گلگت بلتستان کے علاقے استور میں برفانی تودہ گرنے سے دس افراد جاں بحق ہوگئے۔مقامی حکام کے مطابق گلگت بلتستان کے ضلع استورمیں شونٹر ٹاپ پر برفانی تودہ گرنے کے باعث دس افراد زخمی بھی ہوئے۔ جائے حادثہ کے لیے ریسکیو ٹیمز اور ایمبولینسز روانہ کردی گئی ہیں۔ملبے میں دبے افراد کے لیے استور میں کنٹرول روم بھی قائم کردیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جاں بحق اور زخمی افراد خانہ بدوش تھے۔ ملبے تلے دبے افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔چیف سےکرٹری محی الدین وانی کے مطابق واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد استور ہیڈ کوارٹر سے پولیس اور ریسکیو ٹیموں کو جائے حادثہ روانہ کیا گیا جہاں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ڈی آئی جی پولیس طفیل احمد نے بتایا کہ آزاد کشمیر کے راستے خانہ بدوش افراد استور کی طرف آرہے تھے کہ شونٹر ٹاپ پر برفانی تودہ قافلے پر آگرا ۔علاقے میں ریسکیو آپریشن جاری ہے جبکہ ضلع استور کے اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔واقعے میں بچ جانے والی خاتون کے مطابق ٹاپ سے نیچے اترتے ہوئے قافلے پر برفانی تودہ گرا۔گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے متاثرین کی مدد کے لیے امدادی سامان روانہ کردیا گیا ہے۔گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری محی الدین وانی نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں امدادی کام جاری ہے۔وادیِ شونٹر میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن تیزی سے جاری ہے۔ پاک فوج کی امدادی اور ریسکیو ٹیمیں سول انتظامیہ کی مدد کررہی ہیں۔ برفانی تودے سے اب تک آٹھ افراد کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 13 زخمی افراد کو بحفاظت ڈی ایچ کیو اسپتال استور پہنچا دیا گیا۔نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ریسکیو کارروائیوں کے بعد 11 افراد کو زندہ نکالا جاچکا ہے۔ جاں بحق اور زخمی لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کی تصدیق کی جا رہی ہے جبکہ این ڈی ایم اے نے امدادی کاموں کیلئے پاک آرمی کے دو ہیلی کاپٹرز دستیاب کر دیے ہیں۔ برفانی تودہ گرنے کے بعد امدادی کارروائیوں کے حوالے سے این ڈی ایم اے مقامی انتظامیہ ، جی بی ڈی ایم اے ، ریسکیو 1122 کیساتھ رابطے میں ہے۔ فورس کمانڈر شمالی علاقہ جات کو ریسکیو و ریکوری کے لیے متحرک کر دیا گیا ہے۔وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے انتظامیہ، ریسکیو 1122 اور محکمہ صحت کو تودے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لانے کا حکم دے دیا۔خالد خورشید نے سیکرٹری داخلہ، ڈی جی جی بی ڈی ایم اے، و دیگر اعلی حکام کو فوری طور استور پہنچنے اور کنٹرول روم قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعلی گلگت بلتستان بھی جلد متاثرہ علاقے کا دورہ کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ تودے تلے دبے افراد کے سرچ اینڈ ریسکیو کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کریں گے۔یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دوچار ہے۔پاکستان کے شمالی علاقے بطور خطہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہیں۔ گلگت بلتستان میں قطبی علاقوں سے باہر چھوٹے اور بڑے گلیشیئرز کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔گزشتہ سال گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، 2022 میں 30 جون سے 26 اگست کے درمیان گلگت بلتستان میں کم از کم 110 سیلابی واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں ایک درجن سے زائد افراد مارے گئے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 4 ارب روپے سے زائد مالیت کی نجی املاک بھی تباہ ہوئیں۔ 418 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے اور 257 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔ 22 پاور ہاسز تباہ ہوئے۔ اور 78 پینے کے پانی کی سپلائی سکیمیں اور 500 آبپاشی کے واٹر چینلز کو نقصان پہنچا۔ چھپن پل اور 49 سڑکیں بہہ گئیں۔برفانی تودے قدرتی مظاہر ہیں جو اس وقت پیش آتے ہیں جب برف کا ایک بہت بڑا حصہ ٹوٹ جاتا ہے اور پہاڑوں اور کھڑی خطوں کی ڈھلوانوں کو نیچے کھسک جاتا ہے۔پہاڑی علاقوں میں برف کے جمع ہونے کے نتیجے میں برفانی تودے پائے جاتے ہیں جہاں پہاڑوں کی ڈھلوان اور جسمانی اور موسمیاتی عوامل کی ایک سیریز کا ایک ساتھ مل کر برف کی بڑی مقدار میں نقل و حرکت کو جنم دیتے ہیں۔