چیف کورٹ گلگت بلتستان کے چیف جسٹس علی بیگ نے غذر بار ایسوسی ایشین کے نو منتخب عہدیداران کی حلف برداری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں غذر کے تمام عہدیداروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ انصاف کی فراہمی میں عدالت اور سائلین کی بھرپور مدد کرینگے۔انہوں نے کہا کہ بار کے عہدیداران مختلف ایشوز پر بار بار ہڑتال نہ کرےں وکلا کی ہڑتال سے عدالتوں میں جاری مقدمات التوکا شکار ہوتے ہےں اور سائل مجبور ہوتے ہےں۔اگر وکلا اور فریقین تعاون کرےں تو سول کورٹ سے لیکر چیف کورٹ تک چلنے والے مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ سے ایک سال کے اندر ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ غذر اور خاص کر یاسین میں منشیات فروشی کا سلسلہ تشویشناک ہے۔ منشیات کے استعمال سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہوتی جارہی ہے۔منشیات فروشی کی روک تھام کے لے شیر قلعہ پولیس چوکی اور سیلی ھرنگ پولیس چوکی میں ہر آنے والی گاڑی کی تلاشی لی جائیگی اس حوالے سے میں نے ایس پی غذر کو ہدایت دی کہ شیر قلعہ پولیس بیریل اور سیلی ھرنگ پولیس بیریل پر میری گاڑی کی بھی تلاشی لی جائے۔ منشیات کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو جج صاحبان بھی جلدی رہا نہ کرےں وکلا اور عوام بھی عدالت کے ساتھ تعاون کرےںاور میں نے ماتحت عدالت کو کہا ہے کہ منشیات فروشی میں ملوث ملزمان کی ضمانت کم از کم چھ ماہ سے قبل نہ لی جائے۔ےہ درست ہے کہ ہڑتالےں کسی بھی جانب سے کی جائےں ان کا نقصان عام آدمی کو برداشت کرنا ہوتا ہے‘سپریم کورٹ کے جسٹس دوست محمد اور جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وکلا کی ہڑتالوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وکیلوں کو اگر ٹریفک وارڈن چالان کرے تو اگلے دن ہڑتال کردیتے ہیں جبکہ اسلام میں ہڑتال کا کوئی تصور نہیں اور وکلا اس طرح آئینی نظام کی بھی نفی کردیتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ وکلا جس دن پیش نہیں ہوتے اس دن کی تنخواہ ہم پر حرام ہو جاتی ہے۔سپریم کورٹ میں مقدمات میں التوا اور وکلا کی ہڑتالوں پر ججز نے سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیے۔انہوں نے کہا جب میں چیف جسٹس بلوچستان تھا تو ایک دن بھی ہڑتال نہیں ہونے دی کیونکہ ہمیں انصاف کی فراہمی کویقینی بنانا ہے۔جسٹس دوست محمد خان نے کہا تھا کہ بےس سال پرانی بار کونسل کا نظام لے آئیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا، نجی لا کالجز وکیل نہیں بلکہ بارممبران پیدا کر رہی ہیں۔ اس طرح کے رویے سے وکلا کی بدنامی ہو رہی ہے اس لیے ہڑتال نہیں ہونی چاہیے تاہم عدلیہ بحالی تحریک کے بعد کچھ وکیل بے قابو ہوگئے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا تھا کہ آئینی تحریک اور وکلا ہڑتال میں بہت فرق ہے، عدلیہ بحالی ایک آئینی موقف تھا، عدلیہ بحالی تحریک آئین کی بحالی کے لیے تھی، نظام کو درست کرنے کےلئے سب سے پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا، یہاں لوگ خوشی میں گالیاں دیتے ہیں جیسے دھرنے والے کیس میں ہم نے دیکھا جس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ وہ گالیاں مسنون گالیاں ہوں گی۔