حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا جس سے صارفین پر 15
ارب45 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا ۔ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں 46
پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی
مد میں کیاگیا۔نیپرا نے کہاکہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کااطلاق تےن ماہ
کیلئے ہو گا،اپریل مئی اور جون کے بلوں میں 46 پیسے فی یونٹ اضافی وصول کئے
جائیں گے ۔فےول اےڈجسٹمنٹ نے لوگوں کے زندگےوں میںجو زہر گھول رکھا ہے اس
کی وجہ سے وہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو چکے ہےں۔ وہ جو کماتے ہےں ےوٹےلٹی
بلوں کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع کرا دےتے ہےں جس سے عوامی نمائندے
اور خادم کہلانے والوں کے اللوں تللوں کا انتظام ہوتا ہے۔ہر مالی سال کے
آغاز میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ایک ریفرنس فیول کاسٹ دیتا
ہے۔ یعنی ایک ایسا حوالہ جس سے ہر ماہ ایندھن پر آنے والی کل لاگت کا
موازنہ کیا جا سکے۔ایک مہینے میں بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے
ایندھن کی کل لاگت دراصل ملک میں توانائی کے مختلف ذرائع میں استعمال ہونے
والے ایندھن جیسے کوئلہ، ایل این جی، فرنس آئل پر آنے والی لاگت کے اعتبار
سے نکالی جاتی ہے۔یوں ہر ماہ کے اختتام پر اس ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ کا
موازنہ ریفرنس فیول کاسٹ سے کیا جاتا ہے اور اسی حساب سے یہ ایڈجسٹمنٹ دو
ماہ کے بعد بجلی کے بلوں میں لگ کر آتی ہے۔اگر اس ماہ مجموعی فیول کاسٹ،
ریفرنس کاسٹ سے زیادہ ہو تو آپ کے بل میں ایف پی اے کی مد میں اضافہ ہو گا
جبکہ اگر اس ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ ریفرنس کاسٹ سے کم ہو تو ایف پی اے کی
مد میں کمی آتی ہے۔ اسے ہی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کہتے ہیں۔ فیول کاسٹ
ایڈجسٹمنٹ کا تعین کرنے کے لیے متعدد عوامل کار فرما ہوتے ہیں لیکن اس میں
سب سے اہم یہ ہے کہ توانائی کے کن ذرائع سے پیداوار ہوئی ہے۔اگر کوئی پاور
پلانٹ کوئلہ استعمال کرتا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ اس نے کتنا کوئلہ
استعمال کیا اور یہ کس قیمت پر خریدا گیا یعنی مجموعی طور پر بجلی کی
پیداوار توانائی کے کن ذرائع سے ہوئی اور اس پر کتنی لاگت آئی۔مثال کے طور
اگر ہائیڈل کے ذریعے بجلی کی پیداوار زیادہ ہوئی ہے تو مجموعی طور پر فیول
پرائس کم ہو جائے گی، یا اگر کسی ماہ گیس زیادہ استعمال ہوئی تو کیونکہ اس
کی قمیت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے فیول پرائس زیادہ ہو جائے گی۔ان کا مزید
کہنا تھا کہ اس میں روپے کی قدر میں کمی یا بہتری بھی اثر انداز ہوتی ہے۔اس
کی وجہ یہ ہے کہ کوئلہ، ایل این جی اور فرنس آئل درآمد کیا جاتا ہے اس لیے
روپے کی قدر میں کمی یا بہتری کا مجموعی لاگت پر براہ راست اثر پڑتا
ہے۔آئیسکو کی جانب سے اس بارے میں گزشتہ روز جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس
میں تھرمل جنریشن کے لیے سستے ایندھن کی عدم دستیابی کا بھی عمل دخل ہوتا
ہے۔ حکومت کی جانب سے پہلے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں سبسڈی دی جاتی
تھی جس کے باعث بجٹ خسارہ آتا تھا، مہنگائی میں اضافہ ہوتا اور حکومت کو
قرضہ لینا پڑتا تھا۔پھریہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے بل میں ہی لگایا جائے، چاہے
منفی ہو یا مثبت تاکہ یہ ایڈجسٹ ہو جائے۔ پہلے ایندھن کی لاگت میں بہت
زیادہ تبدیلی نہیں آ رہی ہوتی تھی لیکن گذشتہ چند ماہ سے دنیا بھر میں ایل
