وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید خان سے پارلیمانی سیکرٹری برائے جنگلات دلشاد بانو اور پارلیمانی سیکرٹری برائے تعلیم ثریا زمان نے ملاقات میں نئی اے ڈی پی میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے مزید نئے منصوبوں سمیت جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق وزیراعلی کو آگاہ کیا اس موقع وزیراعلی خالد خورشید نے خواتین کو درپیش مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے خواتین ارکان اسمبلی کی کوششوں کو سراہا وزیراعلی نے کہا کہ خواتین کی فلاح و بہبود کے اقدامات میں تیزی لائی جائیگی اور خواتین کو بااختیار بنانے اور روزگار کے مواقع کی فراہمی کے اقدامات میں تیزی لائی جائے گی۔معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت مثبت و فعال کردار ادا کرتی ہے۔ اس لحاظ سے عورت کی تعلیم و تربیت بے حد اہمیت رکھتی ہے کیونکہ تعلیم انسان کو جہاں دینی و دنیاوی علوم سکھاتی ہے وہیں اس بات کا احساس بھی دلاتی ہے کہ اس پر دینی و دنیاوی شعبوں میں کیا کیا فرائض عائد ہوتے ہیں اور پھر یہی شعبے فرائض کے عائد کرنے کے بعد اسے زندگی کو حسین اور معاشرے کو خوبصورت بنانے کے لیے کون کون سے حقوق دیتے ہیں۔آج عورت چونکہ تعلیم یافتہ ہے اس لیے وہ اپنے فرائض سے مکمل طور پر بہرہ ور ہے اور گھر سے لے کر معاشی محنت تک، سیاست سے صحافت تک، تعلیم سے تربیت تک اور خدمت سے لے کر ترقی تک ہر شعبے میں اپنے فرائض ایک مستحکم کردار کے ساتھ ادا کرتے ہوئے ملک و معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے، مگر افسوس فرائض کی بجاآوری کے باوجود بھی عورت کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے اور گھر کی چار دیواری سے لے کر سیاست کے میدانوں تک اس کا استحصال کیا جارہا ہے، گوکہ سابق حکومت نے زیریں ایوانوں سے لے کر ایوان بالا تک خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دے کر پاکستان میں ایک منصفانہ معاشرے کی بنیاد ڈالی تھی مگر اس کے اثرات ابھی تک نچلی سطح تک نہیں پہنچ سکے اور معاشرے نے ابھی تک اس اقدام کو اور اس کی افادیت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔جب ہم شہروں میں رہنے والی خواتین کا اور دیہاتوں میں رہنے والی خواتین کا معاشرے میں مقام کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ افسوسناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ دیہاتوں کا تو خیر ذکر ہی کیا، شہروں میں بھی عورت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے، خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، ان کی عصمت دری، ان پر تشدد اور بدچلنی وغیرت کے نام پر ان کے قتل کی خبروں سے مزین رسائل و اخبارات اس بات کی گواہی دیتے رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ابھی اتنا متمدن اور تہذیب یافتہ نہیں ہوا جہاں انسانوں کو اپنے جذبات پر قابو حاصل ہو اور وہ اپنی غلط نفسانی خواہشات کی تکمیل پر معاشرے کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں۔خواتین کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ خواتین میں تعلیم کو فروغ حاصل ہو اور معاشرے کو اس بات کی اہمیت کا احساس دلایا جاسکے کہ عورت کو تعلیم سے محروم رکھنا اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر تربیت سے محروم کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آج کی تعلیم یافتہ بیٹی کل ماں بن کر مستقبل کے نونہالان کو صرف بہترین تربیت ہی نہیں بلکہ ایک کامیاب مستقبل بھی دینے کا سبب بن سکتی ہے۔آج کی عورت صرف گھر کی چار دیواری میں رہ کر گھر کو جنت بنانے کا عمل انجام نہیں دیتی بلکہ اگر اسے موقع دیا جائے تو قومی و بین الاقوامی سطح پر عزم و ہمت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جس طرح خواتین اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارا معاشرہ بھی دیگر ترقی یافتہ معاشروں کی طرح اتنا متمدن ہوجائے گا کہ یہاں کی عورت کو تمام حقوق حاصل ہوں گے اور وہ وقت معاشی و معاشرتی خوشحالی کا ایک سنہرا دور ہوگا۔ یہاں والدین کو بھی اپنی ذمے داری یاد رکھنی چاہیے۔ اسلام جیسے آفاقی مذہب نے جب اس بات کی تصدیق کردی کہ لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں اور اسلام نے جتنی آزادی دی اور حقوق عورت کو دیئے ہیں کسی اور مذہب نے نہیں دیئے۔اسلام نے توازن، اعتدال اور انصاف پر زور دیا ہے۔ بھروسہ اور یقین زندگی کے لیے لازمی ہیں۔ پاکستانی خواتین یورپ کی عورت کو آزاد اور خودمختار سمجھتی ہیں تو کیا وہاں عورت کی اتنی عزت ہے جتنی ہمارے معاشرے میں ہے؟ ہرگز نہیں۔ عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے، بہن ہے تو رحمت ہے، بیوی ہے تو عظمت و عزت ہے، لیکن اس جنت، رحمت اور عظمت و عزت کا محافظ مرد ہے۔ مردو عورت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ آج ہر شعبے میں عورتیں اور مرد شانہ بشانہ کام کرتے نظر آتے ہیں اور مرد وعورت برابر کے حقوق رکھتے ہیں، دنیا کا ہر مذہب اس پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور جتنے حقوق اسلام نے عورت کو دیے ہیں اس کی نظیر ساری دنیا میں نہیں ملتی، لیکن پھر بھی حقوق سے عدم آگہی اور فرائض سے غیر ضروری واقفیت اور پھر اس واقفیت کو اپنے ماحول، اپنی عقل کی سطح پر لاکر بغیر سوچے سمجھے قبول کرنا ہی مسائل کو جنم دے رہا ہے، پاکستان میں عورت اور مرد بلاتفریق کئی شعبوں میں ساتھ کام کرتے نظر آتے ہیں حتی کہ وزارت عظمی جیسے اہم عہدے پر بھی خاتون فائز رہ چکی ہیں، سیاست، طب، ادب، تعلیم، کھیل، مذہب، وکالت، صحافت غرضیکہ تقریبا ہر شعبے میں عورت نے خود پر کیے گئے اعتماد کا مان رکھا اور ملک کے استحکام کے لیے اپنا انفرادی کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔خواتین کی فلاح و بہبود اوراقتصادی حوالے سے بہتر انداز میں قومی دھارے میں لانے کی کوششیں از حد ضروری ہیں ۔ پاکستان میں گو کہ گزشتہ چند دہائیوں سے مختلف سطحوں، بالخصوص روزگار کی منڈی میں، صنفی تفاوت کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں مگر آج بھی ملک کی اس نصف آبادی کا جاب مارکیٹ میں حصہ بہت کم ہے۔ اس کی ایک وجہ ملکی اقتصادی صورتحال ہے مگر اور بھی کئی وجوہات ہیں جن کے باعث روزگار کی منڈی میں خواتین کی شرح ان کی کل آبادی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔پاکستان میں خواتین کی ملازمت میں شمولیت کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ایسی خواتین جو کام کر سکتی ہیں، ان میں سے صرف بائیس فیصد خواتین کام کر رہی ہیں۔ اور ان میں سے تقریبا چوہتر فیصد خواتین غیر رسمی اکانومی میں کام کر رہی ہیں جس میں چھوٹے موٹے کام شامل ہیں، جو گھروں سے کانٹریکٹر کے ذریعے ہو رہے ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ خواتین زراعت کے شعبے میں ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر دس خواتین جو کام کر رہی ہیں ان میں سے سات ایگریکلچر سیکٹر میں کام کر رہی ہیں۔زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی اکثریت دراصل اپنے خاندان کے مرد حضرات کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور انہیں اس کام کی کوئی اجرت نہیں ملتی یا جو ملتی ہے وہ مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہے۔قومی سطح پر جو اعداد و شمار اکھٹا کیے جاتے ہیں ان کے مطابق اگر مرد اور عورت ایک ہی کام کر رہے ہوں تو عورت کی تنخواہ تقریبا ساٹھ فیصد کم ہوتی ہے۔ یعنی اگر مرد کو سو روپے مل رہے ہیں تو عورت کو پینتیس سے لے کر ساٹھ روپے تک ملتے ہیں۔ یہ فرق ذرا سا کم ہو جاتا ہے اگر عورت اعلی تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ لیکن ہماری زیادہ تر خواتین ان پوزیشنز پر نہیں ہیں۔ یعنی محض ایک یا ڈیڑھ فیصد خواتین ایسی ہیں جو مینجمنٹ پوزیشنز پر فائز ہیں۔حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ہماری سول سروس میں دس فیصد خواتین ہوں گی لیکن وہ تین فیصد سے زیادہ ہو ہی نہیں پاتیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں ان پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔ روزگار کی منڈی میں خواتین کی شمولیت شہری علاقوں میں نسبتا کم ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 80 فیصد سے زائد پاکستانی خواتین کی جاب مارکیٹ میں عدم شمولیت کی اہم وجوہات میں خواتین پر عائد گھریلو ذمہ داریاں اور تعلیم کی کمی شامل ہیں۔ خواتین کی فلاح وبہبود کے حوالے سے کام کرنے والوں کے مطابق اس طرح جو اصل صورتحال بنتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں کل برسر روزگار افراد جنہیں اجرت ملتی ہے ان میں سے خواتین کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے۔خواتین کو روزگار کے شعبے میں شمولیت میں اضافے کے لیے کئی اقدامات کی ضرورت ہے، ایک تو خواتین جو کام کرتی ہیں ان کا کام سراہا نہیں جاتا۔ دوسرا ہمارے ملک میں کچھ سماجی پابندیاں بھی ہیں یعنی خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اگر لڑکیاں گھر سے باہر جائیں گی یا کام کریں گی تو اس میں کوئی برائی ہوتی ہے لیکن جب لڑکیاں کام کاج کرنے باہر نکل بھی جاتی ہیں تو تنخواہ کا مسئلہ آتا ہے۔ اس کے علاوہ ہراساں کرنے کا بھی ایک فیکٹر موجود ہے۔ ہمارے یہاں جب خواتین آتی ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یا تو وہ بہت مجبور ہیں اور اگر مجبور نہیں تو ضرور کوئی گڑبڑ ہے جو لڑکی گھر سے نکلی۔تاہم اب حالات میں کچھ حد تک بہتری آ رہی ہے۔ قابل تحسین بات یہ ہے کہ اب خواتین کو جن مسائل کا، ظلم کا یا نا انصافی کا سامنا ہوتا ہے وہ اسے کھل کر بتانے لگی ہیں۔ میڈیا میں آکر اس پر آواز اٹھانے لگی ہیں۔ پہلے تو خواتین میں آواز اٹھانے کی جھجھک توڑنا ہی بڑی بات ہے۔ اور اب اگر ایک عورت میڈیا میں بات کر سکتی ہے تو اپنے گھر، اپنے جرگے یا علاقے کے بڑوں سے بھی اس حوالے بات کر سکتی ہے اور یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ بے تحاشا ترقی کے باوجود جنوبی ایشیا میں خواتین کے لیئے حالات سازگار نہیں ہوسکے ہیں۔