برفانی تودہ ایک سطحی نوعیت کا ہوسکتا ہے جب صرف برف کے ڈھکن کا بیرونی حصہ متحرک ہو ، یا نیچے ، جب نہ صرف برف کی پرت کو متحرک کیا جاتا ہو ، بلکہ اس کے باوجود ، اس کی نقل و حرکت میں ، ڈھلان کے ذیلی حصے کو ختم کردیتی ہے اور یہ لیتا ہے اس کے ساتھ ڈھلوان کے پودوں کا احاطہ ہوتا ہے۔برفانی تودے مندرجہ ذےل وجوہ کی بنا پر تشکےل پاتے ہےں برف کی تہوں کے مابین ہم آہنگی کی کمی کی وجہ سے۔زیادہ وزن کی وجہ سے ، جب برف کی مقدار کسی سطح سے زیادہ ہوتی ہے تو وہ مدد کرسکتا ہے۔بارش کے ذریعہ ، جب ایک حالیہ پرت گھس جاتی ہے ، اور پانی کے وزن کی وجہ سے یہ پھسل جاتی ہے۔ماحولیاتی درجہ حرارت میں بدلاﺅ کی وجہ سے جو برف کے ہم آہنگی کو متاثر کرسکتا ہے۔مٹی کے حالات کی وجہ سے ، خاص طور پر جب وہ یہ ہوتے ہیں تو ، اس کی سطح پر مٹی ، ہموار ، مرطوب یا منجمد مٹی پر مواد پھسلنے کے لئے موزوں ہے۔ان کی وسعت پر منحصر ہے ، برفانی تودوں کو کمزور سے لے کر بہت مضبوط تک کے پیمانے پر درجہ بندی کیا جاسکتا ہے ۔برفانی تودے گرنے والے متاثرین اور نقصانات پر انحصار کرتے ہوئے ، اسے قدرتی آفت بھی سمجھا جاسکتا ہے۔برفانی تودے عام طور پر کسی بھی طرح کے بڑے پیمانے پر مادہ کو بھی نامزد کرسکتے ہیں جو کسی ڈھلوان سے الگ ہوجاتا ہے۔ڈھیلی برف کا برفانی تودے کی ایک قسم ہے جو شدید برف باری کے بعد پیش آتی ہے۔ 25 سینٹی میٹر سے زیادہ موٹی جمع ہونے والی تازہ برف پھسلنے کے لئے موزوں ہے ، خاص طور پر جب یہ ہموار برف کے بڑے پیمانے پر پڑتا ہے۔ اس طرح کا برفانی تودہ اپنے راستے میں زیادہ سے زیادہ برف لے جاتا ہے۔پلیٹ برفانی تودہ اس وقت پیش آتا ہے جب ایک کمپیکٹ برف کی سطح ٹوٹ جاتی ہے اور ڈھلوان سے نیچے پھسل جاتی ہے۔ یہ اپنے گردونواح سے برف کے ٹکڑے کی طرح نظر آتا ہے۔ یہ کافی بار بار برفانی تودے کی قسم ہے اور اس میں بہت زیادہ خطرہ ہیں۔گیلے برفانی تودے اس موسم کی خاص بات ہے جب موسم سرما کے اختتام اور موسم بہار کے آغاز تک درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ ان کی معطلی سست اور کم ہوتی ہے۔کچھ عرصہ قبل ےہ کہا گےا تھا کہ انٹارکٹیکا کے منجمد کنارے سے برف کا ایک بہت بڑا ٹکڑا الگ ہو کر ویڈیل کے سمندری علاقے میں آ گیا جس سے دنیا کے ایک سب سے بڑے آئس برگ یعنی برفانی تودے کا جنم ہوا ہے۔اس برفانی تودے کو، اے 76 کا نام دیا گیا ہے جس کا سائز سطح سمند پر تقریبا چار ہزار 320 مربع کلو میٹر بتایا گیا ہے۔ اس کی لمبائی 175 کلو میٹر جبکہ چوڑائی 25 کلومیٹر کے قریب ہے۔ اس طول عرض کی بنا پر برف کا یہ تودہ اسپین کے معروف جزیرے میجروکا سے بھی بڑا ہے۔اے 76،رون آئس شیلف سے الگ ہوا ہے۔ سب سے پہلے برطانوی انٹارکیٹک سروے نے اس کا پتہ لگایا تھا۔ برف سے متعلق امریکی ادارے نیشنل آئس سینٹر نے بھی خلائی ادارے کی مدد سے لی جانے والی تصاویر کی بنیاد پر اس کی تصدیق کی ہے۔ویڈیل کے سمندر میں ہی اے 23 اے نامی ایک برفانی تودہ پہلے سے ہی تیر رہا ہے تاہم برف کا یہ نیا ٹکڑا اس سے کہیں بڑا ہے۔ اے 23اے حجم کے حساب سے تقریبا تین ہزار 380 کلومیٹر پر مشتمل ہے جبکہ اس نئے برفانی تودے کا حجم سوا چار ہزار مربع کلو میٹر سے بھی زیادہ ہے۔اس سمندری علاقے میں متعدد بہت بڑی تیرتی ہوئی برف کی چادروں میں سے رون آئس شیلف ایک ہے جو بر اعظم انٹارکٹیکا کی سرزمین سے ملتی ہیں اور آس پاس کے سمندروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس علاقے میں بڑے برفانی ٹکڑوں کا اپنی شیلف سے الگ ہوتے رہنما عموما قدرتی عمل کا حصہ ہے تاہم بعض شیلف کے اندر گزشتہ چند برسوں کے دوران اس طرح کی ٹوٹ پھوٹ میں کافی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ برف کے اعداو شمارسے متعلق امریکی ادارے نیشنل اسنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ موسم میں ہونے والی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ زلزلے‘ سیلاب‘ لینڈ سلائیڈنگ‘ برفانی تودے‘ خشک سالی ‘موسمی تبدیلی‘ سمندری طوفان اور انسانی ساختہ حادثات و آفات سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ اس ضمن میں پےشگی احتےاطی تدابےر اختےار کی جائےں۔ قدرتی آفات انسانی بس میں نہیں تاہم احتیاطی تدابیر سے نقصانات میں ممکنہ حد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہےں کہ اےسی ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لےے حکام ہمہ وقت خود کو تےار رکھےں اور متعلقہ اداروں کو اس ضمن میں تمام سہولےات اور وسائل فراہم کےے جائےں۔
