توہین پارلیمنٹ کا قانون

قومی اسمبلی نے متفقہ رائے سے توہینِ پارلیمنٹ بل منظور کر لیا ہے جس کے تحت کسی رکن، ایوان یا کمیٹی کا استحقاق مجروح کرنے والا شخص سزا کا مرتکب ہوگا۔منگل کو سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاق رانا محمد قاسم نون نے توہین پارلیمنٹ بل 2023  پیش کیا۔توہین پارلیمنٹ پر چھ ماہ تک کی قید یا ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔پارلیمنٹ کو کوئی ریکارڈ یا ثبوت دینے سے انکار کرنے، غلط بیانی کرنے یا بیان دینے سے روکنے کے لیے اثر و رسوخ یا طاقت کا استعمال کرنے والے پر بھی توہین پارلیمنٹ عائد ہوگی۔بل کے متن کے مطابق کمیٹی یا ایوان کے سامنے جعلی دستاویزات جمع کرانے والا بھی توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہوگا۔توہین پارلیمنٹ ایکٹ منظور ہونے کے تیس دن کے اندر سپیکر توہین پارلیمنٹ کمیٹی تشکیل دیں گے جو 24 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے برابر ارکان لیے جائیں گے۔کمیٹی میں چودہ ارکان کا تعلق حکومت اور دس کا تعلق اپوزیشن سے ہوگا۔ سیکرٹری قومی اسمبلی توہین پارلیمنٹ کمیٹی کے سیکرٹری ہوں گے اور کمیٹی کثرت رائے سے فیصلے کرے گی۔کمیٹی کی سفارش پر ایوان کو توہین پارلیمنٹ کے مرتکب فرد کو سزا سنانے کا اختیار ہوگا۔آئین کے مطابق کمیٹی ہر ایک کو صفائی کا پورا موقع دینے کی پابند ہوگی جبکہ کارروائی ان کیمرا کرنے کا اختیار بھی کمیٹی کو حاصل ہوگا۔کمیٹی کو کسی بھی شخص کی حاضری یقینی بنانے کے لیے سمن جاری کرنے کا اختیار ہوگا۔اگر کسی شخص کو براہِ راست سمن موصول نہ کروائے جا سکے تو اس کے لیے متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔جو شخص کمیٹی کے بلانے پر بھی پیش نہیں ہوگا چیئرمین کمیٹی اس کے وارنٹ جاری کر کے پولیس کے ذریعے حاضری یقینی بنانے میں با اختیار ہوں گے۔وارنٹ جاری کرنے سے پہلے سپیکر یا چیئرمین سینیٹ سے منظوری لینا ضروری ہوگی۔اگر کوئی ادارہ دستاویزات فراہم نہیں کر سکتا تو اس کے سربراہ کو کمیٹی کو مطمئن کرنا ہوگا کہ ایسا کرنے سے ملکی دفاع و سلامتی بیرونی تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔توہین پارلیمنٹ کے مرتکب شخص کے خلاف تحریک سینیٹ یا قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی، چیئرمین سینیٹ یا سپیکر معاملہ توہین پارلیمنٹ کمیٹی کو بھجوائیں گے۔ایوان کی جانب سے سنائی گئی سزا پر متعلقہ علاقے کا جوڈیشل مجسٹریٹ عمل درآمد کا پابند ہوگا۔توہین پارلیمنٹ ثابت ہونے پر 6 ماہ قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں پارلیمنٹ کی توہین کے قوانین ہوتے ہیں، ان قوانین کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پارلیمانی کمیٹیوں کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے، پارلیمنٹ کی توہین کے قانون کو توہین عدالت کے قانون کی طرح دیکھا جارہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، توہین پارلیمنٹ کے قانون کیلئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں تھی۔وفاقی وزیرداخلہ کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ محترم اور ملک کا سپریم ادارہ ہے، جس کی عزت ہونی چاہیے مگر ایسا نہیں ہورہا ، مسلم لیگ نون کی مرکزی رہنما مریم نوازکا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ آئین بنانے کا اختیار رکھتی ہے مگر ملک میں جو بحران پیدا ہوا ہے وہ عدلیہ کی طرف سے آئین ری رائٹ کرنے کا نتیجہ ہے۔وزیر داخلہ کے مطابق پارلیمنٹ محترم ہے مگر ایسا نہیں ہے اور ملک کی پارلیمنٹ کو بھی پست کرنے میں خود ارکان پارلیمنٹ کا بڑا کردار ہے جو خود پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے اور پارلیمنٹ سے غیرحاضر رہتے ہیں،اور قومی اسمبلی میں خالی نشستیں ان کا انتظار کرتی رہتی ہیں اور حد یہ ہے کہ 342 ارکان قومی اسمبلی کے ایوان میں ایک چھوٹا سا کورم بھی پورا نہیں ہوتا مگر اجلاس جاری رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسپیکرکی کوشش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد حکومت کی مرضی کی قانون سازی کر لی جائے اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے مقابلے میں قومی اسمبلی میں کورم کا مسئلہ زیادہ ہوتا ہے۔صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر ارکان سے حاضری یقینی بنانے اور وقت کی پابندی کی درخواستیں کرتے رہتے ہیں۔ اسمبلیوں میں اہم اجلاسوں کے موقع پر بھی ارکان وقت پر نہیں آتے اور اجلاس شروع کرنے کے لیے گھنٹوں ارکان کا انتظار کیا جاتا ہے۔ارکان پارلیمنٹ اجلاسوں میں شرکت کے لیے اسلام آباد تو آتے ہیں ۔ اسمبلی ہاسٹلز میں رہتے ہیں مگر قریب ہی واقعہ قومی اسمبلی کے ایوان میں نہیں آتے بلکہ آنے کے بجائے ان کی منزل وزیروں اور سیکرٹریوں کے دفاتر ہوتے ہیں وہ گھروں سے نکل کر قومی اسمبلی میں صرف حاضری لگانے آتے ہیں اور کیفے ٹیریا میں دیگر ارکان سے گپ شپ کرکے کھا پی کر نکل جاتے ہیں اور ایوان مں آنا گوارا نہیں کرتے۔ارکان پارلیمنٹ کو حکومت نے پارلیمنٹ کے قریب ہی بہترین رہائش کی سہولت دے رکھی ہے ، جن کا کرایہ زیادہ نہیں ہوتا اور بعض ارکان باقاعدگی سے یہ بھی ادا نہیں کرتے ہیں اور انہیں ادائیگی کرنے کے لیے نوٹس جاری کرنا پڑتے ہیں۔پارلیمنٹ میں غیر حاضری میں وزرا کا کردار غیر ذمے دارانہ ہے وہ خود پارلیمنٹ نہیں آتے تو ارکان کو اپنے محکموں سے متعلق سوالات کا کیا جواب دیں گے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک وزیر بھی نہیں ہوتا۔ وزرا ہی کیا وزیراعظم کا کردار بھی پارلیمنٹ میں غیر حاضری کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ اجلاس میں وزیراعظم آتے ہیں تو ارکان بھی آتے ہیں تاکہ وزیراعظم کی نظروں میں آنے اور ملنے کا موقع ملے۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہوتا ہے اور بعد میں اسی اسمبلی کو نظر انداز کرے گا تو پارلیمنٹ محترم کیسے قرار دی جائے گی۔آئین کے مطابق پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے جو نام کی حد تک ہے مگر حقیقی طور پر سپریم بالاتر اور عدلیہ ہے، ارکان پارلیمنٹ ایوان میں صرف تقریر کرنے آتے ہیں، ورنہ بالاتروں کے ذریعے پارلیمنٹ بھجوائے جاتے ہیں،ارکان پارلیمنٹ ہی کی وجہ سے پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ہوئی ہے اور پارلیمانی اختیارات عدلیہ نے استعمال کیے اور آئین کو ری رائٹ کیا، ہرایک نے من مانی کی تو پارلیمنٹ کا احترام اورسپریم ہونا بہت سے سوالات اٹھاتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ایک سماعت کے دوران کہنا تھاکہ ہم پارلیمنٹ کی عزت کرتے ہیں۔قبل ازیں پارلیمنٹ سے خطاب میں وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ آئین کی بات نہ مان کر سپریم کورٹ نے توہین پارلیمنٹ کی ہے۔ سپریم کورٹ میں اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلہ ثابت کر کے ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے، جسے ہم کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین میں نوے دن کے حد کی شق کوکس نے توڑا، ہم نے نہیں کسی اور نے توڑا اور اس کا سلسلہ پنجاب سے ہی شروع ہوا، استعفے منظوری کے بعد بھی نوے روز میں الیکشن ہونا تھا۔سپریم کورٹ میں اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلہ ثابت کر کے ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے، جسے ہم کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ سپریم کورٹ کا کام یہ نہیں کہ آئین میں تبدیلیاں لائے، ججز کو پارلیمنٹ کے اراکین اور وزیراعظم کو بھی عزت دینی ہوگی کیونکہ ہم بھی انہیں عزت دیتے ہیں۔چیئرمین پی پی نے واضح کیا کہ پیپلزپارٹی نے 1973 کا آئین دلایا اور پیپلز پارٹی وہی جماعت ہے جس نے 18ویں آئینی ترمیم لائی، ہم آئین کی کسی صورت بھی خلاف ورزی نہیں کرسکتے، ججز سے استدعا ہے کہ وہ بھی پورے آئین کا مطالعہ کریں ۔ملک میں چند عناصر کی ضد کی وجہ سے پارلیمان کی توہین کی جارہی ہے، یہ کیسے لکھ سکتے ہے پارلیمان کو نظر کرے اور اقلیتی فیصلے کو مانا جائے، ہمیں پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی آئین کی خلاف ورزی کا نہیں سوچا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کوئی ارادہ آئین توڑنے پارلیمان کی بات نہ ماننے کا حکم کیسے دے سکتا ہے۔آئین میں تبدیلی کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہمیں نظر آ رہا ہے اس لڑائی میں خطرہ ہی خطرہ ہے، پاکستان کے عوام، جمہوریت اور معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں راضی ہیں کہ ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہوں۔ عدلیہ اپنی حد میں آئے اور پارلیمان کو بھی کام کرنے دے۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ ایک عمارت کا نام ہے اور اس میں موجود پارلیمنٹیرینز اپنے کردار سے اس کی عزت اوپر یا نیچے لے کر جاتے ہیں۔پارلیمان کو پارلیمنٹیرینز نے ہی تباہ کیا کیونکہ یہ پارلیمان جو ٹیکس چور ہے، جسے تین سو ارب روپے کا جواب دینا ہے،عمران خان نے  لاہور میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب میں پارلیمان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھاکہ وہ ایسی پارلیمان پر لعنت بھیجتے ہیں جو ایک مجرم کو پارٹی سربراہ بنائے جبکہ شیخ رشید احمد نے پارلیمان پر تنقید کرتے ہوئے اپنے استعفے کا اعلان کیا تھا۔بہر حال ہم سمجھتے ہیں کہ تمام اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے تاکہ شکایات پیدا نہ ہوں۔