چلاس میں ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے زیر اہتمام انرولمنٹ کمپئین کے
حوالے سے ایک اہم سمینارسے خطاب کرتے ہوئے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی
الدین وانی نے کہا کہ گلگت بلتستان کی ترقی اور امن دیامر کی ترقی اور امن
سے مشروط ہے۔دیامر میں صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیمی اصلاحات کیلئے
اٹھائے گئے اقدامات کے مثبت نتائج آنے شروع ہوگئے ہیں۔دیامرمیں انرولمنٹ
کمپیئین حوصلہ افزا ہے محکمہ ایجوکیشن انرولمنٹ کمپیئین کو مزید تیز
کرے۔انہوں نے کہا کہ دیامر کا کوئی بھی بچہ گھر میں نہ رہے حکومت سکولوں
میں مفت تعلیم ،مفت کھانا اور مفت کتابیں دے رہی ہے امسال کتابوں کی تقسیم
وقت پر ہوئی ہے اس لیئے طلبہ و طالبات کا تعلیمی سفر کامیابی سے جاری رہے
گا۔چیف سیکرٹری نے کمشنر آفس کی نیو بلڈنگ کو فیمیل ڈاکٹر ہاسٹل بنانے کا
اعلان کردیا۔چیف سیکرٹری نے کہا کہ دیامر میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے
کیلئے ہرممکن اقدامات کو جاری رکھا جائیگا۔ےہ درست ہے کہ معاشرتی انصاف اور
فسادات کی روک تھام ہی ترقی کی ضامن ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت ہی حقیقی
معنوں میں ترقی یافتہ کہلاتا ہے جب وہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔ عوام
کی جان و مال اور عزت محفوظ ہو۔ جہاں عوام کو حق بات کہنے کی آزادی ہو، وہ
بلا خوف و خطر آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ عوام کو یہ یقین ہو کہ کوئی بھی
ان پر ظلم کرے گا تو اس سے اس کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر معاشرے
میں نا انصافی کا دور دورہ ہوگا تو معاشرہ تمام برائیوں کا گڑھ بن چکا
ہوگا۔ کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں ہوگی، عوام ظالموں کی شر
انگیزیوں سے عاجز ہوگی اور خستہ حالی کی زندگی بسر کر رہی ہوگی۔ایک ایسا
معاشرہ جہاں پسماندگی پھیلی ہوئی ہو۔ جس کو تیسری دنیا کا ملک بھی کہا جاتا
ہے۔ ایک ایسے معاشرہ جہاں صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں کی عوام
بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔ جہالت بھوک اور افلاس چہار سو ڈیرہ ڈالے
ہوئے ہے۔ بد امنی اور نہ انصافی کی بدولت عوام کی جان و مال اور عزت و
آبرو غیر محفوظ ہے۔ عوام ظالموں کے ظلم سے پریشان زندگی گزار رہی ہے۔ یہ
ایک ایسا معاشرہ ہے جو عدل و انصاف سے محروم ہے۔ ایسے معاشرے کی پسماندگی
کی بدترین وجہ نا انصافی ہے۔ایک ترقی یافتہ ملک۔ جسے صنعتی ملک بھی کہا
جاتا ہے۔ جہاں کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ عوام خوشحال ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ
ممالک کے پاس جدید تکنیکی ڈھانچہ ہوتا ہے اور صنعت کے متنوع شعبے ہوتے ہیں۔
عوام تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ ایسا معاشرہ بظاہر تو چمکتا دمکتا دکھائی دیتا
ہے لیکن حقیقی طور پر وہ ترقی یافتہ معاشرہ نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ ایسا اس
لئے ہے کہ وہاں بھی انصاف کی فراہمی یقینی نہیں ہوتی۔ وہاں عام آدمی کو تو
اس کے جرم پر سزا دے دی جاتی ہے، لیکن جب کوئی ارباب اختیار میں سے جرم
کرتا ہے تو اس سے نرمی برتی جاتی ہے۔ یعنی امیروں کے لئے الگ قانون اور
غریبوں کے لئے الگ قانون۔ عدالتی نظام اتنا کمزور ہے کہ وہ کمزوروں کو ہی
