تعلےم اور صحت کے مسائل

چیف سیکرٹری محی الدین وانی اپنے دو روزہ دورے پر استور پہنچے جہاں پر چیف سیکرٹری نے ڈی ایچ کیو ہسپتال کا دورہ کیا اور ہسپتال میں موجود وسائل اور مسائل پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان بھر میں صحت کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے دوسری جانب استور ڈی ایچ کیو ہسپتال میں آپریشن تھیٹر رن ہوا ہے لیکن بد قسمتی سے بے ہوشی کا ڈاکٹر موجود نہیں ہے اس وجہ سے لوگوں کو انتہائی مسائل کا سامنا ہے بہت جلد ڈی ایچ کیو ہسپتال میں انستھسیا کا ڈاکٹر کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی جس کے بعد مستقل آپریشنز شروع ہونگے تاہم لیبارٹری،بلڈ بنک، اور بجلی کی لو ولٹیج کے باعث ہسپتال میں جو مشینری یعنی ایکسرے مشین وغیرہ نہیں چلتی ہے اس کے لیے فوری طور پر متبادل نظام بنایا جائے گا جس کے بعد ہسپتال میں ایکسرے مشین رن ہوجائے گی۔گلگت بلتستان کے اندر بہترین تعلیم کا نظام لارہے ہیں ہم نے گلگت بلتستان کی قوم کو پڑھی لکھی بہترین یوتھ تیار کرکے دینی ہے گزشتہ ستر سالوں سے تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اگر ستر سالوں سے تعلیمی اداروں پر توجہ دیتے تو آج ہزاروں ڈاکٹرز انجینئرز ،آرٹیکچرز ،پیدا ہوتے اور یہاں کالجز اور یونیورسٹیوں کی بھر مار ہوتی بد قسمتی سے اسطرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ انشاللہ ہم تعلیم کے بہتری کے لیے دن رات کام کررہے ہیں۔ہمارے ہاں صحت کے عام مسائل شہری آبادی، ذیلی صفائی، آلودہ پانی کی فراہمی اور ناکافی سماجی اقتصادی حالات کا نتیجہ ہیں اور اس جیسے بہت سارے مسائل ہیں جن کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔نظام صحت کا اولین اور اہم ترین جزو اس کا مشن اور حکمت عملی ہے مگرحالیہ برسوں میں محض کسی وبا کے ردعمل کے طور پہ مرتب کردہ صحت پالیسی کے رجحان کو دیکھا گیا یا پھر وہ جو بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے نافذ کیا گیا گوکہ ہمارے ہاں نیشنل ہیلتھ سروسز میں متعدد مخصوص پروگرام برائے ہیپیٹائٹس، ایڈز، ٹی بی، ملیریا، انفلوینزا، انفیکشن کنٹرول، امیونائزیشن کے لئے توسیعی پروگرام، مربوط پروگرام تولیدی صحت ،زچہ بچہ، وچائلڈ ہیلتھ پروگرام اور پنجاب غذائیت پروگرام آئی۔آر۔ایم۔این۔سی۔ایچ اور این پی اور پولیو اور ڈینگی پر خصوصی مہمات شامل ہیں مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ، صحت کی پالیسی کے لئے غیر متعین اغراض اور مقاصد رکھتا ہے‘ اس کا حل یہ ہے کہ صحت کے اہم مسائل کی نشاندہی کی جائے، انہیں قابل عمل اہداف میں بانٹ دیا جائے، اثرات اور مشکلات کے تجزیہ کے مطابق ترجیحی مسائل کا انتخاب کریں اور مختلف علاقوں کے آبادی کی ضروریات کے مطابق ان کو ڈھالا جائے، ہر علاقے میں ہر مسئلے کے لئے کامیابی کے امکانات کا تخمینہ لگا کر موثر ترسیل اور عمل درآمد کے لئے حل پیش کریں۔ہمارے نظام صحت کا بنیادی ڈھانچہ ایک درخت کی مانند ہے جس کی وسیع ترجڑیں تےن شاخہ ساخت تک پھیلی ہوئی ہیں۔تےن ملین کی موجودہ آبادی کے ساتھ ، یہ نظام دیہی اور شہری علاقوں کی آبادی تک زیادہ سے زیادہ رسائی کو یقینی بناتا ہے مسئلہ تاہم اس مجوزہ دیوہیکل بنیادی ڈھانچے کی فعالیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اس سہ شاخہ ترکیب میں، اس کی بنیادوں کو سب سے کم سرمایہ اور افرادی قوت فراہم کی گئی ہے۔صحت کے لئے مختص کردہ قلیل بجٹ کو غیرمنصفانہ طورخرچ کیا جاتے ہوئے تیسرے درجے کے ہیلتھ کیئر سینٹروں اور ریاست کے بڑے شہروں میں قائم ثانوی صحت کے مراکز کو دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہ مریضوں کی بھیڑ میں عدم توازن پیدا کرتا ہے جو انہی مراکز پربھٹکتے رہتے ہیں۔ایک اور مسئلہ، تمام بنیادی دیکھ بھال کے مراکز کے لئے قابل میڈیکل ٹیموں اور متعلقہ عملے کی فراہمی ہے جبکہ ان مراکز کا قیام اور ان کو چلانے میں درپیش مشکل میں سیکےورٹی معاملات کا بھی دخل ہے۔سرکاری میڈیکل اداروں میں بڑی تعداد میں داخلہ لینے والی خواتین طالبات میں سے کچھ ڈگری مکمل کئے بغیر چھوڑ دیتی ہیں، کچھ جوان میں سے تعلیم مکمل کرلیں تو انہیں پریکٹس کی اجازت نہیں ملتی جبکہ کچھ اپنی مرضی سے ملازمت نہیں کرتی ہیں ان میں سے تقریبا نصف ایسی ہوتی ہیں جو آگے پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ تک پہنچ پاتی ہیں۔جب ان خاتون ڈاکٹروں کو دور دراز علاقوں میں واقع آر ایچ سی اور بی ایچ یو کے لئے منتخب کیا جاتا ہے تو، وہ کبھی سماجی اورکبھی سیکےورٹی کی وجوہات کے باعث اس پرعملدرآمد نہیں کرتیں۔پیشہ وارانہ لحاظ سے بھی ان کے لئے یہ زیادہ نفع بحش ہوتا ہے کہ وہ دیہی علاقوں کے بجائے بڑے شہروں کے ٹیچنگ ہسپتالوں یا خصوصی ہسپتالوں یا پھر چھوٹے شہروں میں ہی رہیں۔