عمران خان کی رہائی اور سیا سی و معاشی صورتحال

سپریم کورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ میں نیب کے ہاتھوں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عمران خان کو فوری رہا کرنے اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ہائیکورٹ کو حکم دیا کہ وہ کیس کی دوبارہ سماعت کر کے فیصلہ جاری کرے۔ فواد چوہدری کی جانب سے دائر درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب کے ہاتھوں القادر ٹرسٹ میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔عمران خان کو آئی جی اسلام آباد پولیس کی سربراہی میں سےکیورٹی حکام عدالت لائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کچھ خدشات ہیں، آپ کوپرتشدد مظاہروں کا علم ہوا ہوگا، یہ شائد سیاسی عمل کا حصہ ہے لیکن عمل بحال کرنا ہوگا، امن بحال ہوگا تو آئینی مشینری کام کر سکے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی خواہش ہے کہ آپ پرتشدد مظاہروں کو مذمت کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بیرون ملک جانے کی پرکشش پیش کش ہوئی جسے انہوں نے مسترد کیا، آصف زرداری نے بھی پر تشدد مظاہرے ختم کروائے، بے نظیر بھٹو کی گرفتاری کے بعد ملک میں پرتشدد مظاہرے نہیں ہوئے۔عمران خان نے کہا کہ گرفتاری کے بعد مجھ سے میرا موبائل لے لیا تھا جس کے بعد مجھے کسی بھی واقعے کا کوئی علم نہیں تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بندوبست کر رہے ہیں آپ کوساری خبریں ملیں گی، ہم فیصلہ واپس لے رہے ہیں، فکر نہ کریں، بس کسی سرکاری یا نجی املاک کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ ہم غریب ملک ہیں،نقصان سب کا ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے سپورٹرز سے کہنا ہے کہ پر امن رہنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ امن ہوتوگا ہی تو ریاست چل سکے گی۔ یہ ذمہ داری ہر سیاستدان کی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو پرامن رہنے کی تلقین کرے، الزام ہے کہ آپ کے ورکرز نے سڑکوں پر آکر یہ ماحول بنایا، آپ اپنا مذمتی بیان عدالت میں ہی دیں گے۔ آپ نے عدالت میں سرینڈر کیا تھا، سرینڈرکرنے والے ہر شہری کا حق ہے اسے انصاف تک رسائی ملے، وارنٹ قانونی تھے یا نہیں، گرفتاری درست نہیں، اب سارا عمل واپس ہو گا جہاں آپ بائیو میٹرک کروا رہے تھے اور ہائیکورٹ جو بھی حکم دے گی آپ اس کے پابند ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ محترمہ بینظیر کی شہادت ہوئی مگر کسی نے پرتشدد مظاہرے نہیں کیے۔ عدالتوں کی حدود سے کسی کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، عدالتوں کی حدود سے کسی کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، سیکیورٹی کے افراد رجسٹرار کی اجازت سے ہی عدالتوں میں داخل ہو سکیں گے، عمران خان کی خواہش کے برعکس ملنے والوں کو عمران خان سے اجازت لینا ہوگی۔چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے آپ مخالفین کو پسند نہ کرتے ہوں مگر ان سے بات کریں، 23 کروڑ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارے سیاستدان ملک کی کشتی کو آگے بڑھائیں، آپ اپنے مخالفین سے ڈائیلاگ کریں، اس سے معاشرے میں اطمینان آئے گا، دونوں اطراف کا مقف ناقابل حد تک یکسو ہوگیا ہے۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت ہائیکورٹ میں زیر التوا تصور ہو گی۔عدالت کی جانب سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے پر عمران خان کے وکلا اور حامیوں نے عدالت میں شدید نعرے بازی کی جبکہ کارکنان نے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے پیش قدمی کو روک کر انہیں پیچھے دھکیل دیا۔مسلم لیگ نون کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے عمران خان کی رہائی پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو منصب چھوڑ کر پی ٹی آئی جوائن کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس صاحب کو آج قومی خزانے کے ساٹھ ارب ہڑپ کرنے والے واردتیے کو مل کر بہت خوشی ہوئی اور اس سے بھی زیادہ خوشی انہیں اس مجرم کو رہا کرکے ہوئی۔ ملک کی اہم ترین اور حساس تنصیبات پر حملوں کے سب سے بڑے ذمہ دار چیف جسٹس ہیں جو ایک فتنہ کی ڈھال بنے ہوئے ہیں اور ملک میں لگی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ چیف جسٹس کا منصب چھوڑ دیں اور اپنی ساس کی طرح تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلیں۔