پرتشدد احتجاج اورقومی و نجی املاک کا نقصان

 وزیراعظم شہباز شریف نے نومئی کو عمران خان کی گرفتاری کیخلاف پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران جلاﺅ گھیراﺅ میں ملوث تمام افراد کی 72 گھنٹوں میں گرفتاری کا حکم دے دیا۔شہباز شریف نے ٹوئٹ کہا ہے کہ میں نے سرکاری و نجی املاک کی لوٹ مار، انہیں تباہ و برباد کرنے اور جلاﺅ گھیراﺅ میں ملوث تمام عناصر، ان کے سہولت کاروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کےلیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہترگھنٹے کا ہدف دیا ہے۔وزیراعظم نے حکم دیا کہ ان عناصر کی نشاندہی کےلئے ٹیکنالوجی کی پوری مدد لی جائے اور انٹیلی جنس وسائل کو استعمال کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانا حکومت کا امتحان ہے۔ ان تمام افراد پر دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ادھر جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملوث شر پسندوں کی بھی شناخت کر لی گئی ہے‘ پرتشدد کاروائیوں میں شرپسندوں کی شناخت اور گرفتاریوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔حکومتی اور عسکری املاک کو نقصان پہنچانے اور دنگا فساد کرنے والوں پر قانون کا گھیراﺅ تنگ کیا جا رہا ہے۔ چھاپہ مار ٹیمیں ملزمان کی گرفتار کے لیے سرگرم ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ مسلح افواج اپنی تنصیبات کے تقدس اور سلامی کو پامال کرنے کی مزید کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گی۔انہوں نے کہا کہ ہم امن و استحکام کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے، اس عمل کو سبوتاژ کرنے والوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی، مسلح افواج اپنی تنصیبات کے تقدس اور سلامتی کو پامال کرنے یا توڑ پھوڑ کی مزید کسی کوشش کو برداشت نہیں کرے گی،آرمی چیف نے نومئی پر توڑ پھوڑ کے تمام منصوبہ سازوں، مشتعل افراد، اکسانے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا اور کہا کہ دشمن عناصر کی جانب سے عوام اور مسلح افواج کی درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مذموم کوشش کو عوام کی حمایت سے ناکام بنایا جائے گا۔پنجاب کے مختلف علاقوں میں سرکاری و نجی اداروں پر حملوں اور توڑ پھوڑ میں ملوث گرفتار افراد کی تعداد تےن ہزارسے زائد پہنچ گئی۔پولیس کے مطابق شرپسند عناصر کی پرتشدد کارروائیوں میں پنجاب بھر میں 152پولیس افسران اور اہلکار شدید زخمی ہوئے جبکہ پولیس کے زیر استعمال 74 گاڑیوں کو نذر آتش اور پولیس اسٹیشنز و دفاتر سمیت بائےس سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا۔آئی جی پنجاب کے مطابق جلاﺅ گھیراﺅ،تشدد اور نجی و سرکاری املاک نذر آتش کرنے والے شرپسند عناصر کو بہر صورت کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ جناح ہاﺅس پر حملے، توڑ پھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ میں ملوث نو سو افراد کی شناخت تصاویر، ویڈیو اور سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کی مدد سے کرلی گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیف سٹیز اتھارٹی نے تمام تر ویڈیوز ، تصاویر اور لوکیشنز قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کیں ، سی ٹی ڈی حکام نے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس ٹریکنگ کی مدد سے تین سو شرپسندوں کے کوائف اکٹھے کرلیے جن کی نگرانی کا عمل مزید تیز کردیا گیا ہے۔گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے دفاعی اداروں پر حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی جرنیل سے غلطی ہو تو یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارا ادارہ غلط ہے ، آئین اور قانون کی بالا دستی میں پاکستان کی بالا دستی ہے۔پنجاب حکومت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائیوں پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔جے آئی ٹی ہنگامہ آرائیوں کے حالیہ واقعات کی تحقیقات کر کے جامع رپورٹ حکومت کو پیش کرے گی۔ اس سلسلے میں تمام شرپسندوں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے کارروائیاں مزید تیز کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے جب کہ تھوڑ پھوڑ والے تمام مقامات کی جیو فینسنگ کرائی جائے گی۔ شرپسندوں کے خلاف تمام کیس انسدادہشت گردی کی عدالت میں چلائے جائیں گے۔ جناح ہاﺅس، عسکری، سول و نجی املاک پر حملے کرنے والے عناصر عبرت ناک سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ شرپسندوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی ہے۔