بلا خوف و خطر قافلے رواں دواں ہیں، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بلوچستان میں یہ سب ممکن ہوسکے گا۔ سیاحت کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے روایت سے ہٹ کر سوچنے اور آگے کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ساحلی سیاحت، بیچ سیاحت، مینگروو ٹورازم، ہمالیہ کی سیاحت، ایڈونچر ٹورازم، وائلڈ لائف ٹورازم، ایکو ٹورازم، ہیریٹیج ٹورازم، روحانی سیاحت، کانفرنسوں کے ذریعے سیاحت اور سیاحت اور کھیل سیاحت اہمےت کی حامل ہےں ۔ سیاحت صرف ملک کے اعلی آمدنی والے گروہوں سے وابستہ ہوتی ہے ۔صدیوں سے سےاحت ثقافتی اور سماجی زندگی کا ایک حصہ رہی ہے اور لوگ اس وقت بھی سےاحت پر جاتے تھے جب ان کے پاس وسائل بھی دستیاب نہیں ہوتے تھے۔سہولیات میں اضافہ سیاحوں کے درمیان کشش میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔سہولیات میں اضافے کا براہ راست اثر سیاحوں کی تعداد پر پڑتا ہے اور بڑھتی ہوئی تعداد کا مطلب روزگار اور خود روزگار کے مزید مواقع ہیں۔بڑھتی ہوئی شہری سہولیات، اچھی ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی، اچھے ہوٹل اور ہسپتال، صاف صفائی اور بہترین انفراسٹرکچر کے ساتھ سیاحت کا شعبہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ ہر سیاحتی مقام کا اپنا ریونیو ماڈل ہونا چاہےے۔ دور دراز کے علاقے اب انفراسٹرکچر کی بہتری کی وجہ سے سیاحت کے نقشے پر آ رہے ہیں۔ےہاں ہوم اسٹے، چھوٹے ہوٹلوں اور ریستورانوں جیسے کاروبار کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے سیاحوں جن کے پاس زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی صلاحیت ہے، پروفائل بنانے اور انہیں ملک کی طرف راغب کرنے کے لیے خصوصی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ ریاست کو اس سوچ کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے اپنی سیاحتی پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔سیاحت کے شعبے کے بنیادی چیلنجز میں ملک میں پیشہ ور ٹورسٹ گائیڈز کی کمی ہے ‘ گائیڈز کے لیے مقامی تعلےمی اداروں میں سرٹیفکیٹ کورسز شروع کرنےکی بھی ضرورت ہے ۔ کسی خاص سیاحتی مقام پر کام کرنے والے گائیڈز کا بھی مخصوص لباس یا یونیفارم ہونا چاہیے تاکہ سیاح پہلی نظر میں انہیں پہچان جائیں۔ سیاحوں کا ذہن سوالات سے بھرا ہوتا ہے اور گائیڈ ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے بنیادی ڈھانچے اور سہولیات فراہم کرنا بھی اہم ہے ۔ ملک میں زراعت، رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ، انفراسٹرکچر اور ٹیکسٹائل میں جو صلاحیت ہے سیاحت میں بھی وہی صلاحیت موجود ہے۔نئی شاہراہوں کی تعمیر معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔اس سے پسماندہ علاقوں میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے ۔ مغربی روٹ کو دوسرے شہروں کے ساتھ سڑکوں کے ذریعے ملایا جارہا ہے۔ جہاں صنعتی زون بنیں گے اور ان پسماندہ علاقوں کے لاکھوں لوگوں کو روز گار کے مواقع میسر آئیں گے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت 57بلین ڈالرز انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن کو جدید طرز پر اپ گریڈکیا جا رہا ہے ۔اپ گریڈیشن کے بعد ٹرینوں کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور ٹرینوں کی فی گھنٹہ رفتار 160کلومیٹر تک پہنچ جائے گی جس سے مسافروں کی منزلیں آسان اور وقت میں بھی بچت ہوگی۔ مغربی روٹ کے ساتھ ایک نئی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی ہے جو سی پیک کے اگلے مراحل میں پا یہ تکمیل کو پہنچے گا۔ توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے بھرپور کوششیں جاری ہیں اور سی پیک کے تحت بجلی پیدا کرنے کے بڑے بڑے منصوبے آخری مراحل میں ہیں، ان منصوبوں پر سینتس ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ ملک میں معاشی ترقی اور سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے انفراسٹرکچر کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بہت ضروری ہے۔ ملک میں جس رفتار سے معاشی سرگرمیاں اور سماجی ڈھانچے کی تعمیر جاری ہے، وہ دن دور نہیں جب پاکستان ترقی یا فتہ قوموں کی صف میں اپنا مقام بنائے گااور دنیا کے ممالک کو جانے والے تمام تجارتی راستے پاکستان سے نکلیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پالیسیوں کے تسلسل میں رکاوٹ نہیں آنی چاہیے اور جمہوریت کو مضبوط تر ہونا چاہیے تاکہ معاشی ترقی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔انفراسٹرکچر ایک اصطلاحی معمار ، انجینئر ، اور شہری منصوبہ ساز اجتماعی استعمال کے لئے ضروری سہولیات ، خدمات اور تنظیمی ڈھانچے کی وضاحت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ انفراسٹرکچر کو کسی ایسی سہولت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے جس کی ہم توقع کرتے ہیں لیکن اس کے بارے میں نہیں سوچتے کیونکہ یہ ہمارے پس منظر میں کام کرتا ہے ، کسی کا دھیان نہیں۔ہم سب یہ سسٹم استعمال کرتے ہیں ، جن کو اکثر عوامی کام کہتے ہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے کام کریں گے ، لیکن ہم ان کے لئے قیمت ادا کرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔حالانکہ یوں انفراسٹرکچر کی ادائیگی میں مدد مل سکتی ہے۔ یہاں تک کہ موٹر بائیکس والے نوجوان بھی ہر گیلن پٹرول کے ساتھ انفراسٹرکچر کی ادائیگی میں مدد کرتے ہیں۔ فروخت کردہ موٹر ایندھن جیسے پٹرول ، ڈیزل ، گیسول کے ہر گیلن میں ایک ہائی وے صارف ٹیکس شامل کیا جاتا ہے۔ یہ رقم سڑکیں ، پلوں اور سرنگوں کی مرمت اور تبدیلی کے لئے ادائیگی کے لئے ہائی وے ٹرسٹ فنڈ کہلاتی ہے۔ریاست اور وفاقی حکومتوں دونوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اس بنیادی ڈھانچے کی ادائیگی میں مدد کے لیے کام کریں تاکہ انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو۔گلگت بلتستان تو سےاحت کا حب ہے‘ قدرت کے حسےن نظاروں کی ےہ سرزمےن معےشت کو چار چاند لگا سکتی ہے لےکن اس کے لےے ضروری ہے کہ سےاحت کے لےے درکار سہولےات کی فراہمی کو ممکن بنانے میں کوئی دقےقہ فروگزاشت نہ رکھا جائے۔