قبل ازےںچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری اور بعد کی صورت حال کے حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کے نام ایک خط میں لکھا کہ آپ کی توجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار اور نتائج کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔ میں اور پاکستانی عوام اس واقعے کی ویڈیو دیکھ کر حیران رہ گئے، جس میں ایک سابق وزیر اعظم کے ساتھ بدسلوکی دکھائی گئی ۔خط میں مزید کہا گیا کہ عمران خان ایک مقبول رہنما اور ایک ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جسے پاکستانی عوام کی بڑی حمایت حاصل ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دفتر میں زبردستی داخل ہوئے، جہاں عمران خان کی بائیو میٹرک کا عمل جاری تھا۔ جس انداز میں ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، اس سے عالمی برادری میں پاکستان کا تاثر داغ دار ہوا۔خط میں صدر مملکت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کو پاکستان کا مذاق اڑانے اور اپنے شہریوں کے حقوق پامال کرنے والے ملک کے طور پر پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ اس قسم کا واقعہ کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے ۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات پیش آنے کا جواز پیش کرنا انہیں آج ٹھیک نہیں بنا سکتا ۔ ایسے مذموم اور غیر ضروری واقعات سے پہلے سے بگڑتی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ۔ سماج میں تقسیم مزید بڑھ رہی ہے ۔ بلاشبہ، عمران خان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ان کی گرفتاری کے ایسے مناظر دیکھ کر جذباتی ہوئی۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے ٹانگ زخمی ہونے کے باوجود سےکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے ان کے رہنما کو گھسیٹا گیا۔صدر مملکت نے کہا کہ یہ دردناک واقعہ مسلح افواج کی عمارتوں سمیت عوامی املاک پر ہجوم کے حملوں کا باعث بنا۔ میرا ماننا ہے کہ عوام کو احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن انہیں پرامن اور قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ دل دہلا دینے والے، اندوہناک اور افسوسناک جانوں کے ضیاع پر سب پریشان ہیں جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔تیزی سے تقسیم ہوتی سیاست کے درجہ حرارت کو کم کرکے مستحکم کیا جانا چاہیے۔صدر عارف علوی نے کہا کہ جیسے کو تیسااور ہیجانی ردعمل کے بجائے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرتے ہوئے استحکام لایا جانا چاہیے ۔ میں عوامی اثاثوں کو پہنچنے والے نقصان اور شرپسندوں کے غیر قانونی اقدامات پر پریشان ہوں۔ آئین اور قانون کا محافظ ہونے کے ناتے میں ایسے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔ میرا ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، آئیں تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی تقدیر کو بچائیں۔ موجودہ سےاسی صورتحال میں زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے، رواں ہفتے مزید سات کروڑ چالےس لاکھ ڈالر کم ہوگئے۔مرکزی بینک کے مطابق پانچ مئی کو زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت چار ارب 38 کروڑ 34 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔سات کروڑ چالےس لاکھ ڈالر کی کمی کے ساتھ ہی زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت دس ارب ڈالر کی سطح سے گر کر نوارب ننانوے کروڑ ڈالر ہوگئی۔اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 60 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔انٹربینک مارکیٹ میں مسلسل دوسرے روز روپے کی قدر میں بڑی کمی دیکھی گئی، ڈالر 8 روپے 78 پیسے اضافے کے بعد 299 روپے کا ہوگیا۔ماہرین نے اس کی وجہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سیاسی صورتحال اور عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے 17 مئی کو ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے معاملے کو ایجنڈے میں شامل نہ ہونے کی وجہ قرار دیا۔فاریکس ایسوسی ایشن کے چئیرمین ملک بوستان نے روپے کی قدر میں کمی کی وجہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد بے یقینی سیاسی حالات کو قرار دیتے ہوئے حکومت پر اسے کنٹرول کرنے پر زور دیا، ورنہ ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے 17 مئی کو ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہونے جارہا ہے، جس میں پاکستان کے معاملے کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا، جس کے بعد ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے، یہ بھی روپے کی بے قدری کی وجہ ہے۔ان حالات میں عدالتی ‘سےاسی و عسکری قوتوں کی دمہ داری ہے کہ وہ ملک کی بہتری و ترقی کے حوالے سے اپنی ذمہ دارےاں ادا کرےں۔