این جی اور کوئلے کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہونا شروع ہوا ہے۔ فیول
پرائس ایڈجسٹمنٹ دراصل دو ماہ کی تاخیر سے ہو رہی ہوتی ہے، یعنی اگست کے
مہینے کے بل میں جون کے مہینے کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ نظر آئے گی۔آنے والے
مہینوں میں ہائیڈل کا شیئر بڑھنے کے باعث مجموعی لاگت میں کمی آتی جائے
گی۔صرف فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہی نہیں بلکہ بل پر متعدد ٹیکسز بھی لگتے ہیں۔
یہ ٹیکس بل کی مجموعی قیمت پر لگائے جاتے ہیں۔ اگر آپ کبھی بل دیکھیں تو
اس کا 30 سے 32 فیصد حصہ ٹیکسز ہوتے ہیں یعنی جب آپ کے یونٹ کی قیمت بڑھتی
ہے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں اضافہ ہوتا ہے تو ساتھ ہی آپ کا جی ایس ٹی
بڑھتا ہے کیونکہ یہ تمام چیزیں منسلک ہوتی ہیں۔آئیسکو کی جانب سے جاری
اعلامیے کے مطابق بجلی کے بل پر لگنے والے ٹیکسز میں 17 فیصد جنرل سیلز
ٹیکس، الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور انکم ٹیکس شامل ہوتے ہیں۔ ایک بات صارف کے لیے
سمجھنی ضروری ہے کہ اگست کے مہینے میں بجلی کے بل میں شامل کی جانے والی
فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا براہِ راست تعلق جون کے مہینے میں آپ کے بجلی کی
استعمال سے ہے یعنی آپ نے اگر جون کے مہینے میں جولائی سے زیادہ بجلی
استعمال کی ہے تو عین ممکن ہے کہ اگست کے بل میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی
مد میں لی جانے والی رقم آپ کے اصل بل کی رقم سے بھی زیادہ ہو۔بجلی کے بلوں
کی قیمتوں میں اضافے پر سوشل میڈیا پر خاصا سخت ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا
ہے اور لوگ موجودہ حکومت سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ وہ اتنا زیادہ بل کیسے
ادا کریں۔ جتنے خوفناک اور ناقابلِ برداشت، ناقابلِ قبول بجلی کے بل آتے
ہیں ۔یہ ظلم ہے غریب اور مڈل کلاس عوام پر۔ کمرشل کے بل ایسے کہ خدا کی
پناہ، لوگ کاروبار بند ہونے کی دہائیاں دے رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل لاہور
ہائیکورٹ نے بجلی بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو غیر قانونی قرار دیا
تھا۔فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کرنے کا اقدام مختلف شہریوں کی جانب سے
ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔عدالت نے گھریلو صارفین کو پانچ سویونٹس تک
سسبڈی دینے کا حکم دیا تھا جبکہ وفاقی حکومت کو متبادل ذرائع سے بجلی پیدا
کرنے کی بھی ہدایت کی۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ وفاقی حکومت
نے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی منظوری دی،بجلی بلز میں فیول ایڈجسٹمنٹ
قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں، عدالت بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کو
کالعدم قرار دے ۔پٹرول، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر ٹیکس اور
اضافے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کیوں چاہتا ہے کہ
پاکستان میں ہر چیز خصوصا پیٹرول، بجلی، گیس وغیرہ عوام کے لیے مہنگی ہو۔
پاکستان میں پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں کا تعین آئی ایم ایف نہیں بلکہ
نیپرا اور اوگرا جیسے ریگولیٹر کرتے ہیں۔ یہ ریگولیٹر جن قیمتوں کا تعین
کرتے ہیں حکومت اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث وہ قیمتیں صارفین تک نہیں
پہنچا پاتی جس کے باعث حکومت کو سبسڈی دینی پڑتی ہیں اور حکومت کو اس مد
میں خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جب آئی ایم ایف یہ کہتا ہے کہ آپ ریگولیٹر
