مذاکرات ہی واحد حل ہیں

حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے مذاکرات کیلئے کی گئی پیشکش مسترد کردی۔ لاہور میں جناح ہاﺅس کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر سعد رفیق کا کہنا تھا کہ جناح ہاﺅس میں بہت دلخراش واقعہ پیش آیا بلکہ یہ سانحہ ہے، جناح ہاﺅس میں قائد اعظم کی بہت سی چیزیں موجود تھیں، ظالموں نے جناح ہاﺅس میں ہر چیز کوجلا دیاگیا، کوئی شرم نہیں کی گئی، جناح ہاﺅس کے تقدس کوپامال کیاگیا۔ ہمارا اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف رہا، کبھی فوجی تنصیب کے سامنے احتجاج کا خیال بھی نہیں آیا، مشرف دور میں روز احتجاج کرتے تھے مگر کنٹونمنٹس کے تقدس کا خیال رکھتے تھے، نومئی کو پی ٹی آئی کی قیادت جناح ہاﺅس کے باہر اور ٹکٹ ہولڈرز اندر تھے، جناح ہاﺅس میں آگ پیٹرول یا ماچس سے نہیں بلکہ کیمیکل سے لگائی گئی تھی۔ جو لوگ اپنی فوج کو ٹارگٹ کریں ان سے بدبخت اور بدقسمت کوئی نہیں، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر پر حملہ سیاست نہیں بلکہ دہشت گردوں کا کام ہے، ہماری کوشش ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا ملے اور گناہ گاہ کو چھوڑا نہ جائے۔ بات کرنے کا ماحول اور ایجنڈا ہوتا ہے لیکن مذاکرات کا یہ ماحول نہیں ہے، عمران خان نے جو کمیٹی بنائی اس سے کوئی مذاکرات نہیں کرے گا۔درےں اثناءوزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ عمران خان سے مذاکرات اب صرف اس وقت ہوسکتے ہیں جب وہ قوم سے معافی مانگیں، اپنی غلطی مانیں اور وعدہ کریں کہ آئندہ ایسا کچھ نہیں کریں گے جیسا نو مئی کو ہوا۔حکومت نے پی ٹی آئی سے خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات کیے، الیکشن کی تاریخ کے علاوہ تمام باتوں پر پی ٹی آئی کو راضی کرلیا لیکن پھر انہوں نے نو مئی کردیا۔گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے سات رکنی کمیٹی کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد قیصر،حلیم عادل شیخ، عون عباس، مراد سعید اور حماد اظہر مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ےہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی عمران خان سے کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا تھا۔سےاسی جماعتوں میں اختلافات کوئی نئی بات نہےں ہے لےکن سےاست میں مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہےں ہوتا کےونکہ معاملات آخر کار مذاکرات ہی سے حل ہوتے ہےں۔اگر تحرےک انصاف اپنے دور میں مذاکرات سے انکار کرتی رہی ہے تو اس کا ہرگز ےہ مطلب نہےں کہ اب بھی مذاکرات کے دروازے بند کر دےے جائےں جو لوگ سانحہ نو مئی میں ملوث ہےں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہےے لےکن جو ملوث نہےں ان سے مذاکرات جاری رکھے جائےں تاکہ ملک کسی بہتر سمت میں رواں ہو سکے۔ جمہوری دور میں مذا کرات کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا کیونکہ مذاکرات جمہوریت کا حسن بھی ہیں اور جمہوری روایات کو بچانے اور زندہ رکھنے کا ایک شاندار راستہ بھی ۔جمہوری معاشروں میں اختلافِ رائے ایک عام سی بات ہے۔اپوزیشن اور حکومت میں اختلافِ رائے ہی دونوں کے وجود کی ضمانت ہوتا ہے ۔اگر اپوزیشن حکومتی موقف کی حامی ہوجائے یا ذاتی مفادات کی خاطر اس سے سمجھوتہ کرکے فرینڈ لی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے لگ جائے تو پھر اس کا وجود،وقار اوراحترام خطرے میں پڑ جاتے ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن کایک جا ہو جانا عوام کی بد قسمتی تصور کی جاتی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن ہمیشہ حکومت کے اقدامات کو چیلنج کرتی رہتی ہے اور اس کے عزائم کو بے نقاب کر کے عوام کو حقائق سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔ بعض اوقات کچھ اچھے کام بھی اپوزیشن کی تنقید کا نشانہ بن جاتے ہیں کیونکہ اس کے پیچھے حکومتی اقدامات کار فرما ہوتے ہےں۔حکومت کی ایسے ہی اقدامات کو بے نقاب کرنا اپوزیشن کا فرضِ اولین ہو تا ہے اور اسے یہ فرض ہر حال میں ادا کرنا ہو تا ہے۔جمہوری روایات کو جاری و ساری رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکومتی اقدامات، فیصلوں اور ترجیحات کو تلوار کی دھار پر رکھا جائے تاکہ حکومت عوام دشمن فیصلے کرنے سے اجتناب کرتی رہے۔دنیا کے سارے جمہوریت نواز حلقے اس طریقہ کار پر متفق ہیں اور اپنے اپنے ممالک میں اس کا اظہار کرتے ہیں ۔اب اگر کوئی لمحہ ایسا آجائے کہ حکومت اور اپوزیشن میں کسی مسئلے پر کوئی ڈیڈ لاک یا تنازعہ کھڑا ہو جائے تو مذاکرات سے ہی اس مسئلے کے حل کی راہ نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگراس وقت حکومت اور اپو زیشن اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹ جائیں تو پھر کوئی تیسری قوت میدان میں کود پڑتی ہے اور یوں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔مذاکرات میں دونوں فریق اپنا اپنا موقف رکھتے ہیں اور جس کا موقف زیادہ مضبوط ،مدلل اور باوزن ہوتا ہے اسے مان کر ہنگامہ آرائی سے اجتناب کیا جا تا ہے ۔