وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گلگت کی نومنتخب کابینہ کی حلف برداری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیملی اور لیبر کورٹس قائم کی جائیں گی اور لاافسران کی اسامیوں کی رواں ماہ تخلیق یقینی بنائی جائے گی۔وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہاکہ فلاحی معاشرے کیلئے انصاف کی فراہمی لازمی ہے۔ مستقل امن انصاف سے مشروط ہے۔ وکلاکا کردار سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ فیملی اور لیبر کورٹس کے قیام کیلئے صوبائی حکومت بھرپور اقدامات کرے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہاکہ نئے وکلا کی حوصلہ افزائی کیلئے وظیفے کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات کئے جائیں گے اور ہائی کورٹ کے ججز کو درکار سٹاف کی آسامیوں کی تخلیق کیلئے وفاقی حکومت سے بات کی جائے گی۔انصاف کی فراہمی کسی بھی معاشرے کی بقا کےلئے از حد ضروری ہے وہ معاشرے قائم نہےں رہ سکتے جہاں انصاف فراہم کےا جا سکتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ججوں کو جو مراعات حاصل ہیں ان کے حوالے سے پاکستان دنیا کے ممالک میں سے پہلے دس ممالک میں آتا ہے، مگر انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ 130ویں نمبر پر آتی ہے‘ انصاف سست رفتار اور کم یاب ہے۔ مراعات، سہولیات، تنخواہیں،پنشن، پروٹوکول تو خوب ہیں، لیکن لاکھ سائلین عدالتوں اور کچہریوں میں دربدر ہیں، ان کو انصاف نہیں مل رہا۔جب اتنی بڑی تعداد میں مقدمات زیرالتوا ہیں، تو عدلیہ کی اس کارکردگی کے ساتھ کیا ہماری اعلی عدلیہ اور جج صاحبان، توہین عدالت کی آڑ میں کہیں خود مقدس گائے نہیں بنے ہوئے ہیں؟اگر ان کا کوئی خودکار احتسابی نظام ہے اور اگر جائزہ اور کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام موجود ہے تو پھر لاکھ مقدمات پاکستان کی عدالتوں میںزیرالتوا کیوں ہیں؟جج صاحبان کسی نہ کسی انداز سے سیاست میں ملوث ہوتے ہیں، آئے دن سیاسی رائے دیتے ہیں اور بہت سے مسائل پر سوموٹو اقدام کرتے ہیں اور مختلف چیزوں کی طرف جاتے ہیں لیکن جو بنیادی کام ہے، پاکستان کے عوام کو انصاف فراہم کرنا، اس کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ نہیں ہے؟عدلیہ کی طرف سے اکثر صورتوں میں زبان و بیان اور ابہام زدہ اسلوب میں کمزور فیصلے آتے ہیں۔ جس کا ایک سبب قانونی امور میں ججوں کی پوری طرح گرفت نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ وہ انگریزی میں فیصلے لکھنے کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ حقیقی مشاہدہ اور درست نقطہ نظر لکھنے میں لفظوں کے جنگل میں گم ہوجاتے ہیں۔لوگ بھوکے رہ سکتے ہیں، اپنے دیگر حقوق پر بھی سمجھوتا کرسکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیرکوئی نہیں رہ سکتا۔ انصاف نہیں ہوگا تو بدامنی ہوگی۔ انصاف نہیں ہوگا تو اضطراب ہوگا۔انصاف نہیں ہوگا تو طبقاتی تقسیم ہوگی۔ انصاف نہیں ہوگا تو حکمران اشرافی طبقے استحصال کریں گے اور استحصالی طبقے عوام کا خون چوسیں گے۔ اسی لیے انصاف کی فراہمی بنیادی چیز ہے۔ اس کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے عوام کو کم از کم انصاف تو فراہم کرسکیں۔ججوں کی غیرمتعلقہ معاملات میں دلچسپی انصاف کی فراہمی میں مزید تاخیر پیدا کرتی ہے۔ بہت سے ججوں کی نااہلی کی وجہ سے انصاف کا شعبہ اور فیصلے بھی متنازع ہوتے ہےں۔مقدمات کی سماعت اور فیصلوں میں تاخیر میں وکلا کا بھی اہم اور افسوسناک کردار رہا ہے۔ ان کے معاشی مفادات کی وجہ سے مقدمات میں تاخیر ان کے لیے سودمند ہوتی ہے۔ اس لیے وکلا کی ایک بڑی تعداد مقدمات میں التوا کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔نچلی عدالتوں میں وکلا جب چاہتے ہیں عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے، ضروری کاغذات جان بوجھ کر دیر سے جمع کراتے ہیں اور جب چاہیں التوا حاصل کر لیتے ہیں۔ اکثر چھوٹی چھوٹی وجوہات کی بنیاد پر وکلا تنظیمیں ہڑتال کر کے عدالتوں میں مقدمات میں التوا کرا دیتی ہیں۔ہماری اعلی عدلیہ کو اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اصلاح کا سلسلہ اپنے آپ سے شروع کرنا چاہیے۔ نچلی عدالتوں کی بری کارکردگی کی ذمہ داری بھی اعلی عدلیہ پر آتی ہے۔ ہمارا جسٹس سسٹم شکستہ اور کمزور ہے۔ چناں چہ اگر کسی کے ساتھ ریاست یا معاشرے کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے اور وہ اس کی دادرسی چاہتا ہے تو تاخیر سے ملنے والے انصاف یا اس کی عدم دستیابی کی صورت میں وہ مزید محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تنازعات کو حل کرنے سے قاصر ایک نظام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ایک ریاست جو ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے جو کم از کم شہریوں کی قانونی مساوات کا بھرم ہی رکھ لے، اس میں ہر کوئی ذاتی تحفظ کے لیے طاقت حاصل کرنا چاہے گا۔ ایسا نظام قانون کی حکمرانی کے تصور کے منافی ہوتا ہے۔ حقیقی چیلنج طاقت ور اشرافیہ اور افسران کے رویے میں تبدیلی کی تحریک پیدا کرنا ہے۔ افراد کے مقابلے میں اگر نظام کی مضبوطی کا عمل موجود نہ ہو تو یہ نظام طاقت ور افراد کے ہاتھوں یرغمالی کا منظر نامہ پیش کرتا ہے کیوں کہ کمزور لوگوں کی بنیادی خواہش افراد کے مقابلے میں اداروں کی مضبوطی ہوتی ہے اور اِن ہی اداروں سے ان کو انصاف یا اپنے بنیادی حقوق شفاف انداز میں مل سکتے ہیں۔پاکستان میں انصاف کا نظام طبقاتی بنیادوں پر قائم ہے جہاں طاقت ور اور کمزور کے درمیان تفریق کا پہلو نمایاں ہے۔ انصاف کے نظام میں سیاسی اور بااثر افراد کی مداخلت، کرپشن، بدعنوانی پر مبنی مسائل کی بہتات،ہمارے عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیاں، پولیس اور تفتیش کا نظام، انصاف میں تاخیر اور اِس تناظر میں اصلاحات کا نہ ہونا جیسے امور سرفہرست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مجموعی طور پر لوگوں کو اپنے انصاف سے جڑے اداروں پر اعتماد نہیں اور اِس بحران نے عدالتی نظام اور عام آدمی میں ایک بڑی نمایاں خلیج پیدا کردی ہے جو ریاستی و عوامی رشتہ کو کمزور کرتی ہے۔عدالتی نظام کے حوالے سے جو سب سے اہم مسئلہ عام یا کمزور آدمی کو درپیش ہے وہ عدالتی نظام میں طاقت ور افراد کو سٹے آرڈر کا ملنا ہے۔سٹے آرڈر کا مطلب کمزور مخالفین کو دباﺅ میں لانا، اسے عدالتوں میں ذلیل و خوار کرنا اور مقدمات کو طول دینا ہوتا ہے تاکہ کمزور لوگ ہمت ہار کر گھر بیٹھ جائیں۔تمام شہریوں کو میسر قانونی مساوات اشرافیہ کو سماجی، سیاسی اور معاشی ناہمواری سے حاصل ہونے والے فائدے کا مداوا کر سکتی ہے لیکن جہاں ایسی مساوات قائم کرنے والا نظام ہی موجود نہ ہو، وہاں جس کسی کے پاس بھی دولت یا طاقت ہوگی، وہ اسے استعمال کرتے ہوئے ان میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔ یہ صورت حال امیر اور غریب کے درمیان حائل معاشی خلیج کو زیادہ وسیع اور گہرا کرتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں معاشی طور پر پسے ہوئے طبقات میں مزید اشتعال پیدا ہوتا ہے کیوں کہ وہ ایک ایسے نظام کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کی سماجی اور معاشی ترقی میں معاون ثابت ہونے کے بجائے رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ چناں چہ ان کی غربت اور پس ماندگی کی زنجیریں نہیں ٹوٹتیں جس کے نتیجہ میں طاقت ور اشرافیہ انصاف اور معاشی ہمواری کے اصولوں کو لاگو کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی کیوں کہ وہ اِس نظام سے مستفید ہوتے ہیں لیکن ایک ریاست اور معاشرے میں جو بھی خرابیاں پنپتی ہیںاور جس کی جڑیں ناقص نظام انصاف میں گڑی ہوتی ہیں، اس صورت حال سے بچنے اور اپنے مال، جان، عزت محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں تنازعات کا موثر اور منصفانہ حل موجود ہو۔ہم ایک ایسے نظام کے ساتھ کام کرنا بہتر سمجھتے ہیں جس میں فیصلوں کے التوا کا فائدہ کسی اہم فریق کو پہنچے۔ بعض صورتوں میں جائز ورثا کا تعین ہونے اور جائےداد کی تقسیم میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ ہم بعض ایسے مقدمات میں دلائل دینے میں بہت زیادہ وقت گزار دیتے ہیں جو ایک آدھ پیشی میں طے ہو سکتے ہیں۔ ہم تین مرحلہ نظام انصاف کیوں نہیں اپناتے جیسا کہ مقدمہ، اپیل اور حتمی اپیل۔ اس کے ذریعے فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے۔پاکستان میں اگر ایک منصفانہ و شفاف نظام لانا ہے تو یقینی طور پر اس کی ایک بڑی بنیاد سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف پر مبنی نظام ہے اسی بنیاد پر ہم ایک مہذب اور ذمہ دار معاشرہ کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ جو بھی معاشرہ انصاف کے نظام کے تناظر میں برابری یا عدم تفریق کے بجائے طبقاتی بنیادوں پر انصاف کا نظام قائم کرے گا، اس کی کوئی سیاسی، اخلاقی اور قانونی ساکھ نہیں ہوتی۔ اس طرز کے معاشروں میں ریاست، حکومت، سماج اور قانونی اداروں کے درمیان ایک بڑی خلیج اور بداعتمادی کے سائے گہرے ہوتے ہیں اور لوگ اداروں سے انصاف کی توقع رکھنے کے بجائے خود سے انصاف کرنا چاہتے ہیں۔جب انصاف کے اداروں سے اعتماد ختم ہوتا ہے تو معاشرے کا بگاڑ واضح ہو جاتا ہے۔عوام کے ٹےکسوں سے بھاری تنخواہےں وصول کرنے والے ججوں سے ےہ پوچھنا لازم ہے کہ عدلےہ کی کارکردگی کےوں زوال پذےر ہے‘ اس کی رےنکنگ کےوں دن بدن کم ہو رہی ہے؟