غور طلب بات ےہ ہے کہ پاکستانی عوام احتجاج کے نام پر ملکی املاک کو آگ کیوں لگاتے ہیں اور اس عمل کے پیچھے کونسی سماجی و نفسیاتی وجوہات ہیں کہ لوگوں کو ملکی اثاثہ جات نذر آتش کرنا باعث تسکین محسوس ہوتا ہے۔دراصل فلاحی ریاست شہریوں کو بہتر معیار زندگی دیتی ہے، جس کے جواب میں لوگ ریاست اور اس کے اداروں کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے ہماری آسان اور خوشگوار زندگی کی ضمانت ہیں جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔اس لےے لوگ سرکاری اداروں کو اپنی مشکلات کا سبب سمجھتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جس ملک میں عام شہری علاج، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات کے لیے ترستے ہوئے زندگی گزار دے، وہ کیسے ریاست اور ریاستی اداروں کا احترام کر سکتا ہے۔ ہجوم کے سر انفرادی ذمہ داری نہیں ہوتی، اس لیے وہ آسانی سے تشدد کرتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنے افراد کسی سرکاری عمارت یا گاڑی کو جلا رہے ہیں تو کونسا مجھ پر ذمہ داری عائد ہو گی؟ مختلف علاقوں میں بسنے والے افراد کی اجتماعی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہے۔ ڈاکٹر شاہد خٹک کے مطابق جیسے بچہ گھر کی چیزیں توڑ کر ماں باپ کو سزا دے رہا ہوتا ہے ویسے ہی مشتعل ہجوم ریاستی املاک نذر آتش کر کے ریاست کو سزا دے رہا ہوتا ہے۔ بچے کی طرح اس عمل سے شہریوں کو بھی تسکین ملتی ہے۔سرکاری املاک، ملٹری املاک اور تنصیبات پر حملوں سے متعلق منظر عام پر آنے والی آڈیوز کے بعد سےاسی جماعتوں کی سنجیدہ لیڈرشپ کو غور کرنا چاہئے کہ ایسے توڑ پھوڑ پر مبنی مظاہروں، جلاﺅ گھیراﺅ اور پرتشدد کارروائیوں کی اجازت کس نے دی؟قومی سلامتی کے ذمے دار اداروں پر حملے ملک دشمنی اور فاشزم ہے۔ شرپسند عناصر کی جانب سے ریڈ لائن کراس کی گئی ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کے افسوسناک واقعات ریاست دشمنی کے مترادف ہیں۔یہ سیاست نہیں بلکہ کھلی دہشت گردی ہے لہذا سخت ترین احتساب ہو ناچاہیے۔قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ احتجاج کی آڑ میں عوام کے روزمرہ معمولات زندگی میں کسی کو بھی خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پر امن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن سڑکوں کو بند کرنا اور املاک پر حملے کسی بھی صورت برداشت نہیں۔ امن عامہ کی فضا برقرار رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے جسے احسن انداز سے نبھایا جائے کیونکہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ایسے عناصر کی آہنی ہاتھوں سے سرکوبی ضروری ہے۔ پولیس کو عوام کے جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہو گا۔املاک کو نقصان پہنچانا اور توڑ پھوڑکرنا کسی بھی صورت جائز نہیں۔ ایسے لوگوں کیخلاف قانو ن کو حرکت میں آنا چاہےے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ فساد پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹے اور جن لوگوں کی املاک کا نقصان ہوا ہے انہیں پورا کرے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی حفاظت کرے۔ان کی جان ومال عزت وآبرو کی ذمہ دار حکومت وقت ہے اس کے ساتھ ساتھ احتجاج اور مظاہروں کی آڑ میں اگر عوام کی املاک یا جان کا نقصان ہوتا ہے تو ریاست یا تو وہ نقصان خود پورا کرے یا پھر ان لوگوں سے پورا کرائے جنہوں نے املاک کو نشانہ بنایا۔ہمارے ہاں احتجاج کی آڑ میں غریبوں کا بھی نقصان کیاجاتا ہے۔ احتجاج سب کا حق ہے مگر مدلل اور غیرمتشدد طریقے سے۔تشددکی صورت میں وہ احتجاج نہیں رہتا بلکہ جرم بن جاتا ہے جو کسی شہری کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے نہ تومسئلے کا حل نکلتا ہے اورنہ ہی صلح ہوسکتی ہے۔مسائل کے حل یا اختلاف رائے کو ظاہر کرنے کیلئے تشدد ایک منفی رویہ ہے۔پرامن احتجاج ترقی یافتہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشرے میں کم خواندگی کی وجہ سے سادہ لوگوں کو اکساکر غیرمہذب حرکتیں کرائی جاتی ہیں جن کا مقصد مطالبے سے کہیں زیادہ اپنی طاقت کا اظہار ہوتا ہے اورپاکستان میں یہ طریقہ خوب اچھی طرح سے اختیار کیاجاتا ہے چونکہ یہاں پر ایسے تمام عوامل موجود ہیں اس کی وجہ سے ایسے تمام طاقت کے مظاہرے آسان طریقے سے کئے جاتے ہیں۔یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور ملک کی حفاظت کے ضامن ادارے کے خلاف وہ کچھ کیا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔سیاسی جماعت کو شر پسند عناصر سے جان چھڑانا ہو گی۔کارکنوں کی تربےت کی جانا چاہےے کہ پرتشدد احتجاج ملک دشمنوں کا وتےرہ ہوتا ہے احتجاج کے پرامن طرےقے اگر سےاسی جماعتےں اختےار نہےں کرتےں تو ان میں اور دہشت گردوں میں کےا فرق باقی رہ جاتا ہے۔