روس سے سستے تیل کی درآمد

پاکستان نے ٹیسٹ کیس کے طور پر روس سے کروڈ آئل کی امپورٹ کے لیے پہلا آرڈر دے دیا ہے، روس سے ایک لاکھ ٹن کروڈ آئل کی پہلی شپمنٹ مئی کے آخری یا جون کے پہلے ہفتے میں پاکستان پہنچے گی، اس شپمنٹ پر پاکستان کو اٹھارہ ڈالر فی بیرل تک ڈسکاﺅنٹ حاصل ہوگا جب کہ ادائیگیاں چینی کرنسی یوآن میں کی جائےں گی۔ پاکستان روسی تیل کو ریفائن کرکے حاصل ہونے والی پیٹرولیم مصنوعات کا تجزیہ کرے گا۔ اگرچہ روسی تیل کی خصوصیات بہت بہتر نہیں ہیں اور اس پر ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بھی کافی زیادہ ہیں، لیکن روسی حکام نے پاکستان کو عربی لائٹ آئل کی کوالٹی اور فریٹ سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے سولہ سے اٹھارہ ڈالر فی بیرل تک ڈسکاﺅنٹ دیا ہے، تاہم روسی تیل سے حاصل کردہ پیٹرولیم مصنوعات کا ریشو مختلف ہے جو پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔عربی آئل سے پنتالےس فیصد ہائی اسپیڈ ڈیزل اور پچےس فیصد فرنس آئل نکلتا ہے، جبکہ روسی تیل سے بتےس فیصد ہائی اسپیڈ ڈیزل اور پچاس فیصد فرنس آئل نکلتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر روسی تیل سے حاصل ہونے والی مصنوعات عربی تیل سے مطابقت نہ کرپائیں، تو پاکستان کو مزید ڈسکاﺅنٹ حاصل کرنا ہوگا۔ملکی ریفائنریز پاور پلانٹس کی ایل این جی پر شفٹنگ کے بعد پہلے ہی فرنس آئل کی کھپت کے مسئلے سے دوچار ہیں، پاکستانی ریفائنریز نے آئی پی پیز کی جانب سے فرنس آئل لینے سے انکار کے بعد فرنس آئل کو ایکسپورٹ کرنا شروع کردیا تھا، پاکستانی ریفائنریز 2015 سے ایل این جی کی امپورٹ شروع ہونے کے بعد سے فرنس آئل کی کھپت کی وجہ سے پریشان رہتی ہیں اور اکثر شٹ ڈاﺅن پر چلی جاتی ہیں۔حال ہی میں پارکو نے آئل مارکیٹنگ کمپنیز کی جانب سے فرنس آئل نہ لینے کی وجہ سے اپنا آپریشن پچھہتر فیصد تک کم کردیا تھا۔ ادھر روس نے پاکستان کو تین کرنسیوں، روسی روبل، چینی یو آن اور یواے ای کے درہم میں پیمنٹ وصول کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ پاکستان روس کو چینی یو آن میں ادائیگیاں کرے گا اور ایل سیز بینک آف چائنا کھولے گا، چینی کرنسی کے استعمال کا فیصلہ روس پر امریکی پابندیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے، دوسری وجہ ڈالر کی قلت بھی ہے۔معاشی ماہرین ڈالر کے علاوہ کسی بھی کرنسی میں روسی تیل کی ادائیگیوں کو ایک بہترین موقع قرار دے رہے ہیں۔وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کہہ چکے ہےں کہ روس کے ساتھ معاملات بہتر انداز میں چل رہے ہیں اور رواں ماہ روس سے خام تیل کی در آمد کا آغاز ہوجائیگا ،گیس کے ملکی ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور اس برس بھی موسم سرما میں گیس کی قلت کا سامنا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ کراچی کی صنعتوں کو بجلی اور گیس کی عدم فراہمی کے حوالے سے بھی شکایات آئی ہیں، چھوٹی صنعتوں کے بھی بجلی کے نرخوں پر اعتراضات ہیں،کراچی میں انفرا اسٹریکچر نہ ہونے کے باعث بعض علاقوں میں گیس کی فراہمی میں رکاوٹیں ہیں،ہماری پاس گیس کے ذخائر کم ہورہے ہیں اور چوبیس گھنٹے گیس فراہمی ممکن نہیں ہے، نومبرسے گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے، صاحب استطاعت لوگوں کےلئے گیس ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے تاہم غریب اور متوسط صارفین پر گیس کے نرخوں میں اضافہ کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔بلوچستان میں بارشوں اور موسم سرد ہونے کے باعث وہاں گیس کی طلب بڑھ گئی ہے ،ہمارا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ملک میں صنعتی پیداواری عمل کو بڑھایا جاسکے،موجودہ حالات کی کچھ ذمہ داری سپریم کورٹ پر بھی ہے،بنچوں کی تشکیل پر عدالت کے اپنے اندر اتفاق نہیں،سیاستدانوں کو کٹہرے میں لایا جارہا ہے ،سپریم کورٹ میں بے چینی پھیل رہی ہے تو ان سوالات کے جوابات سپریم کورٹ کے پاس ہیں،ایک فل کورٹ بنادیں تو اس میں کیا حرج تھا،ہم اسمبلی میں قاعدے کے ساتھ بات چیت شروع کررہے ہیں۔مصدق ملک نے کہا کہ عدلیہ کے اندر جو کچھ ہورہا ہے، ہم سے تو پوچھا جاتا ہے لیکن ان ججز سے بھی پوچھیں،آئین کی پاسداری کی ذمہ سپریم کورٹ کے ججز پر بھی ہے،یہ جو افرا تفری ہو رہی ہے ،اس کے کچھ جوابات عدلیہ کے پاس ہیں اور ان کو اس کا جواب دینا چاہیے،عوام کو سستے پٹرول کی فراہمی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ڈیلرز نے سستے پیٹرول کے حوالے سے کچھ تجاویز دی ہیں،وزارت پٹرولیم اس کا جائزہ لے کر ہی سستے پٹرول کی فراہمی کے حوالے سے کوئی اسکیم تیار کرے گی۔