گلگت بلتستان کے پرےس انفارمےشن ڈےپارٹمنٹ اورپاکستان انفرمےشن سنٹر کے زےراہتمام گلگت مےں منعقدہ دو روزہ ٹرےننگ ورکشاپ میں سےکرٹری اطلاعات و نشرےات ضمےر عباس نے کہا جدےد صحافت کے لےے ٹےکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔موبائل جرنلزم صحافےوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے‘ ٹےکنالوجی سے ہر شعبے میں بڑی تبدےلی آئی ہے۔ ےہ درست ہے کہ جدےد دنےا میں جرنلزم کے تقاضے تبدےل ہونے کے ساتھ اس کے لےے سمعی و بصری معاونات میں بھی تبدےلی واقع ہوئی ہے۔ہم جانتے ہےںکہ صحافت ایک فن ہے جسے سیکھا اور برتا جاتا ہے ۔ صحافت کے کچھ اصول و ضوابط ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ اس لیے وہی قلم کار صحا فی کہلانے کا مستحق ہے جو صحافتی قوائد اصول و ضوابط سے آشنا ہو۔ آ ج کی صحافت جدید دور کی صحافت میں داخل ہو چکی ہے ۔ جدید اصطلاحات استعمال ہو رہے ہیں اور جدید اصول اور قوانین کا احاطہ کر رہی ہے۔بدقسمتی سے ہماری قومی صحافت، پوری دنیا بشمول ترقی یافتہ آزاد جمہوری ممالک کی صحافت کی طرح طاقتور طبقات، اولین سیاستدان افسر شاہی، بزنس ٹائیکونز، شو بزنس پینل مختلف الاقسام مافیاز ، مذہبی لیڈروں، بڑے بڑے مجرموں اور دہشت گردوں کو جیسے اپنے ایجنڈے میں جگہ اور وقت دینے پر مجبور وبے کس ہے کہ طبقات میڈیا کے ایجنڈے پر چھائے ہوئے ہیں۔آج صحافی برادری صرف نئی مشینوں اور ٹیکنالوجی کو جدیدیت یا جدید صحافت کا نام نہ دے بلکہ رپورٹنگ اور خبرکی دنیا میں انقلاب لائے ۔ میڈیا کسی کا آلہ کار بنے نہ ٹشو پیپر ،بلکہ اس کی حیثیت روشنی اور رہنما کی ہونی چاہئے ، صحافی کو صرف سیاستدان یا رہنما نہیں بلکہ مدبر ہونا چاہئے ، اس کی نظرشش جہات ہونی ہوتی ہے وہ کسی سیاستدان کے بیان کی لائنوں کو صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی معنویت کو بھی جانتا ہے، آج کا صحافی روایت شکن بھی ہے اور روایت ساز بھی ۔قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی تاریخ کو صحافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت ہی حیران کن واقعات سامنے آتے ہیں۔ 1857 کی جنگ کے بعد بدیسی حکمرانوں نے حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ قلم کی آزادی پر بھی حملہ کیا اور آزادی کیلئے لکھنے والے اخبار اور رسائل بند کر دیئے۔ گو کہ اس زمانے میں اخبار زیادہ شائع نہیں ہوتے تھے لیکن بدیسی حکمرانوں کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا فارسی اخبار بھی برداشت نہ ہوا اور اسے بھی بند کیا جو کہ 1841 میں شروع ہوا تھا اور اس میں محض سرکاری نیوز لیٹر وغیرہ جاری ہوتے تھے۔ بند ہونے والے اخبارات میں مولانا حسین احمد آزاد کے والد مولوی محمد باقر کا 1836 میں جاری ہونیوالا اردو اخبار، سرسید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان کا 1837 میں جاری ہونے والا سید الاخبار بھی شامل تھا۔ 