سزا دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس، امیر افراد پیسوں یا دیگر طریقوں سے مقدمات
سے باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ جب کہ نظام عدل میں بہتری کے بغیر کوئی ملک ترقی
نہیں کر سکتا۔ مضبوط معیشت، سیاسی استحکام، صنعتی ترقی، شرح خواندگی میں
اضافہ، روزگار کی فراہمی، آزادی، بہتر معیار زندگی، صحت کی جدید سہولیات
ترقےاتی معاشرے کی اہم خوبیاں ہیں لیکن سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ معاشرہ
عدل و انصاف کی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہاں امن و امان کا بول بالا ہے۔ عوام
کی جان و مال کی حفاظت کی جاتی ہے۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ ہر ایک کو
اپنے کیے کا حساب دینا ہوتا ہے۔ یہ ایک مثالی معاشرہ ہوتا ہے جہاں کوئی
کسی پر ظلم نہیں کر سکتا، کوئی کسی کا حق نہیں مار سکتا کوئی کسی کا مال
غصب نہیں کر سکتا، کوئی کسی کی عزت پر حملہ آور ہونے کی جرات نہیں کر سکتا۔
یہاں ہر ایک کو حق بات کہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔کسی بھی دور میں تعلیم
کی افادیت اور اس کی روحانی ضرورت سے منہ موڑا نہیں جا سکتا ۔ تعلیم کو
زندھ قوموں اور مہذب سماج کی بالادستی اس کی عظمت کی علامت گردانا جاتا ہے ۔
تعلیم یافتہ معاشرے کی پہچان صبر ، انکساری شکر گزاری، خوف خدا اور عزم و
استقلال جیسی اہم ترین عادات زندگی کا جزو لاینفک بن جاتی ہیں۔ حتی کہ
تعلیم یافتہ سماج با حوصلہ ، بلند ہمت اور انسانی اقدار کا سچا علمبردار
مانا جاتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم
کمزور ترین سماج کو طاقتور بنانے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کا اصل
مقصد یہی ہے کہ پاکیزہ اور صلح افکار سے متصف معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے
تاکہ سماج ہمدردی ، غمگساری اور خیر سگالی کے جذبہ سے معمور ہو ۔ادہر
تعلیم یافتہ افراد نور علم اور اپنی سنجیدہ کاوشوں کی بدولت نوع انسانیت کی
سعادت و کامرانی کی فکر کرسکیں جب معاشرے میں اس نوعیت سے محنت کی جائے تو
یقینا براہ راست اس کا فائدہ اہل علم کو ہونے کے ساتھ ساتھ سماج کے دبلے
کچلے اور علم سے محروم افراد کو بھی ہوگا ، اور اس صداقت سے قطعی انکار
نہیں کیا جا سکتا کہ تعلیم کے حصول کا جو ثمرہ ہے وہ یہی کہ بشریت کو زیادہ
سے زیادہ نفع حاصل ہو تعلیم کی روشنی ان گھروں تک بھی جائے جو لاچاری
مجبوری اور ناداری کیوجہ سے دولت علم سے محروم ہیں۔علم انسا ن کی مکمل
تکمیل کا خزانہ ہے ۔ علم کے ذریعہ سے انسان کی شخصیت اور روحانیت کے منازل
طے کرتی ہے ۔ تعلیم یافتہ افراد ایک بہترین تہذیب و تمدن اور مہذب معاشرے
کو جنم دیتے ہیں ۔ تعلیم سے ہی ہم اپنے علمی ورثہ اور اپنے تہذیبی و ثقافتی
زیور اور اعلی اقدار کو سنبھال کر اس سے مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ ان کا
تنقیدی جائزہ لے کر ماحول کے مطابق اس میں تعمیر نو کا رنگ بھر سکتے ہیں ۔
تعلیم ہر انسان کی ضرورت ہے ، مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک
ہے ۔ تعلیم و تربیت کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ انسانی شخصیت کو اعلی کردار
کی چوٹی تک پہنچایا جائے ۔تعلیم کا سب سے پہلا مقصد خود اپنی ذات کی تشکیل
ہے اور اپنی صلاحیتوں کا نشو ونما اور ارتقا ہے ، اور یہ اس وقت تک ممکن
