انتخابات: عدلےہ کا فےصلہ واپس نہ لےنے کا اعلان

ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہےں کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، کسی نے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔ انہوں نے سیاسی قائدین کو انتخابات کے معاملے پر آج ہی مشاورت کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے سماعت میں چار بجے تک کا وقفہ کردیا۔وقفے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں ان سے ملاقات کی۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس کو آگاہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ سماعت اب 27اپریل کو ہوگی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ معاملے کی سماعت کررہا ہے۔گزشتہ روز وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کرنے کے بعد عدالت نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کل پیشی پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کو طلب کیا تھا۔آج سماعت کا آغاز ہوا توچیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں؟شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے، ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے، دیکھتے ہیں کی حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے، ہمارے جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے، مناسب ہو گا عدالت تمام قائدین کو سن لے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں، صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا، عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں الیکشن ہوں اور درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نظر ہوگیا۔ فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا، اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، مسلم لیگ نون نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ موقف ہے کہ نوے دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے، عدالت دو مرتبہ نوے دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے، سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات کا کام شروع کر چکی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی، آصف علی زرداری بھی اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں، عید کے فوری بعد حکومتی اتحاد کے اندر سیاسی ڈائیلاگ کریں گے پھر پی ٹی آئی سے پھر مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ان مذاکرات سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو، الیکشن جتنی جلدی ممکن ہو ایک ہی دن ہونے چاہیں۔ عام انتخابات ایک دن میں ہوں تو بہت بہتر ہوگا، حکومتی جماعتوں کا پہلے بھی یہی موقف تھا کہ ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، کیوں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نوے روز کا وقت گزر چکا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کسی ادارے کی مداخلت کے بغیر الیکشن ہونے چاہئیں۔عدالت میں اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم قیادت کے مشورے کے بعد آپ کے سامنے آئے ہیں، ملک میں انتشار اور اضطراب نہیں ہونا چاہیئے، یقین رکھتے ہیں کہ ایک ہی دن الیکشن ہونے چاہئیں۔رہنما مسلم لیگ نون کا کہنا تھا کہ ہم مقابلے پر نہیں مکالمے پر یقین رکھتے ہیں، ہم سیاسی لوگوں کو مذاکرات کے ذریعے حل نکالنا چاہیئے۔ ہم نے عید کے بعد اتحادیوں کا اجلاسں بلایا ہے، اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم جو میڈیا پر بات کرتے ہیں وہ اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔مسلم لیگ قاف کے قائد چوہدری شجاعت کی ہدایت پر طارق بشیر چیمہ عدالت میں پیش ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے مذاکرت کا عمل شروع ہو، ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہیے، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کردے گا۔ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کریں گے تو پھر سب کے لیے بہتر ہوگا۔قمر الزمان کائرہ نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ہماری جماعت کی کوشش تھی کہ اس ہیجان کو ختم کیا جائے، پہلے ہم اپنے پارٹی اور پھر اتحاد میں شامل قیادت سے ملے جبکہ کل اپوزیشن رہنماﺅں سے ملاقات کی۔جب جب تلخیاں بڑھیں تو اس کے نقصانات نکلے، لیکن مسئلہ پھر بھی مذاکرات سے حل ہوا، ہم نے اس عمل کا آغاز پہلے سے شروع کر رکھا ہے گزشتہ حکومت میں بھی قومی مسائل پر ساتھ چلیں اب بھی ملک کے لیے مل کر چلیں گے۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے صابر قائم خانی عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جائے، ملک میں انتخابات ایک دن میں ہوں تو بہتر ہوگا۔بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی جانب سے محمد اسراراللہ ترین عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونے چاہیئیں، ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ الیکشن ایک ہی دن ہوں۔دورانِ سماعت پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہوئے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارٹی کا نقطہ نظر ہیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی، آئین نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے، کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا لیکن عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔ادھر دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس بینچ پر پارلیمنٹ عدم اعتماد کر چکی ہے، ایک سے زائد قراردادیں پاس ہو چکی ہیں، جس بینچ پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا ہے اس بینچ کے سامنے میں کیسے پیش ہو جاﺅں، بینچ کے سامنے پیش ہونا نہ پارلیمنٹ کی قرارداد کا تقاضا ہے نہ ان کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلاول نے بھی سیاسی امور پر بات کی اور فون پر آصف علی زرداری سے بھی بات ہوئی، اس کے بعد مسلم لیگ نون کی قیادت، ان کے وزرا نے فون پر بات کی اور ان کا خیال تھا کہ عدالت نے بلایا ہے اور عدالت ہمیں کہہ رہی ہے کہ آپ عمران خان سے بات کریں اور الیکشن کی کسی ایک تاریخ پر اتفاق رائے کریں۔ ہم نے اپنا موقف دیا ہے کہ عدالت اپنی پوزیشن واضح کرے کہ کیا وہ ایک عدالت ہے یا پنچایت ہے، جس طرح وہ انصاف کے مندر سے ہتھوڑا بجا رہے ہیں، آئین کی رو سے نوے دن میں الیکشن کرانا ناگزیر ہے لیکن اگر عمران خان آپ سے کسی ایک تاریخ پر آپ سے اتفاق کر لیں تو قبول ہے، یہ کونسا آئین ہے، یہ کس آئین کا تقاضا ہے کہ وہ چاہیں تو پھر نوے دن آئین کے تحت ناگزیر ہیں اور اگر عمران خان کسی اور تاریخ پر راضی ہو جائے تو وہ تاریخ ہمیں قبول ہو گی۔پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ جس شخص کو اب تک نااہل ہوجانا چاہیے تھا، جس کو پاکستان کی سیاست کے دائرے سے باہر رکھا جانا چاہیے تھا، ہماری سپریم کورٹ اس کو سیاست کا محور بنا رہی ہے۔ اسمبلی قانون پاس کر چکی ہے، عدالت جس اختیار کے تحت ہمیں دھونس دکھا رہی ہے شاید اب اس کا وہ اختیار نہیں رہا ہے، اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کا احترام کرنا ہو گا اور اس کی پیروی کرنی ہو گی۔ہمیں عدالت میں بلایا گیا لیکن ہم نے عدالت، اپنے دوستوں اور حکمران اتحادیوں سے بھی کہا کہ اس بینچ کے اوپر پارلیمنٹ عدم اعتماد کر چکی ہے، ایک سے زائد قراردادیں پاس ہو چکی ہیں، ہمارا وزیر قانون اور اٹارنی جنرل انہیں جا کر یہ بتا چکا ہے کہ ہم آپ پر عدم اعتماد کررہے ہیں، جس بینچ پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا ہے اور پارلیمنٹ کے فیصلے سے اس کو آگاہ کیا گیا ہے، آج اس بینچ کے سامنے میں کیسے پیش ہو جاﺅں، اسے یقین دہانیاں کراﺅں، لہذا بینچ کے سامنے پیش ہونا نہ پارلیمنٹ کی قرارداد کا تقاضا ہے نہ ان کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، ہم کس شخص سے مذاکرات کریں، اگر وہ واقعی الیکشن چاہتا تھا تو اس وقت قومی اسمبلی کیوں نہیں توڑ رہا تھا، اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کیوں نہیں توڑ رہا تھا، اس نے ملک کی سیاست میں مشکل پیدا کرنے کی غرض سے حرکتیں کی ہیں۔