1857 میں آزادی صحافت اور اخبارات پر سب سے بڑا حملہ بدیسی حکمرانوں نے کیا اس کے ٹھیک ایک سو ایک سال بعد یعنی 1958 میں آزادی صحافت پر اس سے بھی بڑا حملہ ایوب خان کے مارشل لا کے دور میں کیاگیا جس کے باعث پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار اور سپورٹس وغیرہ پر رات کی تاریکی میں کمانڈو ایکشن کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا، صحافیوں پر تشدد ہوااور حکومت نے ان اخبارات کو اپنے غیر آئینی ، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا، جبر کے باعث ان اخبارات اور اداروں کی کیفیت بیگار کیمپ کی مانند ہو گئی، کسی کو کسی بھی طرح کا کوئی حق حاصل نہ تھا، کام کرنے والے صحافیوںکو ڈیلی ویجز مزدور سمجھا جانے لگا۔ صحافیوں اور ملازمین نے اس پر احتجاج کیا ، ان کے دباﺅ پر 1964 میں ایک خودمختار ادارہ نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کیا گیا ، اس میں ملازمتوں کے رولز تو طے ہوئے ملازمین کے معاشی مسئلے بھی حل ہوئے لیکن آزادی صحافت عنقا رہی۔ ایوب خان کے دور میں بھٹو تحریک کے خلاف سب سے زیادہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات نے لکھا، بھٹو صاحب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی اس ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیا الحق آئے، صحافیوں نے ضیا کے مارشل کو خوش آمدید نہ کہا اور پھر انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں، یہ ادارے بہت کمزور اور قریب المرگ ہو گئے۔ جنرل ضیا الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میاں نواز شریف نے 1997 میں ٹرسٹ کے اخبارات کو پرائیوٹائز کر دیا لیکن ٹرسٹ کے مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی قانون سازی نہ کی گئی جس کے باعث کھربوں کی جائیداد ضائع ہو گئی اور آج بھی ہو رہی ہے اور ملازمین بھی رل گئے البتہ امروز لاہور اورپاکستان ٹائمز کے ملازمین گولڈن ہینڈ شیک کر دیا گیا مگر وسیب سے امتیازی سلوک ہوا اور امروز ملتان کے ملازمین آج بھی دھکے کھا رہے ہیں اور بہت سے ملازمین بیماری ، بڑھاپے اور غربت کے باعث بغیر علاج سسک سسک کر مر گئے ۔ پہلے وقتوں کے صحافی بہت اچھے ادیب بھی ہوتے تھے ،شعرو شاعری سے بھی ان کو بہت شغف اور دلچسپی ہوتی تھی، آج ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں آتی ، اس کے باوجود جب تک پرائیوےٹ ٹی وی چینل نہیں آئے تھے ، صورتحال ٹھیک تھی ، آج ٹی وی اینکرز ہر جگہ میڈیا ٹرائل کرتے نظر آتے ہیں ۔ڈےڑھ دہائی سے بھی کم عرصے میں صحافت اور ابلاغِ عامہ کے میدان میں بے تحاشا تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان گزرے دس برسوں میں صحافت پرنٹ میڈیا سے ترقی کرکے براڈ کاسٹ یعنی ریڈیو اور ٹی وی تک پہنچی اور وہاں سے چھلانگ لگا کر ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا تک پہنچ گئی۔ جس کے نتیجے میں نیوز روم کا دائرہ سکڑ کر چھوٹا ہوگیا اب یہاں رپورٹرز ویڈیو ایڈیٹرز کے طور پر بھی کام کرتے ہیں جبکہ پرانے زمانے کے ایچ ڈی کیمروں کی جگہ موبائل جرنلزم کٹ نے لے لی ہے۔ جس میں ایک عدد اسمارٹ فون کا آپ کے پاس ہونا ہی کافی ہے۔