ملکی صورتحال دن بدن تبدےل ہوتی جا رہی ہے‘بے ےقےنی کے بادل چھائے ہوئے ہےں‘کچھ سجھائی نہےں دےتا کہ حالات کس جانب جا رہے ہےں۔پارلےمنٹ اور عدلےہ میں لڑائی تےز ہوتی جا رہی ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک منظور کرلی گئی۔اجلاس میں عدلیہ کی جانب سے عمران خان کی ضمانت اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کی جانب سے قومی اداروں و املاک کے ساتھ ساتھ حساس تنصیبات پر حملے کی شدید مذمت کی گئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک قومی اسمبلی میں منظور کر لی گئی۔یہ تحریک پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ نے پیش کی جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔کمےٹی سپریم کورٹ کے ججوں کے رویوں کا جائزہ لینے کے بعد ریفرنس تیار کرکے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کرے گی۔دوران اجلاس ملک میں انتشار پھیلانے اور سرکاری و فوجی تنصیبات پر حملوں کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔قرارداد میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے دفاعی اداروں کے خلاف غداری اور بے بنیاد الزامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ سیاسی جماعت اور رہنماﺅں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔اس حوالے سے کہا گیا کہ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی پر شرپسند عناصر کو سزا دی جائے اور شرپسند عناصر کا مستقبل میں قلع قمع کرنے کی قانون سازی کی جائے۔ ایوان اپنی بہادر اور جری افواج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور دفاع پاکستان میں بھرپور حمایت اور شانہ بشانہ ساتھ کھڑا رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ میں ایک گروہ نے سیاست کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے، وہ عدل نہیں کر رہے، سیاست کر رہے ہیں، ان کے فیصلوں کی بنیاد سیاسی حمایت پر رکھی گئی ہے، عدلیہ کی روایات اور آئین میں درج ان کی حدود کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرے، آئین و قانون ہمیں جو اختیارات دیتا ہے ان کا استعمال کیا جائے اور اسی عدلیہ نے ایک شخص کے مفادات کے تحفظ کے لیے آئین کے آرٹیکل 63 اے کو ری رائٹ کیا ہے اور اس کے بعد پنجاب میں منتخب حکومت کو اسی بینچ نے گھر بھیج دیا۔وزیر دفاع نے کہا کہ پہلے عدالت نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ڈالا گیا ووٹ گنا نہیں جائے اور حمزہ شہباز کے حق میں دیے گئے ووٹ کو گنتی سے نکال دیا اور پندرہ دن بعد پرویز الہی کے حق میں دس ووٹ گن لیے۔ ہمارے سیاست دانوں اور اس پارلیمنٹ کے اختلافات رہے ہیں، فوجی حکمرانی سے اختلافات رہے ہیں لیکن آج جب فوج آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہی ہے تو ہماری تاریخ کے وہ روشن باب جن پر ہمیں فخر ہے، ان یادگاروں کو مسمار کردیا۔جے یو آئی کے رہنما اور وزیر مواصلات مولانا اسعد الرحمن نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ روز قبل تحریک انصاف کے چیئرمین کی گرفتاری ہوئی، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے گرفتاری پر ایکشن لے کر آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بلایا اور ان سے استفسار کیا کہ گرفتاری قانونی ہے یا غیرقانونی ہے اور بالآخر انہوں نے فیصلہ دیا کہ گرفتاری قانونا جائز ہے۔ اگلے روز سپریم کورٹ نے عمران خان کو بلایا اور اس کے لیے سہولت کاری کا بندوبست کیا، اس گرفتاری سے سپریم کورٹ میں حاضر ہونے تک جب دو دن ملکی املاک اور حساس ترین عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا تو قوم کے اندر بھی غم و غصہ تھا کہ کیا کوئی اس حد تک بھی انتقامی سیاست کر سکتا ہے کہ وہ ملک کے دفاعی اداروں کے افسران کے گھروں اور مرکزی دفاتر کو نشانہ بنائیں۔جب یہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دبا کو رد کر رہی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی کہ سپریم کورٹ آئین ری رائٹ نہیں کر سکتی، معاملہ ثاقب نثار سے خراب ہوا، ملکی معیشت اور سیاست کو تباہ کیا گیا لیکن جب تمام سیاسی قوتوں کو اس بات کا ادراک ہوا کہ یہ شخص پاکستان کی نظریاتی اساس کے لیے بھی خطرہ ہے، پاکستان کی معیشت کے لیے بھی خطرہ ہے اور جب تمام قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں، کسی دباﺅ کو قبول نہیں کیا تو اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے اس کو اقتدار سے الگ کیا اور خود حکومت بھی بنائی۔