کوئی شہر ایسا نہیں جہاں نشیﺅں کی بڑی تعداد دیکھنے کو نہ ملتی ہو ۔یہ لوگ دنیا سے بے خبر ، کھلے آسمان تلے اپنی ہی دھن میں مگن پڑے رہتے ہیں۔ کوئی پاس سے گزرے تو لگتا ہے کہ نعش پڑی ہے مگر صرف چلتی ہوئی سانسیں انکے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہیں۔ یہ نشئی یعنی منشیات کے عادی افراد سب کیلئے عبرت کا نشان ہیں، جنہوں نے غلط ترجیحات اپنا کر نہ صرف اپنی زندگی برباد کی بلکہ اپنے سے جڑے رشتوں کو بھی ٹھیس پہنچائی۔یہ سوال کہ انسان نشے کا عادی کیسے اور کیوں بنتا ہے؟ کا جواب یقینا سادہ نہیں ہے۔ اس برائی کا شکار بننے کی بیشتر وجوہات ہیں۔ ہرکوئی اپنی زندگی میں سکون چاہتا ہے، مگر آج سکون کہاں ہر طرح کے ذہنی ، سماجی اور معاشی دباﺅ نے انسان کو گھیر رکھا ہے ،ایسی مشکلات میں گھرے شخص کو کبھی کبھی دو راستے نظر آتے ہیں یا تو صبر ، ہمت اور محنت کا دامن تھام لے، اورخود کو دباﺅ سے آزاد کرا لے ، یا ہار مانتے ہوئے آنکھیں بند کر لے، حالات کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دے اور اس دباﺅ کو بھولنے اور ذہنی سکون کے حصول کیلئے قابل مذمت، خطرناک راستوں کا انتخاب کرے ۔ دوسرے آپشن کے لوگ منشیات کے عادی بن سکتے ہیں۔ نشہ آور اشیا چونکہ انسان کو وقتی طور پر سکون دیتی ہیں، پھر بتدریج سکون کی یہ چاہ اور طلب انسان کی لالچ بننے لگتی ہے اور جب انسان نشے کا عادی بن جائے تو پھر اسکے حصول کیلئے تمام حدود پار کر جاتا ہے ، کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہو جاتا ہے ، رشتوں کی پروا کیے بغیر صرف و صرف اپنے سکون کا متلاشی رہتا ہے۔ چنانچہ نشے کا عادی بننا یا نہ بننا انسان کے اپنے اختیار میں ہے ، یہ کوئی قدرتی عمل نہیں ، انسان چاہے تو اس راستے کو ٹھکرا سکتا ہے۔ چاہے تو اپنا سکتا ہے۔پاکستان میں منشیات کے عادی افراد ہمارے ہاں منشیات کے استعمال میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھا گیا۔سب سے بڑا خطرہ تو وہ نشہ خود ہے جو یہ عادی افراد روز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ منشیات کے عادی افراد میں سرنج کے ذریعے نشہ کرنے کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ یہ افراد نشے کے لیے ایک دوسرے کی سرنجیں استعمال کرجاتے ہیں، جس سے وہ ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپاٹائٹس سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا با آسانی شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی زندگی ہر وقت داﺅ پر لگی رہتی ہے ، کیونکہ بے سہارا افراد کسی بھی جگہ اپنی زندگی کی بازی ہار سکتے ہیں، ٹریفک حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بہت سے کم عمر افراد نشے کو بطور فیشن اپناتے ہیں، لیکن بعد میں وہ ایسی عادت یا مجبوری بن جاتی ہے جس کو کوشش کے باوجود چھوڑنا ممکن نہیں رہتا، جس سے یہ نوجوان نہ صرف اپنی تعلیم بلکہ گھر کے رشتوں کو بھی کھو دیتے ہیں۔سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ملک میں یہ منشیات باآسانی دستیاب ہیں ، انکو ڈھونڈنے کیلئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی، منشیات فروشوں کے بڑے گروہ ہر وقت اسی طاق میں رہتے ہیں کہ کس طرح کس بندے کو اپنا شکار بنایا جائے۔ پہلے انہیں نشہ مفت میں دیتے ہیں ، اسکے بعد ان سے پیسے بٹورتے بٹورتے انسانوں کو کنگال کر دیتے ہیں۔ دوسری وجہ ذہنی دباﺅ ہے جس میں طبقاتی فرق بھی ہے۔ ذہنی دباﺅ کو صرف غربت کے ساتھ جوڑنا مناسب نہیں ، مالی لحاظ سے بڑے کھاتے پیتے افراد بھی نشے کی لت میں مبتلا رہتے ہیں ، وجہ ذہنی دباﺅ ہے، گھریلو رشتوں ، لڑائیوں کے باعث لوگ نشے کے عادی بنتے ہیں، اور کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ امیر بیوی بچوں نے باپ کو نشے کی عادت پر گھر سے نکال باہر کیا۔اسی طرح غریب افراد خصوصا نوجوانوں میں ذہنی دباﺅ کی بڑی وجہ بیروزگاری ہے، جب کسی پر ذمہ داریوں کا بوجھ ہو اور اسے کوئی مناسب روزگار نہ ملے تو وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے، اس ڈپریشن کو دور کرنے کیلئے ابتدا سگریٹ سے ہوتی ہے، پھر چرس کی طرف جاتے ہیں، پھر انجکشن کا استعمال ان کو زیادہ مزہ دیتا ہے اور آہستہ آہستہ زیادہ سے زیادہ مزے کی تلاش میں وہ ہیروئن اور دیگر نشوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ دس سال یا اس سے بھی کم عمر کے ایسے نابالغ بچے جو عموما فیکٹریوں میں یا پٹرول اسٹیشنوں پر کام کرتے ہیں، وہ اپنے ماحول کی وجہ سے اشیا جوڑنے والے کیمیکلز ،پالش، یا پٹرول جیسے سستے لیکن خطرناک نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک بار جب انہیں ایسے نشے کی عادت ہو جاتی ہے، تو وہ دیگر منشیات بھی استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں اور نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی ایک بڑی وجہ تنہائی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جب والدین انہیں زیادہ وقت نہیں دیتے تو بچے اپنے لیے مصروفیات گھر سے باہر تلاش کرتے ہیں۔ جس سے وہ نشے کے عادی بن جاتے ہیں۔ چنانچہ جسمانی، جذباتی، جنسی بدسلوکی، معاشی بدحالی اور احساس کمتری منشیات کے استعمال میں اضافے کا موجب بن رہی ہیں۔یہ نشئی افراد ملک میں جرائم کے اضافے کا بھی سبب بن رہے ہیں ، کچھ چوری چکاری، ڈکیتی اور لوٹ مار کی تاک میں رہتے ہیں ، فقرا کا روپ دھار کر، یا بسوں ٹرینوں میں مانگنے والے بن کر اکثر لوگوں کی جیبیں کاٹ لیتے ہیں یا چھری چاقو کے وار سے لوٹ لیتے ہیں۔ سڑکوں پر موجود یہی افراد منشیات فروشی میں بھی ملوث ہوتے ہیں ، یعنی کسی نیٹ ورک کی جانب سے دوسرے لوگوں کو نشہ آور گولیاں و دیگر منشیات فروخت کرتے ہیں۔ چنانچہ اس معاملے میں پولیس کہیں نہ کہیں قصوروار بھی ہے اور مجبور بھی۔ اکثر منشیات فروشوں کا تعلق بااثر سیاسی شخصیات سے ہوتا ہے ، اگر پولیس انکو پکڑ بھی لے تو فورا اوپر سے فون آجاتے ہیں کہ جلدی انکو چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ ایسے اثر و رسوخ میں پولیس مجبور ہوجاتی ہے۔پاکستان میں 1993 میں بینظیر بھٹو دور میں قومی انسداد منشیات پالیسی بنائی گئی تھی جس کے باعث کئی ادارے اور ڈرگ انفورسمنٹ سٹرکچرز وجود میں آئے تھے۔ لیکن یہ ادارے اتنا موثر میکنزم قائم نہ کر سکے ۔ ایک اور انسداد منشیات پالیسی 2010 میں بنائی گئی تھی، جس کے تحت منشیات کے خاتمے کے وفاقی اور صوبائی اداروں کو اضلاع کی سطح پر کام کرنا تھا تاکہ پاکستان میں منشیات کی سمگلنگ سے نمٹا جاسکے، لیکن اس سے بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے اس لےے اس جانب خصوصی توجہ دی جائے۔