جرنلزم یا صحافت کی دنیا فقط خبریں بنانے اور رپورٹنگ کورسز تک محدود نہیں رہی اب اس میں رپورٹرز کے لیے ڈیٹا کا نچوڑ نکالنے، کوڈنگ، انفوگرامز کی تخلیق، اینی میشن اور گرافک ڈیزائنگ سے آگاہی کا ہونا بھی شامل ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے پرنٹ میڈیا میں فقط خبر لکھنے کو کافی سمجھا جاتا تھا یا ٹی وی کی صحافت میں نیوز پیکج بنائے جاتے تھے مگر اب اس کی جگہ ملٹی میڈیا اسٹوری ٹیلنگ کی ترکیب نافذ ہوگئی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ماضی میں تصور بھی محال تھا۔ آج کی اس ڈیجیٹل دنیا میں اگر خبر یا نیوز رپورٹ کو عمدگی سے پیش نہ کیا جائے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور ایسی خبروں کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہں پڑتا۔آج کی دنیا میں صحافت کا معیار یہ ہے کہ آپ لوگوں کو کس طرح اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، آپ کے پیش کردہ مواد کو کس طرح مونیٹائز کیا گیا ہے اور آپ اپنی خبر کو پیش کرنے کے لیے کس قسم کے ملٹی میڈیا آلات استعمال کررہے ہیں۔ صحافت اور ابلاغِ عامہ کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ایک صحافی کا کردار مسلسل توسیع پذیر ہورہا ہے اسے ہم آسان الفاظ میں کہیں تو ماضی کے مقابلے میں آج کے صحافی کی ذمے داریاں بہت بڑھ چکی ہیں۔ آج کے اس صحافتی منظرنامے کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل میں آپ کو اپنی خبر یا نیوز رپورٹ کو پیش کرنے میں جدت سے کام لینا ہوگا۔ سوشل میڈیا کے انسانی زندگی میں بے تحاشہ عمل دخل سے اب صحافت اور ماس کمیونیکیشن پہلے جیسی آسان نہیں رہی بلکہ اس میں مقابلے کا رجحان بھی شدید تر ہوتا جارہا ہے ایسے میں اپنی صحافیانہ رپورٹس کو مستند اور قابلِ یقین بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے آپ کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔ماضی میں جب طلباءصحافیانہ کورسز کرتے تھے تو انہےں پڑھایا جاتا تھا کہ اپنی خبر میں انسانی پہلو کو اجاگر کرنا اور صحافیانہ اخلاقیات کو مدِ نظر رکھنا ہی کافی ہے مگر اب خبر کو پیش کرنے کے انداز بدل چکے ہیں۔ آج کلاس روم میں پڑھایا جاتا ہے کہ ایک خبر جو آپ عام لوگوں تک پہنچاتے ہیں اسے پیش کرنے کے لیے آپ کے پاس 30 مختلف طریقے ہیں اور مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر پیش کرنے کے لیے آپ کے پاس 30 مختلف ٹیکنالوجیز ہیں۔پاکستان میں متعدد نیوز میڈیا آرگنائزیشنز اس وقت ایسے افراد کو رکھنے میں دلچسپپی لے رہی ہیں جو صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر صلاحیتوں کے مالک ہوں کیونکہ اب صحافت فقط آپ کی نیوز رپورٹنگ یا فیچر رائٹنگ پر نہیں کھڑی بلکہ اس میں اور بہت سی جدید چیزیں بھی شامل ہوگئی ہیں جنہیں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ےہ درست ہے کہ صحافت اور میڈیا کی دنیا میں آنے والے یہ نئے رجحانات صحافیانہ اخلاقیات و اقدار کو متاثر کریں گے جبکہ اخبارات اور میڈیا ہاﺅسز کے مالکان اور منتظمین کو ان اخلاقی تبدیلیوں پرسمجھوتہ کرنا پڑے گا۔جدےد صحافت کے اصولوں کو سےکھے اور نئی ٹےکنالوجی کے استعمال کے بغےر ہم عالمی صحافت کے رجحانات کا ساتھ دےنے میں کامےاب نہےں ہو سکتے۔