ہم جانتے ہیں کہ جنرل فیض اور ثاقب نثار کی باقیات اس نظام کے اندر موجود ہیں لیکن ہم کوئی غیرآئینی اقدام نہیں کریں گے کیونکہ ہم نے خود ہمیشہ آئین کی پاسداری کے لیے علم بلند کیا ہوا ہے۔ادھر دوسری جانب ےہ کہا جا رہا تھا کہ عدلےہ وزےراعظم کو نااہل کرنے جا رہی ہے لےکن اےسا نہ ہوا۔ پی ڈی اےم کے دھرنے کی کال پر پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فنڈز اور سیکیورٹی کا مسئلہ پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا تھا، آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے، نظر ثانی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تمام فریقین کو سنیں گے، یہ ایک نظرثانی درخواست ہے اس میں تیاری کے لیے کتنا وقت چاہیے۔پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس معاملے میں دواحکامات ہیں، اس وقت ملک کی آدھی آبادی نمائندگی کے بغیر ہے، عدالت اس وقت اپنے احکامات پر عمل کے لیے حکم جاری کرے۔ نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔ےہ سماعت 23 مئی تک ملتوی کر دی۔پی ڈی اےم کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ ےہ اس لےے کےا گےا کہ دھرنے والے چلے جائےں گے ہم پھر آ جائےں گے۔درےں اثناءکور کمانڈرز کانفرنس میں فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کو پاکستان آرمی اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعادہ کیا گیا ۔آئی ایس پی آرکے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت جی ایچ کیو میں موجودہ حالات کے تناظر میں خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں شرکا نے سیاسی شرپسندوں کی جانب سے کیے گئے جلا گھیرا اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی۔اعلامیے کے مطابق فورم کے شرکا نے بتایا کہ آرمی کے رینک اور فائل میں عسکری تنصیبات کے نقصانات اور جلاﺅ گھیراﺅ پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔کورکمانڈر کانفرنس میں فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعادہ کیا گیا جبکہ فورم کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ ناقابلِ تردید شواہد کی بنیاد پر افواجِ پاکستان ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے تمام مجرموں سے بخوبی واقف ہیں۔دھرنے سے خطاب میں جمیعت علما اسلام اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اب ملک کا ہر فیصلہ عوام کریں گے، عدالتی وقار کے لیے چند ججز کو قربان کردیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔فضل الرحمان نے کہا کہ ملک کا کوئی بھی فیصلہ اب سامنے والی عمارت میں نہیں ہوگا، ہم پاکستان کی عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔اب فیصلہ عوام کریں گے، جانبدار جج اپنی حیثیت کو مجروح کرچکا ہے۔ معزز کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو پارلیمنٹ اور عوام کی تذلیل کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ سیاست دان کی تذلیل ہوگی تو پھر تمھارے ہتھوڑے سے ہمارا ہتھوڑا بھاری ہے، ہمیں یہ ہتھوڑا گردی نا منظور ہے اور نہ ہی کسی بھی طریقے سے ہم اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔تمام ادارے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے فرائض انجام دیں، پاکستان کی انتظامیہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے ہاتھ میں ہے، آپ نے اگر سیاست کرنی ہے تو اس بلڈنگ سے باہر آﺅ اور میدان میں کھڑے ہوجاﺅ۔مسلم لیگ نون کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی تباہی بھی ججوں کے فیصلوں سے ہوئی ہے، سپریم کورٹ کو داغ دار ایمانداری نے نہیں عمران داری نے کیا ہے۔ آج عمران خان کی سہولت کاری کرنے والوں کی بات ہوگی، قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے اس کو روکنا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ ہم سپریم کورٹ اور آئین کا احترام کرنے والے لوگ ہیں، ہم اس جگہ احتجاج نہیں کرنا چاہتے تھے، اس عمارت سے جمہوریت کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ عمران خان کو انجام تک پہنچانا اس عمارت کی ذمہ داری تھی، 60 ارب روپے کا ملزم جب عدالت میں پیش ہوا کہا گیا ویلکم آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، یہ نظریہ ضرورت ہے جس نے ملک کو تباہ کیا۔