درےں اثنا خےران بات ےہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی عالمی پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے روس سے سستا پیٹرول خریدنے کا آغاز کردیا ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق یوکرین جنگ سے قبل روس سے پیٹرول نہ خریدنے والے ممالک صدر پوٹن کے رعایتی نرخوں پر پیٹرول کی فراہمی کے اعلان کے بعد سے روس سے پیٹرولیم مصنوعات خرید رہے ہیں۔وال اسٹریٹ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ روس سے سعودی عرب یومیہ ایک لاکھ بیرل اور متحدہ عرب امارات ساٹھ ملین بیرل کی ریکارڈ خریداری کر رہا ہے حالانکہ سب سے بڑے خریدار سنگاپور نے چھبےس ملین بیرل پیٹرول خریدا۔وال اسٹریٹ رپورٹ کے مطابق روسی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کٹوتی سے توانائی کی کمی کے شکار بھارت جیسے کچھ ممالک کو تو فائدہ پہنچا ہی ہے لیکن رعایتی نرخوں سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے والوں میں خلیج فارس کی تیل سے مالا مال ریاستوں بھی شامل ہوگئیں۔ تیل کے سب سے بڑے ذخائر رکھنے والے ممالک کو روس سے سستی قیمت پر پیٹرولیم مصنوعات خرید کر اسے زیادہ قیمتوں پر فروخت کرنے کا سنہری موقع مل گیا۔ امریکی و مغربی ممالک کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خلیجی ممالک کی روس سے غیر متوقع پیٹرول کی خریداری کا مطلب ہے کہ مشرق وسطی پر امریکا کا اثر و رسوخ کم ہورہا ہے۔امریکا سمجھتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی روس سے تیل اور ایندھن کی خریداری یوکرین جنگ سے روس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کےلئے بنائی گئی مغربی اتحاد کی پالیسیوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ امریکی وزارت خزانہ کے اہم حکام نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے ممالک کو روس کے خلاف مغربی پابندیوں کے نفاذ پر قائل کرنے کے لیے فروری میں مشرق وسطی کا دورہ کیا تھا۔گزشتہ برس امریکا اور مغربی ممالک نے یوکرین جنگ کے سبب سخت پابندیاں عائد کردی تھیں جس پر روس اپنی پیٹرولیم مصنوعات بہت سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔روس کی اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تو امریکا اور مغربی ممالک نے روس سے پیٹرول خریدنے کی کم سے کم قیمت کا تعین کردیا تھا اور اس کی خلاف ورزی پر خریدار ملک پر پابندیوں کا عندیہ بھی دیا تھا۔انڈےا بھی بڑے پےمانے پر روسی سستا تےل درآمد کر رہا ہے ماہرین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر انڈیا کی نجی کمپنیاں سستا روسی تیل درآمد کر رہی ہیں جس سے مستقبل میں زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑ سکتا ہے۔وزارت تجارت و صنعت کے مطابق مئی اور نومبر2022 کے درمیان سات مہینوں میں انڈیا نے روس کو تیل کے لیے بےس بلین ڈالر کی ادائیگی کی جو کہ گذشتہ دس سالوں میں اس کی جانب سے ادا کی گئی سب سے بڑی رقم ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جب انڈین حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ قومی مفاد میں روسی تیل درآمد کر رہی ہے تو لوگ توقع کرتے ہیں کہ اس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔انڈیا سے خریدے جانے والے روسی تیل کا تین چوتھائی نجی کمپنیاں ریلائنس اور روس کے زیر کنٹرول نیارا انرجی خریدتی ہیں۔ریلائنس جو خام تیل خریدتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ روس سے آتا ہے، جبکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے یہ صرف پانچ فیصد تھا۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انڈین آئل کارپوریشن، بھارت پیٹرولیم اور ہندوستان پیٹرولیم جیسی سرکاری تیل کی کمپنیوں کو سستے روسی تیل کا بہت کم حصہ ملتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نجی کمپنیاں جو روسی خام تیل درآمد کرتی ہیں، اسے ریفائن کر کے دوبارہ برآمد کرتی ہیں، وہ زیادہ منافع کما رہی ہیں۔ اور وہ ریکارڈ منافع کما رہی ہیں۔ انڈیا نے گذشتہ سال کے آخری سات مہینوں میں روس کو تیل کی خریداری کے بدلے بےس ارب ڈالر ادا کیے، جو عام لوگوں کے لیے نہیں بلکہ کچھ نجی کمپنیوں کے بھاری منافع کے لیے ادا کیے گئے۔پہلے بھارت تقریبا ایک فیصد خام تیل روس سے درآمد کرتا تھا، اب خام تیل کی درآمد بےس فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔انڈیا روس سے روزانہ تقریبا بارہ لاکھ بیرل خام تیل خرید رہا ہے۔ خام تیل کے علاوہ انڈیا روس سے خوردنی تیل اور کھاد بھی درآمد کر رہا ہے۔ انڈیا اب تک تقریبا تےس ارب ڈالر کا خام تیل خرید چکا ہے اور یہ رقم روسی بینکوں میں پڑی ہے۔اب پاکستان نے سستا روسی تےل خرےدنے کا فےصلہ کےا ہے تو ےہ خوش آئند ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو بھی اس کا فائدہ پہنچاےا جائے ۔