Skip to content
وزیراعظم شہباز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ گندم، چینی اور یوریا کے سمگلروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، جس سے پاکستان کی غیر ملکی ترسیلات پر منفی اثر پڑ رہا ہے اور عوام کا حق غصب ہو رہا ہے۔وزیراعظم، جنہوں نے مذکورہ اشیا کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ملک کو سمگلنگ کی لعنت سے نجات نہیں مل جاتی۔ کالی بھیڑوں کو ملک کی غیر ملکی ترسیلات اور پاکستانی عوام کے حق پر قبضہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ اللہ کے فضل اور حکومت کی کاوشوں سے ملک میں گندم کی بمپر فصل ہوئی جس نے گزشتہ دس سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ شدید بارشوں، سیلاب کے باوجود کسانوں کی محنت اور حکومتی کوششوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اس پیداوار پر پاکستانی عوام کا تمام حق ہے۔ اسمگلروں کو عوام کے لیے مسائل پیدا کرنے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔ حکومت آئندہ سال تک گندم کی مزید پیداوار حاصل کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔ حکومت نے اگلی فصل کے لیے کسانوں کو یوریا کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو بھی ہدایت کی کہ وہ خود خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا دورہ کرکے صوبائی حکام سے ملاقات کرکے رپورٹ پیش کریں۔ سمگلنگ میں ملوث یا غفلت برتنے والے اہلکاروں کو ہٹایا جائے گا اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کی جائے گی۔انہوں نے سمگل ہونے والے سامان کو ضبط کرنے اور اصل مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے مناسب تفتیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔انہوں نے انسداد اسمگلنگ عدالتوں کی تعداد بڑھانے اور اس لعنت سے نمٹنے کے لیے ان کی استعداد کار بڑھانے پر بھی زور دیا۔ادھر سمگلنگ روکنے کیلئے ملک گیر آپریشن جاری ہے، ایف بی آر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے گزشتہ روز انچاس ٹرک پکڑے گئے، ایف سی نے بھی ہزاروں ٹن یوریا اور چینی سمگل کرنے کی کوششیں ناکام بنا کر اشیا اپنی تحویل میں لیں۔ سرحد پار سمگلنگ روکنے کیلئے جوائنٹ پیٹرولنگ ٹیمز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نشاندہی پر بلوچستان میں چارجوائنٹ پیٹرولنگ چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں، حکومت گندم، آٹے، چینی اور یوریا کو آئٹمز قرار دے چکی ہے، وزیر اعظم نے سمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے سست روی سے کام لینے پر برہمی کا اظہار کیا۔ ملک سے اشیا ضروریہ کی بیرون ملک سمگلنگ کسی صورت قبول نہیں، یہ معاشرے کیلئے ناسور کی حیثیت رکھتا ہے، سمگلنگ کے مکروہ دھندے میں ملوث افراد کیخلاف فوری آپریشن کیا جائے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں چیک پوسٹوں کی تعدار بڑھائی جائے، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کیلئے استعمال ہونے والے گوداموں کے خلاف بھی فوری کارروائی کی جائے، بارڈرز پر ایماندار افسران تعینات کیے جائیں، کرپٹ افسران کو ہٹاتے وقت کسی قسم کا دبا قبول نہ کیا جائے، سمگلنگ روکنے کیلئے ضروری قانون سازی کیلئے مسودہ جلد پیش کیا جائے۔اینٹی سمگلنگ کورٹس کو فوری طور پر فعال اور مثر بنایا جائے، اینٹی سمگلنگ کورٹس کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے، خصوصی عدالتوں میں اعلی شہرت یافتہ ججز کے ساتھ ساتھ پراسیکیوٹرز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے، ملک کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچانے والوں کو قرار واقعی سزا دیں گے۔ سمگلنگ کی روک تھام کے آپریشن کے دوران پکڑی جانے والی چینی اور یوریا کو بازار میں حکومت کے تعین شدہ نرخ پر فروخت کیا جائے۔حکومت نے ملک سے اشیا ضروریہ بیرون ممالک اسمگل کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا، ابتدائی طور پر گندم، آٹا، چینی اور کھاد پر مشتمل چار اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کو بھاری جرمانوں اور دوسال قید کی سزائیں دینے کا اطلاق کردیا گیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ابتدائی طور پر گندم، آٹا، چینی اور کھاد پر مشتمل چار اشیا کو اشیائے ضروریہ کے طور پر نوٹیفائی کردیا ہے۔ ایف بی آرکے جاری کردہ نوٹی فکیشن 945(I)/2023 میں بتایا گیا ہے کہ کسٹمز ایکٹ 1969 کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ان چار اشیا کو اشیائے ضروری قراردیا گیا ہے۔