نہیں جب تک آپ کے سامنے زندگی کے اصول اور قانون و ضوابط نہ ہوں جس کے لیے
آپ پورے کے پورے وقف ہوں جو فکر و خیال کا مرکز اور تگ ودو کا محور ہو ۔
پھر یہ مقصد جتنا اعلی اور آپ کی فطرت سے ہم آہنگ ہوگا اتنا ہی آپ کا ارتقا
ہوگا اور جتنی ہی یکسوئی اور والہانہ سپردگی کے ساتھ آپ اس مقصد کو اختیار
کریں گے اتنی ہی قریب اور ممکن المحصول آپ کی منزل ہوگی ۔ زندگی میں قیمت
اور وزن کسی مقصد کو اختیار کرنے سے ہی پیدا ہوتے ہیں ۔انسانی حیات کا ایک
دوسرا دائرہ ہے جس کا تعلق مادی کائنات سے ماورا یعنی ما بعد الطبیعاتی
حقائق کے ساتھ ہے جس میں کائنات حیات انسانی کا آغاز ، مقاصد تخلیق اور
انجام کار کی گھتی کو سلجھانا ہے تاکہ حیات انسانی اپنی حقیقی منازل کی
جانب گامزن ہوسکے ۔تہذیب جماعت کی ترقی میں ابن خلدون تعلیمی جدوجہد کو سب
سے زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ علم ودانش تشکیک ارتیاب اور تحقیق سے ذہن انسانی
معاشرت و ثقافت اور روحانی زندگی میں وہی وحدت پیدا ہوتی ہے تعلیم کا مسئلہ
ابن خلدون کے مباحث دوگانہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔عمرانیات تعلیم کے نقطہ نظر
سے بھی ابن خلدون کا تصور اس معنوی وحدت کا آئینہ دار ہے۔ اس کا اصرار ہے
تعلیم مذہب کے ساتھ وابستہ ہوکر اتحاد استحکام اور ترقی کی راہ ہموار
کرسکتی ہے اس کے نزدیک معاشرتی اور ثقافتی جدوجہد کی منظم صورت کا اظہار
تعلیمی قوتوں کے ذریعے ممکن ہے ۔ اسی خیال کو دیہی اور شہری عمرانیات بدوی
اور حضری زندگی کے مسائل کے سوا عروج و زوال کے نظریے میں دہراتا ہے ۔
تعلیمی جمود معاشرے کی بربادی اور اس کا عام چرچا اس کی ترقی کا موجب ہوتا
ہے ۔کسی بھی معاشرے کے نظریہ حیات اور فلسفیانہ تصورات سے ماخوذ ہوتے ہیں ۔
ہر قوم اپنے مقاصد کا تعین اپنے ملک کے تاریخی سیاسی معاشی اور معاشرتی پس
منظر میں کرتی ہے ۔ انسان میں تبدیلی کے ارادے کا تعلق زندگی بسر کرنے کا
ارادہ سے وابستہ ہے ، انسان اپنی عقل و فکر کے بل بوتے پر خود اپنی زندگی
کی تعمیر و تشکیل کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ چیزوں کے استعمال اور لوگوں سے
معاملات میں صحیح انداز اختیار کرے ۔معاشرتی زندگی کے تعمیری اجزا میں ایک
جز ابن خلدون کی تحقیق کی رو سے اتحاد عمل بھی ہے ۔ افراد کے خیالات اور
ارادوں کی ہم آہنگی سے جماعتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ معاشرتی اشتراک عمل
کا سب سے اہم اور سب سے اعلی تصور انہی عوامل میں پوشیدہ اور انہی پر منحصر
اور موقوف ہے ۔ ابن خلدون کے نقطہ نظر کے مطابق مختلف جماعتوں اور ادارات
کی یکجائی کاہے ۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مختلف جماعتوں اور ادارات
میں اتحاد نہ پیدا ہوجائے اگر ان کے وجود سے پراگندگی اور معاشرتی انتشار
پیدا ہوجائے تو نہ صرف زندگی بلکہ تمام معاشرے کی زندگی خطرہ میں پر جائے
گی ۔معاشرہ میں کچھ رسوم ورواج اور روایات ہوا کرتی ہیں ۔ جن روایات واقدار
کو معاشرہ قبول کرتا ہے وہ مثبت اور اخلاقی اقدار کہلاتی ہیں اور جن اقدار
کو معاشرہ مسترد کرتا ہے وہ منفی یا غیر اخلاقی اقدار کہلاتی ہیں ۔ اخلاقی
حقوق چونکہ رضا کارانہ نوعیت کے ہوتے ہیں اور انہیں حکومت ، انتظامیہ یا
عدالتوں کے ذریعہ سے نافذ نہیں کیا جاتا ۔ البتہ انسان کا اپنا ضمیر اور
معاشرہ کا دباﺅ اخلاق حقوق کے نفاذ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