کی جانب سے مقرر کردہ قیمت صارفین تک براہ راست پہنچائیں تو حکومت کو اضافہ
کر کے خسارے کو کم کرنا پڑتا ہے اور بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمت بڑھ
جاتی ہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت کو درست سمت میں لانے کے لیے جو اقدامات
اٹھانے پڑتے ہیں اس سے مہنگائی ہوتی ہے۔ گیس، بجلی اور پیٹرول کے نرخوں پر
دی جانے سبسڈی ختم کرنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے حکومت کا مالی
خسارہ کم ہو گا۔ مگر اس کا ملبہ عام صارف پر پڑتا ہے اور اس کی قوت خرید کم
ہو جاتی ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان سے کہتا ہے کہ آپ اپنی کرنسی کو فری فلوٹ
پر رکھیں اور مصنوعی طور پر اس کو مت روکیں تو اس سے آپ کے روپے کی قدر
میں کمی ہوتی ہے اور درآمدات کی صورت میں آپ مہنگی چیزیں درآمد کرتے ہیں
اور اس کا اثر بھی صارف پر پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے
کہ آپ صارفین سے کسی بھی چیز یعنی، گیس، بجلی و پیٹرول کی اصل قیمت وصول
کریں‘دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی
معاملات پر اتنا اثر رسوخ رکھتا ہے تو پاکستان کو قرض دینے میں تاخیر کیوں
کر رہا ہے؟ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف میں اس وقت
اعتماد کا فقدان ہے اور اسی وجہ سے آئی ایم ایف کے رواں پروگرام کا ساتواں
جائزہ اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہوا اور اب نوویں مشن کا جائزہ اجلاس بھی
نومبر سے تاخیر کا شکار ہوتے ہوئے ےہاں تک آ گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ
اسحاق ڈار نے بھی سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان
حکومت نے اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے سے انحراف کیا اور معاہدے کے کلیدی نکات
کے برعکس فیصلے کرتے ہوئے اس کو ماننے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں
آئی ایم ایف کا معاہدہ تعطل کا شکار ہوا اور آئی ایم ایف اور پاکستان کے
درمیان بھروسے کے حوالے سے ایک وسیع خلیج آ گئی۔ آئی ایم ایف پاکستان کو
قرض کی قسط جاری کرنے سے اس لیے ہچکچا رہا ہے کیونکہ گذشتہ برس ستمبر میں
ساتویں اور آٹھویں جائزہ اجلاس کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو معیشت کے
حوالے سے چند اقدامات اٹھانے کے لیے کہا تھا جن میں گیس، بجلی پیٹرول سمیت
دیگر چند سبسڈیز ختم کرنا شامل تھا لیکن حکومت نے اس اقدامات میں تاخیر کی
ملکی خزانہ کے ذخائر تین ارب سے بھی نیچے آ گئے۔ حکومت نے سیاسی وجوہات کے
باعث اقدامات نہیں کیے کیونکہ یہ براہ راست عوام پر اثر انداز ہونے تھے۔
آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ پہلے پاکستان یہ اقدامات اٹھائے، غیر ضروری
سبسڈیز کو ختم کرے اور اپنے خسارے کو کم کرے تو ہم آپ کے ساتھ مذاکرات کا
سلسلہ آگے بڑھا سکتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض جاری
کرنے میں ہچکچاہٹ کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ آئی ایم ایف ایک بینک ہے اور
کوئی بھی بینک قرضہ دیتا ہے تو اسے یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس کو اپنی
رقم واپس مل سکے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت دو بڑے مسائل سے دوچار ہے، ایک
بجٹ مالی خسارہ اور دوسرا کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ہے، ہمیں ان دونوں خساروں کو
کم کرنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے آئی ایم ایف میں پاکستان کو
قرض جاری کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔آئی ایم ایف کا ایک پالیسی ڈھانچہ ہے اور وہ
اس کے تحت ہی کسی ملک کو پرکھ کر قرض جاری کرتے ہیں۔