مہنگائی کا احساس ہی کافی نہیں عملی اقدامات کی ضرورت

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں لہذا اب آئی ایم ایف کے پاس معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک ٹوٹا پھوٹا معاہدہ حکومت کو جھولی میں ملا تھا جس کے لیے آج تک لکیریں کھنچوائی جا رہی ہیں، ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط ماننی پڑ رہی ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا اس دن کے لیے کہتاہوں زندگی میں ہم آئی ایم ایف سے جان چھڑا لیں، ایک دن آئی ایم ایف کی یہ بیڑیاں کٹ جائیں تو وہ پاکستان کی خوشی کا سب سے بڑا دن ہوگا اور پاکستان اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو گا۔ان کا کہنا تھا دن رات کوشش کر رہے ہیں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے، آئی ایم ایف کی شرائط میں آخری شرط دوست ممالک سے چند ارب ڈالر لانا تھی، چین نے دو ماہ پہلے اندازہ لگایا کہ پاکستان کو مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے، چین نے ہمارا دو ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کیا۔دوست ملکوں سے قرض کی شرط پوری کرنے کے لیے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے ساتھ آرمی چیف نے بھی اہم کردار ادا کیا، آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں، اب آئی ایم ایف کے پاس معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ آج کے حالات میں سادگی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہونا چاہیے، مفت آٹا اسکیم میری زندگی کا سب سے پر خطر منصوبہ تھا، مفت آٹا اسکیم کا میں نے کبھی سوچا نہ تھا، میں چاہتا تھا کہ مفت آٹا دینے کے بجائے کم قیمت پر آٹا دیا جائے، مفت آٹا دینے کی تجویز نگران وزیراعلی پنجاب کی تھی، اس منصوبے سے تقریبا 10 کروڑ لوگوں تک فری آٹے کی ترسیل ہوئی ہے، پنجاب میں ایک ماہ کے دوران فری آٹا دینے پر65 ارب روپے لگے۔ مہنگائی ہے اور عام آدمی تنگ ہے اس لیے فری آٹادینے کا انتظام کیا۔ان کا کہنا تھا 2018 سے پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہمارے منصوبوں پر پابندیاں لگائیں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پابندیاں اس لیے لگائیں کہ کہیں نون لیگ نہ جیت جائے، اورنج لائن کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر گےارہ ماہ کیس لگا رہا، ثاقب نثار نے اس کی کارروائی سنی اور آٹھ ماہ تک اس کا فیصلہ نہ دیا کیوں؟سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے بھائی کو پی کے ایل آئی میں لگانا چاہتے تھے۔ہم دےکھتے ہےں کہ خود عالمی مالیاتی فنڈ کے ڈائریکٹر جہاد آزور کا کہنا ہے کہ پاکستان آج اہم موڑ پر ہے، معاشی استحکام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈائریکٹر آئی ایم ایف جہاد آزور نے کہا کہ پاکستان نے جو حالیہ پالیسیاں اختیار کیں وہ درست سمت میں ہیں، موجودہ صورتحال میں مہنگائی پرقابو پانا ضروری ہے۔ زرمبادلہ کی شرح کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ کسی بیرونی جھٹکے سے بچا جائے۔ڈائریکٹر آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، پروگرام مکمل کرنے کے لیے فنانسنگ ضروری ہے۔برسوں سے بہت سے پروگرامز کے ذریعے پاکستان کو سپورٹ مہیا کی۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی آئی ایم ایف سے ورچوئل میٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ چکے ہےں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کے بعد اسٹاف لیول معاہدے کا خواہشمند ہے۔ پاکستان نے نویں جائزے کیلئے اہم شرائط پر پیشگی اقدامات کیے، پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدے پر سختی سے عمل درآمد کر رہا ہے۔میٹنگ میں ڈپٹی ایم ڈی، آئی ایم ایف انٹونیٹی منیسو نے کہا کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی کو سراہتے ہیں، اسٹاف لیول معاہدے کیلئے پاکستان کی کوشش کی قدر کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے اجلاس میں بتایا کہ تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بروقت پورا کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈایریکٹر کرسٹلینا جارجیوا کا کہنا تھا کہ وہ پرامید ہیں پاکستان گھانا اور سری لنکا کے راستے پر نہیں چلے گا اور موجودہ پروگرام پورا کرے گا۔ان تمام اقدامات سے پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو یہ امید ہوچلی کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی عائد کردہ شرائط حکومت نے پوری کردی ہیں اور جلد اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی دیکھی گئی اور مارکیٹ کا اختتام گزشتہ ہفتے تیزی پر ہوا۔ حکومت بجلی اور گیس کی فی یونٹ قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ضمنی بجٹ میں اضافی ٹیکس لگانے کی شرائط پہلے ہی مکمل کرچکی ہے مگر ہفتے کے اختتام پر یہ پتا چلا کہ آئی ایم ایف نے تمام تر شرائط پر عملدرآمد کیے بغیر اسٹاف لیول معاہدے سے انکار کردیا ہے۔پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ سے یہ معاہدہ سال 2019 میں عمران خان کی حکومت میں کیا تھا اور اسی وقت یہ بات کی جارہی تھی کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں آئی ایم ایف کا سخت ترین معاہدہ ہے۔ اس معاہدے پر دستخط کے بعد سے ہی معیشت میں گراوٹ دیکھی جارہی تھی۔ اس دوران دنیا کو کورونا وبا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پروگرام پر عملدرآمد عارضی طور پر رک گیا۔ اس کے بعد حکومت نے معیشت کو چلانے کے لیے بہت سی مراعات دیں جیسا کہ عوام کو نقد رقم کی فراہمی، اسٹیٹ بینک کی جانب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ، قرضوں کی معافی، صنعت کاری کے لیے نئے قرضے، اسپتالوں کی تعمیر کے لیے سستے قرضے وغیرہ۔ان اقدامات نے معیشت میں اصلاحات اور درستی کے لیے کیے گئے اقدامات پر پانی پھیر دیا۔ جب دنیا میں دوبارہ کاروباری سرگرمیاں بحال ہوئیں تو 2021 کے اختتام اور 2022 کے آغاز پر حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال کرنے کے لیے جائزہ رپورٹ پر دستخط کیے جس میں روپے کی قدر، اضافی ٹیکس عائد کرنے اور پیٹرول پر لیوی عائد کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا مگر ابھی اس کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ عمران خان نے بجلی کے نرخوں میں 5 روپے اور پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے کی نمایاں کمی کردی۔ ساتھ ہی اس قیمت کو جون تک مستحکم رکھنے کے احکامات جاری کردیے۔اس کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت قائم نہ رہ سکی۔ عمران خان کے اس عمل سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات اس قدر سستی ہوگئیں کہ جب نئے وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب سے مالی معاونت کی درخواست کی تو وہاں سے جواب ملا کہ بھائی ہم کیسے آپ کی معاونت کریں جب آپ ہم سے بھی سستا پیٹرول اپنے شہریوں کو فروخت کرر ہے ہیں۔نئی حکومت کے قیام کے بعد مفتاح اسمعیل وزیر خزانہ بنے مگر انہیں لندن اور اسلام آباد میں موجود اپنی قیادت کی جانب سے عمران خان کی حکومت کے دوران کیے گئے آئی ایم ایف مخالف اقدامات کو واپس کرنے میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر مفتاح اسمعیل وزیراعظم شہباز شریف کو منانے اور اصلاحات کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوگئے اور آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہونے کے ساتھ ایک قسط بھی جاری کردی گئی۔اپنی ہی جماعت کی ناراضی انہیں لے ڈوبی اور وزیر خزانہ کے طور پر اسحق ڈار نے ملکی معیشت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر معیشت کو آئی ایم ایف اہدف سے الگ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ وہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے سہولت دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے سر توڑ کوششیں بھی کیں اور سفارت کاری کو بھی اپنایا مگر آئی ایم ایف کی شرائط سخت سے سخت ہوتی چلی گئیں۔آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں عمل میں آیا اور اس کا مقصد مخلتف ملکوں کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف 190 ممالک کی معیشت کی نگرانی کررہا ہے اور ان ممالک کی معیشت کے استحکام کے لیے پالیسی حکمت عملی پر مشاورت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ کسی مالیاتی بحران کا شکار ہوئے بغیر اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بناسکیں۔یہ ادارہ کم آمدنی والے ممالک کو صفر شرح سود پر قرض فراہم کرتا ہے جبکہ دیگر ملکوں کو کم ترین شرح سود پر قرض دیتا ہے۔ اس قرض کی مالیت ایک ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ ادارہ اپنے رکن ملکوں میں جدید معاشی نظام کے قیام کے لیے تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے اہداف میں تجارتی اور معاشی ترقی اور خوش حالی میں رکاوٹ بننے والی پالیسیوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی شامل ہے۔جب کوئی ملک اپنی معیشت میں مالیاتی نظم و نسق کو بہتر طور پر قائم رکھنے میں ناکام ہوتا ہے جیسا کہ اچانک سے متعلقہ ملک کی برآمدات کم ہوجائیں یا انہیں قدرتی آفات کا سامنہ کرنا پڑے، تو اس ملک کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے اور اندرون ملک اور بیرون ملک ادائیگیاں کرنے کے لئے فنڈز کی قلت ہوتی ہے۔ تو آئی ایم ایف ہنگامی فنانسنگ فراہم کر کے ان ملکوں کی معیشت کو مستحکم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف اس بات کی یقین دہانی بھی چاہتا ہے کہ وہ ملک اپنے نظام میں ایسی بہتری لائے کہ اس کو پھر آئی ایم ایف کے پاس قرض کے لئے نہ آنا پڑے، جیسا کہ سبسڈیز کا خاتمہ، ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ، طقبہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات کا خاتمہ اور حکومتی خسارے کو کم سے کم کرنا شامل ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی سپورٹ اور پالیسی اصلاحات کی وجہ سے نجی شعبے ، کثیر ملکی مالیاتی اداروں اور بینکوں کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ اور وہ متعلقہ ملک میں نئی سرمایہ کاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں اب تک آئی ایم ایف بائےس پروگرام دے چکا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی معیشت گرداب سے نکلنے میں کامیاب ہی نہیں ہورہی ہے۔ اور ہر آنے والی حکومت کا پہلا کام آئی ایم ایف پروگرام لینا ہوتا ہے۔ ان ڈھیر سارے پروگرام کا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ یا تو آئی ایم ایف کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرسکے یا پاکستان آئی ایم ایف کی اصلاحات پر من و عن عمل نہیں کررہا ہے۔