تعلیم ہی وہ واحدذریعہ ہے جو افراد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مثبت اور دیر پا تبدیلی کا سبب بنتا ہے ۔تعلیم سے ہی افراد کی اخلاقی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نشوونما ہو تی ہے۔جس کے نتیجے میں صحت مند معا شرہ تشکیل پاتا ہےاور صحت مند معاشرے ہی سے قو م و ملک کی ترقی کی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سب اس وقت ممکن ہو تا ہے جب اس قو م کے بچوں کو پڑھایا جانے والا نصاب اس قوم کے پس منظر ، سوچ و فکر اور اس قوم کی ضروریات و سا ئل سے ہم آہنگ ہو۔ اگر ہم اپنے ملکی تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنا تعلیمی نظام کھوکھلا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 75 سال گزرنے کے باوجود نہ ہم صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکے اور نہ ہم ایک قوم بن سکے ہیں اور نہ ہی ملک کو ترقی دینے میں کامیاب ہو سکے اس کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ناقص نظام تعلیم ہے۔ اس کی چند وجوہا ت درج ذیل ہیں۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک تہا ئی سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غذا انسان کی اہم ضرورت ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا سب سے اہم مسئلہ روٹی ہے۔ تعلیم ان کے فوری مسئلے کا حل نہیں ہے، لہذا یہ طبقہ نہ تو تعلیم کو کوئی اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے بچوں کو تعلیمی نظام کا حصہ بنانے پر رضامند ہوتا ہے۔ اس طبقے کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کچھ کمانے کے قابل ہو جائیں تو وہ روزگار میں ان کا ہاتھ بٹائیں اور روزانہ کچھ کما کر لائیں تاکہ ان کے گھر کا دال دلیہ چلتا رہے۔ جب معاشرے کا چالیس فیصد طبقہ تعلیمی نظام سے باہر ہوگاتو ان کی نہ تو نشوونما بہتر ہوگی اور نہ ہی ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے گی۔ لہذا ان حالات میں ملک کیسے ترقی کرے گا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ دستور پاکستان کی شق 25 اے کو مکمل طور پر نافذ کرکے والدین کو اس امر کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں۔ نیز حکومت ان کی غربت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وظائف مقرر کرے۔ اس طرح مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔یہ ایک المیہ ہے کہ تعلیمی پالیسیوں میں تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی پر ہمیشہ زور دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر تعلیم کے لیے فنڈز کی فراہمی جی ڈی پی کے دوفیصد سے ہمیشہ کم ہی رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تعلیم پر سات فیصد سے بھی زیادہ خرچ کرتے ہیں جس سے انہوں نے تعلیمی شعبے میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ ہمارے ہاں قلیل وسائل کی وجہ سے تعلیمی ادارے خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اگر تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم پانچ فیصد مختص کیاجائے تو اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے تمام پہلوں کو متاثر کیا ہے اور اس کے انسانی زندگی پر مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی کے استعمال سے سمعی و بصری مفادات مثلا کمپیوٹر ، ملٹی میڈیا، انٹر نیٹ نے تعلیم و تعلم کو آسان بنا دیا ہے وہیں دوسری طرف اس کے غلط استعمال نے طلبہ کی کثیر تعداد پرمنفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں اور اس کے غلط استعمال سے معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوگیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ ایک مرض لاعلاج کی شکل اختیار کرے ۔ بچوں کو سہولت تو فراہم کی جائے لیکن اس کے منفی استعمال سے اجتناب کے لیے بھی کوئی موثر لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے کیوں کہ آج کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اساتذہ اور طلبہ دونوں وٹس ایپ اور فیس بک پر تو مصروف ہیں لیکن نصاب سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ لہذا تعلیم و تعلم کے علاوہ باقی تمام ویب سائٹس بلاک کر دی جائیں۔تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی کام ہونا چاہئے یہی ان کی شخصیت اور کردار میں نکھار پیدا کرتے ہیں ان کے بغےر بچے پڑھ لکھ تو جائیں گے مگر نظم و ضبط اور متوازن شخصیت کے بغیر۔حکومت اپنی ترجیحات میں تعلیم کے فروغ کو سرِ فہرست رکھے۔ اس کے لئے نہ صرف مناسب بجٹ رکھا جائے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بجٹ کا مناسب اور صحیح جگہ پر استعمال بھی کیا جائے۔