ایف بی آر نے کسٹمز ایکٹ 1969 کو 1977 کے ایکٹ کے مطابق بنایا ہے جس کے ذریعے حکومت نے ابتدائی طور پر گندم، آٹا، چینی اور یوریا کو اشیائے ضروریہ ڈیکلیئر کیا ہے، اس اقدام سے اب ان اشیا کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔ابھی چار اشیا پر مشتمل اشیائے ضروریہ کی فہرست دی گئی ہے دوسرے مرحلے میں اشیائے ضروریہ کا دائرہ کار مزید بڑھایا جائے گا اور مزید اشیا کو اشیائے ضروریہ قرار دیا جائے گا۔ ان اشیا کو اشیائے ضروریہ نوٹیفائی کرنے کے بعد ان اشیا کی اسمگلنگ پر کسٹمز ایکٹ کے تحت سخت سزائیں دی جائیں گی اور کسٹمز ایکٹ کی سیکشن 156 کے تحت مذکورہ اشیا میں سے جو کوئی بھی چیز بیرون ملک اسمگل کرتے ہوئے پکڑی جائے گی اس اسمگل شدہ آئٹم کی مجموعی مالیت کے برابر جرمانہ عائد ہوا کرے گا اور جو آئٹم سامگل کرنے کی کوشش کی گئی ہوگی وہ اشیا ضبط بھی کرلی جائیں گی۔علاوہ ازیں ان اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کرنے والوں کو دو سال تک قید کی سزا بھی دی جاسکے گی۔ایک اندازے کے مطابق کوئٹہ سے تقریبا ہر دوسرے روز سوٹن چینی اور ہفتے میں تقریبا 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جا رہی ہے۔افغانستان کے چیمبرز آف کامرس کے مطابق بھی ایسے بیس سمگلنگ روٹس ہیں جن کے ذریعے چینی اور دیگر اشیائے خوردونوش پاکستان سے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔اس سامان پر کسٹم ڈیوٹی نہیں دی جاتی اور دونوں ملکوں کے درمیان بنی چیک پوسٹوں سے ہوتی ہوئی یہ بسیں اور ٹرک افغانستان کے آٹھ مختلف صوبوں میں پہنچ جاتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف تجارتی معاہدے قائم ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں کے باوجود سمگلنگ روٹس سے دوائیں اور چینی افغانستان پہنچ جاتی ہے۔ ڈسٹرکٹ چاغی بلوچستان کا ایک اہم پوائنٹ ہے، جہاں سے چینی افغانستان سمگل کی جاتی ہے لیکن یہ صوبہ بلوچستان کا واحد پوائنٹ نہیں۔ بلوچستان کے افغانستان سے متصل دیگر علاقوں جیسے چمن، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، پشین اور ژوب کے علاقے بھی سمگلنگ روٹ میں شامل ہیں۔ راستہ ایک ہی استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں مقامی تاجروں کی بڑی گاڑیوں کو پرمِٹ دیکھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے، وہیں غیر قانونی طور پر جانے والے ٹرک کا پرمِٹ ہی نہیں دیکھا جاتا۔یہ پرمِٹ پاکستان کی حکومت کی جانب سے مقامی تاجروں اور ان کی کمپنیوں کو جاری کیا جاتا ہے۔ جس میں کمپنی کے مالک کے شناختی کارڈ کی جانچ کرنے اور کاروبار کو دیکھنے کے بعد ان کے نام پر پرمِٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس پرمِٹ کے تحت مالک کے تابع مال لے جانے والے ٹرک اور انہیں چلانے والے ڈرائیوروں کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔ سمگلنگ کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر چاغی نے چینی کے پرمِٹ ایشو کرنے پر پابندی عائد کی ۔پنج پائی کا علاقہ ایک عرصے تک افغانستان سے تجارت کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن اب اس راستے کو حکومتی سطح پر بند کر دیا گیا ہے اور اب یہاں سے غیر قانونی طریقے سے چینی لے جائی جاتی ہے۔تاجروں اور حکام کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے پنجاب اور سندھ کے راستے چینی کو کوئٹہ پہنچایا جاتا ہے اور کوئٹہ سے افغانستان پہنچا دیا جاتا ہے۔پہلے چینی کو چاغی تک بس، گاڑی، ٹرک یا پھر ٹرین کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے ڈکھ کے ریگستانی علاقے سے افغانستان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔چاغی پہنچے والی ٹرین زیادہ تر ایران کے شہر زاہدان کی طرف جاتی ہے لیکن اس سے پہلے ہی نوکنڈی ریلوے سٹیشن پر اس سے چینی اور دیگر اشیا نکال کر اسے چھوٹی گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیج دیا جاتا ہے۔یہی طریقہ کار سرحد سے متصل دیگر علاقوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جہاں ریگستانی علاقہ استعمال کرتے ہوئے چینی کو چھوٹی گاڑیوں میں سمگل کیا جاتا ہے جبکہ شہروں سے مسافر بسوں کے ذریعے یہ چینی سرحد تک پہنچائی جاتی ہے۔چینی پنجاب اور گھوٹکی سے کوئٹہ آتی ہے یوریا، دوائوں اور دیگر اشیائے خورونوش کے ساتھ افغانستان بھیجی جاتی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایسے بیس سمگلنگ روٹس ہیں جن کے ذریعے چینی اور دیگر اشیائے خوردونوش پاکستان سے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔ چینی لے جانے کو کچھ لوگ غیر قانونی کاروبار کا ذریعہ بنا کر سرحد پار بھیج رہے ہیں جبکہ اس سے مقامی تجارت کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں