
مقبوضہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس کا ناروا بھارتی اقدام
وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کے حوالے سے کانفرنس کروا رہا ہے اس میں ہمارے دوست ممالک بھی شامل ہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، بھارت اپنے علاقے میں جہاں مرضی کانفرنس کرے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید کہا کہ گلگت بلتستان میں کوئی فارن انوسٹر آتا ہے تو بھارت کو اس پر اعتراض ہوتا ہے، مقبوضہ کشمیر بھارت کے قبضہ میں ہے بھارت کیسے وہاں کانفرنس کروا سکتا ہے، فارن آفس خواب سے جاگے، بلاول بھٹو زرداری اس کانفرنس پر پوزیشن لیں اور فارن دورے چھوڑکر کشمیر پر توجہ دیں،ہم نے اس پر فارن آفس کو لیٹر بھی لکھے ہیں اور فارن آفس نے ہمارے رابطہ کرنے کے بعد آج اپنی سٹیٹمنٹ دی ہے۔وزیر اعلی خالد خورشید نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جی20کانفرنس کے معاملے پر پاکستان دوست ممالک کو انگیج کرسکتا ہے۔مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا، کشمیری ہماری طرف دیکھ رہے ہیں،خالد خورشیدنے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے تنازع کا فیصلہ ہونے تک دونوں اطراف کے منقسم خاندانوں کی ملاقات کے لئے راستہ ہونا چاہئے،بھارتی وزیردفاع کے بے سروپا بیانات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلی نے کہا کہ ہمارے آبائو اجداد نے قربانیاں دے کر گلگت بلتستان کو آزاد کرایا اور ہمارے مستقبل کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔پاکستان نے جموں کشمیر کے متنازعہ اور منقسم خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں جی ٹوئنٹی کے دو اجلاسوں کے مستقبل قریب میں مجوزہ انعقاد کے نئی دہلی حکومت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی کی دہلیز پر کھڑے دنیا کے بیس ممالک کے گروپ جی ٹوئنٹی کے دو اجلاسوں کے لیے نئی دہلی حکومت کی طرف سے ایک متنازعہ خطے میں دو مقامات کا انتخاب کیا جانا قابل مذمت ہے۔بھارت نے، جو اس وقت ایک سالہ مدت کے لیے جی ٹوئنٹی کی سربراہی کر رہا ہے، گزشتہ جمعے کے روز ہی یہ سرکاری شیڈول جاری کیا تھا کہ بیس کے گروپ کی اگلی سربراہی کانفرنس اور اس سے پہلے کئی طرح کے اجلاس کب اور کہاں کہاں منعقد کیے جائیں گے۔بھارتی حکومت کو اس سال ستمبر کے اوائل میں جی ٹوئنٹی کے سربراہان مملکت و حکومت کی ایک کانفرنس کی میزبانی نئی دہلی میں کرنا ہے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق اس گروپ کی صدارت کے عرصے میں بھارت کو جن کئی اجلاسوں کی میزبانی کرنا ہے، ان میں سے دو اجلاس اسی اور اگلے مہینے بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لداخ میں ہوں گے۔بھارت جی ٹوئنٹی میں بھی ہندوتوا ایجنڈے کی تشہیر کی کوشش کر رہا ہے۔ان میں سے جی ٹوئنٹی کی ایک میٹنگ مقبوضہ کشمیرکے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں رواں ماہ اپریل میں ہو گی جبکہ یوتھ ٹوئنٹی کے نام سے ایک اجلاس کا انعقاد مئی میں کشمیر کے ہمسایہ خطے لداخ میں لیہہ کے مقام پر ہو گا۔اس بارے میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، بھارت کا یہ غیر ذمہ دارانہ اقدام اس کی طرف سے اپنے ہی فائدے کے لیے کیے جانے والے ان اقدامات کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے، جن کے تحت وہ جموں کشمیر پر اپنا غیر قانونی قبضہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔پاکستان بھارت کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج اصولوں اور بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ پاکستان نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس منعقد کرنے کے فیصلے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں جی ٹوئنٹی ممالک کے ٹورازم ورکنگ گروپ کا اجلاس بلانا سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے، پاکستان ایسے اقدامت کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع حقیقت کو چھپایا نہیں جاسکتا جو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ بھارت ان ہتھکنڈوں کے ذریعے مقبوضہ علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی غیر قانونی کوششوں سمیت نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے وحشیانہ مظالم سے بین الاقوامی برادری کی توجہ نہیں ہٹا سکتا۔ جی 20 اجلاس 22 سے 24 مئی کے دوران مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں بلایا گیا ہے، بھارت نے گزشتہ سال دسمبر میں جی 20 فورم کی صدارت سنبھالی تھی اور فروری سے کئی پروگراموں کی میزبانی کر رہا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مارچ کے اوائل میں امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی ایشیائی سلامتی کے جائزے میں واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کو لیکر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک مکمل جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان نے بھارت کے سری نگر میں جی 20 اجلاس منعقد کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے جو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔اس طرح کی سرگرمیوں سے کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ایسی سرگرمیاں مظلوم کشمیریوں پر پر بھارت کے وحشیانہ جبر سے عالمی برادری کی توجہ نہیں ہٹا سکتیں، بھارت ایک بار پھر ثابت کررہا ہے کہ وہ عالمی فورم کا رکن بننے کا اہل نہیں ہے۔مگر بھارت نے اپنے جی 20 کیلنڈر کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے سیاحت ورکنگ گروپ کا اجلاس 22 سے 24 مئی کو شیڈول کر دیا ہے۔ بھارت نے جی20 سربراہی اجلاس مقبوضہ کشمیر میں کرانیکی تیاریاں گزشتہ برس سے ہی شروع کردی تھیں۔انڈین ایکسپریس میں گزشتہ برس شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت نے متنازع خطے میں اگلے برس جی 20 اجلاس کی میزبانی کا فیصلہ کرلیا ہے اور ایونٹ کے انتظام کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔علاوہ ازیں ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت کی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پہلی بین الاقوامی سمٹ ہوگی۔پاکستان نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع خطہ ہے۔ خطے پر بھارت کا 1947 سے جبری اور غیرقانونی قبضہ ہے اور یہ تنازع گزشتہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جی 20 سے متعلق اجلاس یا ایونٹ رکھنے کی منصوبہ بندی خطے کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع حیثیت کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی اور اس دھوکا دہی کو عالمی برادی کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی۔جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یہ وہاں منعقد ہونے والی پہلی بڑی بین الاقوامی کانفرنس ہو گی۔ پانچ اگست 2019 کو مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے مرکز کے دو زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔جی ٹوئنٹی دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کی تنظیم ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں ان 20 ممالک کا حصہ 80 فیصد ہے۔گذشتہ سال ستمبر میں انڈیا کی مرکزی حکومت نے وزیر تجارت اور صنعت پیوش گوئل کو جی 20 کے لیے انڈیا کا نمائندہ قرار دیا تھا۔کچھ لوگوں نے جموں و کشمیر میں جی 20 سربراہ اجلاس کے انعقاد کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے ایک سٹریٹیجک اقدام قرار دیا ہے لیکن سب سے پہلے پاکستان نے اس پر اعتراض کیا۔26 جون کو پاکستان نے انڈیا کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے۔عبدالباسط، جو انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ انڈیا نے بہت چالاکی سے جی 20 کی منصوبہ بندی کی اور پاکستان کو بہت احتیاط سے اس پر آگے بڑھنا ہو گا۔پاکستان چین، سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا سے کہے کہ وہ اس سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کریں لیکن ان ممالک کو اب جموں و کشمیر میں ہونے والے ایونٹ پر اعتراض کرنا پڑے گا، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔انڈیا اس میں کئی خلیجی ممالک کو بطور مہمان مدعو کرنا چاہتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ پچھلے مہینے یو اے ای کے صدر خود مودی کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر کھڑے ہوئے تھے۔ اگر پاکستان جموں و کشمیر میں ایسا ہونے سے نہیں روک سکا تو یہ بڑا دھچکا ہو گا۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ہم نے اس حالیہ پیشرفت کو نوٹ کیا ہے۔ جموں و کشمیر پر چین کا موقف واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس حالیہ پیشرفت کو نوٹ کیا ہے۔ جموں و کشمیر پر چین کا مقف واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔کشمیر کا مسئلہ ماضی سے متنازع ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قرارداد کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ دونوں فریقوں کو یکطرفہ طور پر ایسا کچھ کرنے سے گریز کرنا چاہیے، جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو۔ بات چیت کے ذریعے حل تلاش کیا جائے۔ یہ علاقائی امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