عدلےہ اور پارلےمنٹ کے اختےارات کا غلغلہ

آج کل ملک بھر میں عدلےہ اور پارلےمنٹ کے اختےارات کا بہت غلغلہ ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے آٹھ صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے۔حکمنامے کے مطابق حالیہ قانون سازی بادی النظر میں عدالتی اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے تاحکم ثانی مجوزہ قانون پر عمل درآمد روک دیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ نون ،پیپلز پارٹی، جے یو آئی کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے ۔پاکستان تحریک انصاف کو بھی نوٹس کردیا گیا۔سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے متفقہ طور پر حکم نامہ جاری کیاحکم نامے میں کہا گیاکہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی ۔بل قانون کا حصہ بنتے ہی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت شروع ہو جائے گی ۔صدر بل پر دستخط کریں یا نہ کریں عملدرآمد نہیں ہوگا۔عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی،بل کو فوری روکا جاتا ہے۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کا حکم نامہ آٹھ صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ۔حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف تےن درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت دومئی کو ہو گی، حکم امتناعی کا اجرا نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کیلئے متفکر ہے، اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے عدالت کی مداخلت درکار ہے، سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلا کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جس کے پاس قانون ریگولیٹ کرنے کی طاقت ہو وہ اس کو تباہ کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے، موجودہ کیس میں عدلیہ کی آزادی کی تباہی کا خدشہ ہے، کیا مقننہ کے پاس سپریم کورٹ کے قوانین میں ردوبدل کا اختیار ہے؟ واضح ہونا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 191 میں اختیارات میں ردوبدل کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں، عدالت کی پریکٹس اور پروسیجر میں ردوبدل خواہ کتنی ہی ضروری ہو عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرتی ہے، مجوزہ بل یا ایکٹ کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔عام حالات میں سپریم کورٹ صرف فیصلوں یا ایکشن پر حکم امتناعی جاری کرتی ہے، عام طورپرقانون پر حکم امتناعی نہیں دیا جاتا، موجودہ کیس کے حقائق اور اثرات معمولی نہیں ہیں، بادی النظرمیں ایکٹ سپریم کورٹ کے اختیارات میں براہ راست مداخلت ہے، عدلیہ کی آزادی میں براہ راست مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی، احتیاط کے طور پر عدالت کو حکم جاری کرنے کی ضرورت ہے۔پارلیمنٹ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم سے اپیل کا حق بھی دے رہی ہے، دیکھنا ہو گا کیا پارلیمنٹ عدالت کی ایپلیٹ دائرہ اختیاری میں ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں، فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کی انٹری 55 سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتی ہے، پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ میں اپیل کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کا اختیار حاصل نہیں ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار کو تبھی بڑھا سکتی ہے جب آئین اجازت دے، آئین پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار کو بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل نے اہم قانونی نکات اٹھائے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق بھی نکتہ اٹھایا گیا، سپریم کورٹ بل کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی، تحریک انصاف، قاف لیگ اور حکومتی اتحادی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں ، اس کے علاوہ اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے ہیں اور کیس کی مزید سماعت دومئی کو ہوگی۔امتیاز صدیقی کے مطابق ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ بل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا، بل پاس ہوجائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی، عدالتی فیصلے کے مطابق صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے کے لیے بااختیار ہے، تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں، سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی، عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے، پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔صدر ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے، صدر کا عہدہ صرف رسمی نوعیت نہیں ہے، صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی، اسمبلی منظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہوسکتی، بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے، عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التوا قانون سازی میں مداخلت نہیں ہوگا، پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی اس لیے یہ مداخلت تصور نہیں ہوگی۔ دوسری جانب حکومت میں شامل جماعتوں نے سپریم کورٹ پروسیر بل پر عدالت عظمی کے آٹھ رکنی بینچ کے قیام کو مسترد کیا۔مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ حکمران جماعتوں نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل پرمتنازع بینچ تشکیل دینے کا اقدام مسترد کرتی ہیں۔ اس نوعیت کا اقدام پاکستان اور عدالت کی تاریخ میں اس سے قبل پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، یہ ملک کی اعلی ترین عدالت کی ساکھ ختم کرنے، انصاف کے آئینی عمل کو بے معنی کرنے کے مترادف ہے۔مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی تقسیم سے حکومت میں شامل جماعتوں کے موقف کی پھر تائید ہوئی، بلوچستان اورخیبرپختونخوا سے کوئی جج بینچ میں شامل نہ کرنابھی افسوسناک ہے، حکمران جماعتیں اس اقدام کو پارلیمان اور اس کے اختیار پر شب خون قرار دیتی ہیں، اس اقدام کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔حکمران جماعتوں کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پارلیمان کا اختیار چھیننے اور اس کے دستوری دائرہ کار میں مداخلت کی کوشش کی مزاحمت کی جائے گی، آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمان کے اختیار پر سمجھوتانہیں کیاجائے گا۔مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ متنازع بینچ کی تشکیل سے نیت اور ارادے کے علاوہ آنے والے فیصلے کا بھی واضح اظہار ہوجاتا ہے، بل کو سماعت کے لیے مقرر کرنے سے نیت اور ارادے کے علاوہ آنے والے فیصلے کا بھی واضح اظہار ہورہا ہے۔ قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی تھی جس میں بینچ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے سپریم کورٹ کے خلاف قرارداد پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان عدالتی اصلاحات سے متعلق قانون سازی کے خلاف آٹھ رکنی بنچ کو مسترد کرتا ہے، سپریم کورٹ بنچ میں دو سنیئر ججز کو شامل نہیں کیا گیا۔قرارداد میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ پارلیمنٹ ایک آئین ساز ادارہ ہے اور آئین سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، یہ ایوان سپریم کورٹ کی مداخلت کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ غیر منصفانہ فیصلے کر رہا ہے، یہ ایوان سپریم کورٹ بل کی درخواست لینے کی مذمت کرتا ہے، اس بینچ میں سینئر ترین ججز کو شامل نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، یہ ایوان بینچ تحلیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔مذکورہ بل نے پاکستان کے پہلے سے گرم سیاسی ماحول کا درجہ حرارت مزید بڑھا دیا۔ نہ صرف یہ قانون تنازعات کا شکار ہے بلکہ اس قانون کے خلاف بننے والے سپریم کورٹ کے بینچ کو بھی متنازعہ قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس مسئلے پرسپریم کورٹ کی مدد کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے اور اس نے سپریم کورٹ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے بھی کیے ہیں۔اس معاملے پر نہ صرف سیاسی جماعتیں منقسم ہیں بلکہ تقسیم کی یہ لہر عدلیہ، میڈیا اور وکلا برادری کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اس صورتحال میں آٹھ کروڑ لوگ وہ بھی ہیں جو سطح غربت سے نیچے ہیں۔ بظاہر ان کو ان عدالتی کارروائیوں، قانون سازی، سیاسی بے یقینی اور لاحاصل سیاسی لڑائی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ان کی دلچسپی کا محور ان کے روزمرہ کی ضروریات ہیں، جس کے لئے لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں مفت آٹے کے ایک تھیلے کے لیے درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اس بحران کی ذمہ دار وہ طاقتیں ہیں، جو پاکستان میں آئین کی عملداری نہیں چاہتیں۔ ان کے خیال میں اگر آئین پر عمل کیا جائے تو موجودہ بحران بھی ختم ہو سکتا ہے اور ملک کو سیاسی عدم استحکام کی دلدل سے بھی نکالا جا سکتا ہے۔ملک کی گھمبیر سیاسی صورت حال کو حل کرنے کے لئے ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ مداخلت کر کے اس کا کوئی حل نکالا ہے۔ ساری سیاسی جماعتیں آپس میں الجھی ہوئی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی لیے تیار نہیں ہیں۔ موجودہ بحران کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ساری سیاسی جماعتیں موجودہ بحران کی ذمہ دارہیں۔ پہلے پاکستان تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر غیر آئینی اقدامات کئے اور اب مسلم لیگ نون کے رویے میں لچک نہیں ہے جس کی وجہ سے بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