عالمی سیاست میں مذاکرات کی اہمیت سے ہر شخص بخوبی آگاہ ہے‘ سیاستدانوں کے پاس مذا کرات کی قوت ہی ان کا سب سے مضبوط ہتھیار ہوتی ہے ۔ہم جانتے ہےں کہ بھٹو دور میں پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی کے نام پر تحریک کا آغا ز کیا جو دن بدن متشدد ہو تی چلی گئی۔اپوزیشن راہنماﺅں نے ذوالفقار علی بھٹو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کر دیا۔قومی اتحاد کسی بھی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کی جان بخشی کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔اپوزیشن نے بھٹو مخالف جذبات کو اس حد تک بھڑکایا تھا کہ وہ تحریک گھےراﺅ جلاﺅ کی تحریک میں بدل گئی ۔ذوالفقار علی بھٹو کی ذات پر ایسے رکیک حملے کئے گئے جو کسی بھی لحاظ سے سیاسی دائرے میں نہیں آتے تھے۔ایک جنگ تھی جو دو طبقوں کے درمیان تھی اور اس میں ایک طبقے کی ہار یقینی تھی ۔ذوالفقار علی بھٹو اب بھی پا کستان کے مقبول ترین راہنما تھے لیکن یہ کریڈٹ اپوزیشن کو دیا جانا ضروری ہے کہ انہوں نے اتنے طلسماتی اور سحر انگیز راہنما کے خلاف عوام کو بر انگیختہ کر دیا۔دونوں جماعتیں ایسی انتہاﺅں پر کھڑی تھیں جہاں پر ان کے درمیان مذاکرات اور بات چیت کے سارے امکانات معدوم ہو چکے تھے۔پاکستان قومی اتحاد کے جنرل سیکرٹری اور تحریک کے انتہائی موثر راہنما رفیق باجوہ نے اس پر تشدد ماحول میں امن کی ممکنہ راہ کی تلاش کی خاطر حکومت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اسے قومی اتحادسے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیااور اس کے بعد انہیں انتہائی رسوا کن طریقے سے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بے دخل کر دیا گیاجو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھا کہ اپوزیشن صرف حکومت کی برخاستگی چاہتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن کے عزائم اور عالمی سازشوں سے بخوبی آگاہ تھے لہذا انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا ۔ذوالفقار علی بھٹو کے بہت سے قریبی دوست مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے مخالف تھے کیونکہ سیاست پر ان کی نظر ذوالفقار علی بھٹو جتنی گہری اور وسیع نہیں تھی۔پاکستان قومی اتحاد نے اپنی حکومت مخالف تحریک میں صرف ذوالفقار علی بھٹو کی ذات کو نشانہ بنایا تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ پی پی پی صرف ذوالفقار علی بھٹو کی ذات کا ہی نام ہے لہذا ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد پی پی پی دفاعی پوزیشن میں چلی جائیگی اور پھر ہماری جیت کو کوئی روک نہیں سکے گا ۔ پاکستان قومی اتحاد میں بھی مذاکرات کے نام پر سخت اختلافات پائے جاتے تھے کیونکہ ایک گروہ کو جس کی قیادت ائر مارشل اصغر خان کر رہے تھے کو سخت خد شہ تھا کہ مذاکرات سے ذوالفقار علی بھٹو زندہ بچ کر نکل جائیگا لہذا وہ مذاکرات کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے تھے ۔وہ اسی تحریک کے زور سے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے تھے کیونکہ اس سے بہتر موقع انہیں شائد دوبارہ نہ ملتا لیکن دوسرے گروہ نے ان کی رائے کو غیر اہم سمجھ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کیاکیونکہ جمہوری معاشروں کی پہچان مذاکرات ہی ہوا کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ پاکستان کے عوام ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لہذا انہیں انتخابات میں شکست دینا اپوزیشن کے بس میں نہیں ہو گا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپوزیشن کے سارے مطالبات مان کر دوبارہ انتخابات کی راہ ہموار کر دی تھی مگر جنرل ضیاا لحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔مشرف کے دور میں بھی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ جنرل پرویز مشرف کو علم تھا کہ ان کی آمد سے صورتحال ان کے حق میں نہےں رہے گی ۔جنرل پرویز مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی آمد سے اپنا اقتدار ہوا میں تحلیل ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا لہذا انہیں بھی واپسی کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ انتخابات سر پر تھے اور پی پی پی ان انتخابات میں بھر پور حصہ لینا چاہتی تھی جس کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اشد ضروری تھی لیکن جنرل پرویز مشرف محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں تھا یہی وہ مقام تھا جہاں جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان مذا کرات کا ڈول ڈالا گیا۔ان مذاکرات کے دو دور ابوظہبی میں ہوئے جن میں سارے امور طے پائے گئے۔اب بھی جس صورتحال سے ملک دوچار ہے اس کا واحد حل مذاکرات ہی ہےں جن سے راہ فرار اختےار کرنا خواہ اس کی وجوہ کتنی ہی ٹھوس کےوں نہ ہوں مناسب نہےں۔